اوباما جیت جائیں گے
ہم امریکی صدر بل کلنٹن کو پسند کرتے ہیں۔ان کا دور اقتدار امریکہ کے لئے ایک اچھا زمانہ تھا، وہ ایک بار پاکستان بھی گئے تھے،ان دنوں ہم اسلام آباد میں تھے انہوںنے براہ راست پاکستانی قوم سے خطاب کیا۔ہم نے ان سے ٹیلی ویژن اسکرین کے ذریعے ملاقات کی۔ جان ایف کینیڈی کے بعد یہ پہلے صدر ہیں، جو ہمیں اچھے لگتے ہیں۔ان کی بہت سی باتیں اور کام یادگار ہیں۔جب وہ صدارت سے فارغ ہوئے تو بھی سماجی، معاشرتی اور فلاحی کاموں میں حصہ لیتے رہے۔ امریکہ میں اکثر صدور فراغت کے بعد اپنے گھر جا کر آرام کرتے ہیں اور عام زندگی سے دور رہتے ہیں، لیکن بل کلنٹن باقاعدہ حکومت کے کاموں میں ہاتھ بٹاتے ہیں، ان کی بیگم ہیلری کلنٹن تو موجودہ حکومت کا اہم حصہ ہیں۔
بل کلنٹن نے حال ہی میں دعویٰ کیا ہے کہ انتہائی مقابلے کے باوجود ڈیمو کریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار بارک اوباما انتخاب جیت لیں گے۔وہ پانچ یا چھ پوائنٹ سے انتخاب جیت جائیں گے۔چھ نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں صدر اوباما کے مدمقابل ڈیمو کریٹک پارٹی کے مٹ رومنی ہار جائیں گے۔بل کلنٹن نے کہا کہ اوباما کے حامیوں کو زیادہ کوشش کرنی چاہیے، تاکہ ان کی جیت یقینی ہو جائے ۔امریکہ میں روایت ہے کہ جو ایک ٹرم کے لئے صدر منتخب ہوتا ہے، وہ دوسری بار بھی جیت جاتا ہے، لیکن بارک حسین اوباما کا ذرا مشکل رہا ہے، کیونکہ انہیں جانے والے صدر بش کی اُگائی ہوئی فصل کاٹنی پڑی۔
پاکستان میں جو حکومت آتی ہے، وہ ہر ذمہ داری جانے والی حکومت پر ڈال دیتی ہے اور اپنے دور میں کام سے زیادہ الزام لگاتی رہتی ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب وہ جاتے ہیں تو دوسرے آنے والے ان کی خبر لیتے ہیں۔یہ سلسلہ جاری ہے، لیکن امریکہ میں ایسا نہیں ہوتا۔بیروزگاری،مالی بحران جنگی اخراجات کے بارے میں صدر اوباما نے صدر بش پر کبھی الزام نہیں لگایا۔خود ہی کوشش کی کہ سب کچھ درست کرلیں۔
بدقسمتی سے آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے، اس لئے صدر اوباما اپنا وہ وعدہ جس میں انہوں نے تبدیلی کے لئے کہا تھا، پوری طرح مکمل نہیں کرسکے۔ انہوں نے اسامہ کو ختم کرنے کا کارنامہ تو کیا، لیکن پاکستان کو ناراض کر بیٹھے، نیٹو سپلائی بند ہوئی، مسائل بڑھ گئے۔
صدر بش نے جنگ شروع کی تھی، اوباما اسے ختم کرنے کی کوشش کررہے ہیں، لیکن اس سے جان چھڑانا ایک مشکل مرحلہ ہے۔انہوں نے عراق میں تو جنگ پر قابوپالیا....فوجیں واپس بلا لیں، لیکن عراق میں امن قائم نہ کرسکے،وہاں ہر روز خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے۔
افغانستان میں بارود کی بُو ہے۔بغیر شناخت، بے نام اور بے چہرے کے دشمن سے جنگ جاری ہے ۔دور دور تک اس کا انجام نظر نہیں آتا۔ایک دلدل ہے،جس میں پاﺅں پھنس گئے ہیں اور یہ سب صدر اوباما کو پریشان کرتا ہے،جس کا اثر امریکی عوام کے حالات پر پڑتا ہے، جبکہ حزب اختلاف کے امیدوار بآسانی ان مسائل کی طرف اشارہ کرکے ذمہ داری صدر اوباما پر ڈالتے ہیں۔امریکہ میں عوامی سروے کے مطابق اوباما کی مقبولیت میں خاصی کمی ہوئی ہے۔بعض وقت تو یہ خطرے کی حد تک پہنچ جاتی ہے، لیکن بل کلنٹن کے بیان کے بعد ایک امید پیدا ہوگئی ہے۔ان کے حمایتی ایک نئے جذبے اور ولولے کے ساتھ کام کریں گے۔بل کلنٹن یہی توقع رکھتے ہیں، ہم بھی یہی امید رکھتے ہیں کہ صدر اوباما کو ایک موقع اور ملنا چاہیے، تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھاسکیں۔
صدر جارج بش جونیئرکی پہلے چار سال میں کارکردگی متنازعہ تھی،وہ بھی دوسری بار صدر منتخب ہوئے تھے۔صدر بارک حسین اوباما تو ہر ممکن کوشش کررہے ہیں کہ کسی طرح تبدیلی لا سکیں۔توقع یہی ہے کہ جلد افغانستان سے فوجوں کو واپس بلا لیں گے اور اپنا انتخابی وعدہ پورا کرسکیں گے۔ہم چونکہ بل کلنٹن کو پسند کرتے ہیں، اس لئے ان کے بیان کو بھی پسند کرتے ہیں اوریہی توقع کرتے ہیں کہ صدر اوباما اپنی دوسری مدت صدارت بھی جیت جائیں گے اور امریکہ خوشحالی کے نئے دور میں داخل ہو جائے گا۔