علامہ سید غلام شبیر بخاری (1)

علامہ سید غلام شبیر بخاری (1)
علامہ سید غلام شبیر بخاری (1)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ملک کے ممتاز ماہر تعلیم، دانشور، ادیب، شاعر اور مفسر قرآن علامہ سید غلام شبیر بخاری 21 جون2012ءبوقت آٹھ بجے صبح مختصر علالت کے بعد اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ علامہ مرحوم2 جولائی1918ءکو چونیاں میں پیدا ہوئے، ان کی ابتدائی تعلیم بہاولپور میں ہوئی۔ اس کے بعد ایس ای کالج بہاولپور سے بی اے کیا۔ اس دور میں نواب بہاولپور صادق محمد خان عباسی نے مسلمانوں میں تعلیم عام کرنے کے لئے علی گڑھ کی طرز پر بہاولپور کو تعلیمی سرگرمیوں کا مرکز بنایا تھا، جہاں ہندوستان بھر کے مسلمانوں کی تعلیم و تدریس کا بلا ٹیوشن فیس مع رہائش، مفت کھانے کا کماحقہ انتظام تھا۔ اس دور میں ضیاءالدین احمد کالج کے پرنسپل تھے، جو ایک نہایت شفیق باپ کی طرح طلباءکی تعلیم و تربیت کا خیال رکھتے تھے۔ مسجد میں علامہ صاحب اذان دیتے تھے اور پرنسپل صاحب امامت کرتے تھے۔ علامہ صاحب نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد ملازمت کا آغازکیا اور پھر بی ٹی کے لئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی تشریف لے گئے۔ علی گڑھ میں ان کا قیام 1942-45ءتک رہا، جہاں انہوں نے تعلیم کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی کی علمی و ادبی محفلوں میں بھرپور حصہ لیا۔ اس دور کے معروف ماہرین تعلیم اور اساتذہ، ڈاکٹر ڈبلیو، ایچ صدیقی، ڈاکٹر نور جہاں یوسف، پروفیسر حبیب الرحمن اور پروفیسر عبدالغفور چودھری سے استفادہ کیا۔
پروفیسر عبدالغفور چودھری ایک شفیق استاد تھے۔ وہ انہیں اس دوران جامعہ ملیہ دہلی میں ڈاکٹر ذاکر حسین کے پاس لے گئے، جہاں ڈاکٹر ذاکرحسین نے علامہ صاحب کو ملازمت کی پیش کی کی۔ علامہ صاحب چونکہ بہاولپور گورنمنٹ کی طرف سے گئے تھے، اس لئے ان کو واپس آنا پڑا۔ اس دوران انہوں نے ایم اے تاریخ بھی کر لیا۔ علی گڑھ میں قیام کے دوران علامہ صاحب کو ہندوستان کے مشاہیر سے ملنے کا موقع ملا۔ وہ کسی بھی معروف شخصیت سے وقت مقرر کر کے چھٹی کے دن ان سے ملاقات کرتے۔ ایک سوالنامہ تیارکر کے ان سے سوال کرتے اور جواب لکھتے جاتے اور مختلف مضامین میں بطور حوالہ ان کو شامل کرتے۔ جن لوگوں سے انہوں نے ملاقات کی، ان میں سرشاہ محمد سلیمان، خواجہ غلام السیدین، موہن داس کرم چند گاندھی، رابندر ناتھ ٹیگور، علامہ عنایت اللہ مشرقی، عطاءاللہ شاہ بخاری، مولانا ابوالکلام آزاد، نوابزادہ لیاقت علی خان، سردار عبدالرب نشتر، نواب بہادر یار جنگ قابل ذکر ہیں۔
علامہ صاحب نے تحریک پاکستان میں بھرپور حصہ لیا۔ قائداعظم کے ساتھ ان کو بہت عقیدت تھی۔ قائداعظم سے ملاقات کے دوران جب ان سے قوم کے لئے پیغام کی درخواست کی ، تو انہوں نے "Achieve Pakistan or Perish" لکھ کر دیا، جسے علامہ صاحب نے بطور ایک ”موٹو“ استعمال کیا۔ انہوں نے حافظ نذر احمد (سیکرٹری جنرل مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن) کے ساتھ مل کر قائداعظمؒ کے پیغام کو نوجوانوں اور عام لوگوں تک پہنچانے کی سعی میں بھرپور حصہ لیا۔ ان دونوں حضرات نے ستائش کی پروانہ کرتے ہوئے تحریک پاکستان کے لئے بے مثال کام کیا۔ یہاں یہ کہنا بے محل نہ ہوگا کہ ان شخصیات نے گمنام سپاہی کی طرح دن رات خدمات سر انجام دیں، مگر کسی قسم کے انعام یا صلے کی تمنا نہ کی۔ تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کا فرض تھا کہ وہ ان کی خدمات کا اعتراف کرتا مگر ایسا نہیں ہُوا۔
  علامہ شبیر بخاری شاعر مشرق علامہ محمد اقبال مرحوم کے شیدائی تھے۔ ان سے خط و کتابت کے ساتھ ساتھ بار ہا ملاقات بھی کی۔ ان کے رنگ میں نظمیں بھی لکھیں۔ شاعر مشرق کی شاعری پر بے شمار تقاریر کیں اوران میں حصہ لیا۔ ہارورڈ یونیورسٹی میں جب گئے تو وہاں امریکن فلاسفر راتھن سٹین اور علامہ اقبال کے مابین خط وکتابت کا مسودہ انہیں ملا اور اپنے مو¿قر جریدے تفکر میں یہ خطوط تفصیل سے شائع کئے۔ علامہ اقبال کی فارسی اور اردو کی بے شمار نظمیں انہیں ازبر تھیں۔ اسی طرح دیوان حافظ شیرازی اور شیخ سعدیؒ بھی ان کو زبانی یاد تھا۔ علامہ شبیر بخاری کی نظموں کا مجموعہ سوز دروں ایک شاہکار تصنیف ہے جس میں ہمیں ان کے افکار کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ علامہ صاحب نے آل انڈیا معیار کے مشاعروں میں شرکت کی، جہاں ان کی نظموں کو سراہا گیا۔ ایک یادگار آل انڈیا مشاعرہ بہاولپور میں منعقد ہوا تھا، جس میں ہندوستان بھر کے معروف شعراءنے حصہ لیا۔ اس کی میزبانی علم دوست شخصیت نواب آف بہاولپور نے فرمائی۔
علامہ صاحب نے نبی پاک کے ارشاد عالیہ کی روشنی میں....”اِنی بعثت معلما“.... کے مصداق تعلیم و تدریس کے لئے اپنی زندگی وقف کر دی تھی۔ انہوں نے اپنی ملازمت کا آغاز ایک استاد کی حیثیت سے کیا۔ ابتدائی دور میں انہوں نے بہت سختیاں جھیلیں، رشوت اور نخوت کے سامنے زندگی بھر سر نہ جھکایا۔ ضیاءالدین مرحوم پرنسپل ایس ای کالج اور بہاولپور ڈائریکٹر تعلیمات بھی تھے۔ انہوں نے علامہ صاحب کی تقرری اور بہاولپور تعیناتی کا حکم دیا تھا، مگر ایک صاحب نے جو رشوت کے بغیر کوئی کام نہ کرتے تھے، علامہ صاحب سے پہلی تنخواہ بطور نذرانہ طلب کی۔ علامہ صاحب نے انکار کیا تو اس نے ایک دور دراز جگہ ڈاہرانوالہ میں ایک غیر منظور شدہ پوسٹ پر ان کو لگا دیا جو ایک سال بعد Activate ہونا تھا، نتیجتاً ان کو تنخواہ کے بغیر اور ایسی جگہ جہاں جانا بے حد مشکل تھا۔

 ایک سال تک جانا پڑا۔ یہ سائیکل پر جاتے تھے۔ یہ تکلیف انہوں نے نہایت صبر و استقامت سے برداشت کی اور اپنی مشہور نظم ڈھرانوالہ اور رشوت خور شخص پر لکھی۔ ڈھرانوالہ اب تو شاداب جگہ ہے۔ علامہ صاحب کی نظم وہاں سکول میں اب بھی لکھی ہوئی ہے اور یہ نظم سوز دروں میں موجود ہے۔ رشوت خور پر نظم:....”جب تک نہ دو گے حاجی کو نذرانہ “....کی بہت شہرت ہوئی۔ حاجی صاحب مرنے کے قریب تھے تو علامہ صاحب سے معافی مانگنے گئے، انہوں نے اسے معاف کر دیا تھا۔ ڈاھرانوالہ قیام کے دوران دو واقعے ہوئے۔ ایک تو سخت لو کی وجہ سے ان کو آنکھوں کا مرض ہوگیا۔ دوسرا جب ایک بار وہ سائیکل پر جا رہے تھے، ان کو سخت پیاس لگی، مگر پانی کا نام و نشان نہیں تھا، اچانک ایک جگہ راستے میں تھوڑا سا پانی ان کو نظر آیا، مگر اس میں ایک کتا بیٹھا تھا، علامہ صاحب کے لئے زندگی بچانے کی خاطر اور کوئی چارہ نہ تھا۔ کتے کو بھگایا اور مجبوراً وہ پانی پینا پڑا۔ اس کے بعد وہ بہت عرصہ معدے کے مرض میں مبتلا رہے۔ ملازمت کے دوران بتدریج اپنی محنت اور قابلیت کی بناءپر ترقی کی منزلیں طے کرتے رہے۔ ہیڈ ماسٹر بنے تو اس معیار کے ہیڈ ماسٹر جیسےRugby School England کے ہیڈ ماسٹر Thomas Arnold تھے۔ ان کے بیٹے Mathew Arnold نے اپنے باپ کے بارے میں جو لکھا، اسی انداز میں لکھنے کا شرف اب مجھے مل رہا ہے۔ اسی دوران بہاولپور کے وزیراعلیٰ مخدوم زادہ سید حسن محمود جو علامہ صاحب کے بہت بڑے مداح تھے، نواب آف بہاولپور کی خواہش پر ان کو بہاولپور لے آئے اور ان کے ذمے کم وقت اور کم لاگت سے زیادہ سے زیادہ تعلیم پھیلانے کے منصوبہ تنظیم مکاتب کا انچارج بنایا۔
  علامہ صاحب نے بہاولپور، رحیم یار خان، بہاولنگر کے دور دراز علاقوں میں سفر کیا جو ایک نہایت تکلیف دہ کام تھا، کہیں سائیکل پر جا رہے ہیں، کہیں گاڑی پر جا رہے ہےں، کہیں پیدل جا رہے ہیں، نہ دن کو آرام نہ رات کو چین۔ ایک مشن اور عبادت سمجھ کر یہ کام کیا اور اس منصوبے کو کامیابی سے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ ایک معروف امریکن سکالر ڈاکٹر فری لینڈ کے ایبٹ جس کا تعلقTuft University USA سے تھا اور دیگر بہت سے بین الاقوامی ماہرین جن میں مسٹر کرلٹس فیرر خاص طور قابل ذکر ہیں۔ اس حیرت انگیز تجربے کو دیکھنے کے لئے بہاولپور آئے۔ ورلڈ بنک کی ایک ٹیم بھی اس منصوبے کی Feasibility Report کے لئے آئی۔ ڈاکٹر فری لینڈ ایبٹ نے معروف میگزین Saturday Review میں ایک مفصل مضمون شائع کیا، جس میں اس نے تجویز دی کہ اسی طرز پر چرچ سکول بھی قائم کئے جاسکتے ہیں۔ علامہ صاحب اس دوران ایم اے تاریخ کے بعد ایم اے اردو بھی کر چکے تھے۔
اس تمام دور میں علامہ صاحب نے اپنے علمی اور تدریسی تجربات کی بناءپر نصاب تعلیم اور نظام تعلیم کے حوالے سے بہت سی نئی جہتوں کا آغاز کیا۔ انہوں نے بطور سیکشن آفیسر، انسپکٹر آف سکولز ڈپٹی سیکرٹری ایجوکیشن، ڈائریکٹر ایجوکیشن اور ویسٹ پاکستان کے ایڈیشنل ڈی پی آئی اور محکمہ اوقاف میں بطور مشیر تعلیم کام کیا۔
انہوں نے Special Education کے حوالے سے نابیناو¿ں کے لئے نصاب تعلیم مرتب کیا۔ اس دوران ہیلن کیلر اور سرکلو تھامیکنزی جیسی شخصیات سے ملاقات کی اور انکی مشاورت سے نابینا افراد کی بہتری کے لئے بہت سے منصوبے بنائے۔ میڈیا مار یا مانٹی سوری سے ملاقات کی اور مانٹی سوری سسٹم تعلیم کی ترویج کے لئے ٹھوس تجاویز حکومت کو پیش کیں۔ ملک میں مختلف تعلیمی پالیسیوں کی تدوین میں شریک تھے وہ وحدت نظام تعلیم کے داعی تھے۔ بہاولپور میں اساتذہ کی بہبود کے لئے انہوں نے بہت سے کام کئے جن میں ایک کارنامہ بیت المعلمین کا قیام ہے۔ علامہ صاحب نے زندگی ایک مجاہد کی طرح گزاری۔ ملازمت کے دوران کسی بھی غلط بات کے خلاف ڈٹ جاتے تھے۔ ان کی ملازمت کے دوران دو واقعات ہوئے جنہوں نے ان کا ایمان اور پختہ کر دیا۔ ٭

مزید :

کالم -