سلسلہ نوشاہیہ کی ادبی تاریخ، ایک جائزہ
تصوف کے نامور سلسلہ قادریہ کی ایک شاخ نوشاہیہ کہلاتی ہے، اس کے بانی حضرت نوشہ گنج بخشؒ ہیں۔ تذکروں سے پتا چلتا ہے کہ آپؒ کی تبلیغی سرگرمیوں کا دائرہ بہت وسیع تھا۔ ہزاروں لوگوں نے آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ اکبری دور کے الحاد کو ختم کرنے میں آپ کی مساعی قابل ذکر ہیں۔ آپ کی صوفیانہ شخصیت اور اصلاح باطن کی تحریک کا ذکر تو ماضی قریب تک ہوتا آیا ہے، لیکن گزشتہ صدی کے آخری نصف میں آپؒ اور آپ کے سلسلہ سے وابستگان کی فارسی، اردو، عربی اور پنجابی کے حوالے سے ادبی خدمات بھی تحقیق کا موضوع بننے لگیں۔ بعض لوگوں نے نوشہ صاحبؒ کو بطور شاعر ماننے میں تامل کا اظہار کیا، لیکن نوشاہی سلسلے کے اب تک اتنے تخلیقی کام سامنے آگئے ہیں کہ شکوک و ترددات کی فضا چھٹنے لگی ہے۔
گورنمنٹ اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور کے شعبہ اردو کے استاد جناب ڈاکٹر محمد اصغر یزدانی نے جب اردو میں پی ایچ ڈی کی سطح پر کام کرنے کا عزم باندھا تو کراچی یونیورسٹی کے ممتاز سکالر جناب ڈاکٹر معین الدین عقیل نے انہیں ”سلسلہ نوشاہیہ کی اردو خدمات“ کا موضوع تجویز کیا۔ یونیورسٹی نے ڈاکٹر عقیل کو یزدانی صاحب کے تحقیقی کام کا سپر وائزر مقرر کیا۔ 2009ءمیں ڈگری ایوارڈ ہوئی۔ یزدانی صاحب نے مقالے پر نظر ثانی کرنے کے بعد اسے ”سلسلہ نوشاہیہ کی ادبی تاریخ“ کے عنوان سے الفتح پبلی کیشنز راولپنڈی سے شائع کروا دیا ہے۔ (ادارئہ معارف نوشاہیہ، 69 ماڈل ٹاو¿ن ہمک، اسلام آباد سے بھی دستیاب ہے)464 صفحات پر پھیلے ہوئے اس تحقیقی کام کو پانچ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے: سلسلہءنوشاہیہ کا پس منظر اور تعارف، پنجاب میں سلسلہءنوشاہیہ کا پس منظر اور تعارف،پنجاب میں سلسلہ نوشاہیہ کا ہم عصر علمی و ادبی ماحول، سلسلہ ءنوشاہیہ کے اہم مصنفین، سلسلہ ءنوشاہیہ کے مصنفین کی اہم اردو تصانیف اور اردو ادب میں سلسلہ نوشاہیہ کا مقام و مرتبہ، فہرست مآخذ کے ساتھ ساتھ اشاریے (انڈیکس) کا اہتمام کر کے فاضل مصنف نے اپنی تحقیقی پیش کش کو بہت قابل قدر بنا لیا ہے۔یزدانی صاحب کی تحقیق کے مطابق بانیءسلسلہ نوشہ صاحب کا اصل نام حاجی محمد اور لقب نوشہ، خطاب گنج بخش تھا۔ لقب نوشہ کو آپ نے شاعری میں تخلص کے طور پر استعمال کیا ہے۔ آپ کے والد علاو¿ الدین نے سات حج پیدل کئے تھے۔ ان کا اور ان کی اہلیہ کے مزارات گھگاں والی، تحصیل پھالیہ، ضلع منڈی بہاو¿ الدین میں اب بھی مرجعءخلائق ہیں۔ حضرت نوشہ گنج بخشؒ یہیں 1552ءمیں پیدا ہوئے اور 1654ءمیں وصال فرما گئے۔ انہیں سلسلہ قادریہ کے بزرگ حضرت سخی شاہ سلیمان نوریؒ سے خلافت حاصل تھی۔ یہ جلال الدین اکبر کا عہد تھا۔ فاضل مقالہ نگار نے مولانا علم الدین سالک کے توسط سے لکھا ہے:”ہندوستان میں ہندو مذہب کے اثرات کی وجہ سے تو حید کا مسئلہ ایسا اُلجھ گیا تھا کہ بڑے بڑے صوفی اور عالم اس سلسلے میں گمراہ ہو کر رہ جاتے ہیں اور بعض بزرگوں نے ہندو ویدانت کو اپنا کر اسلام کے تصور توحید کو بُری طرح خراب کیا ہے۔ چنانچہ ایک طرف مجدد الف ثانیؒ نے اس کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تو دوسری طرف حضرت نوشہ گنج بخشؒ نے توحید کی تبلیغ کے لئے اپنے آپ کو وقف کر کے ان تمام کوتاہیوں اور خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کی“۔ (ص:45)
ڈاکٹر محمد اصغر یزدانی اپنی اس تصنیف کے آئینے میں ایک بالغ نظر محقق اور صاحب ذوق سکالر کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ انہوں نے نوشاہی سلسلے سے منسلک سینکڑوں ادباءاور شعراءکا مطالعہ کرنے کے بعد ساٹھ ایسے اصحاب کا انتخاب کیا جن کے پاس پختہ اسلوب شعر یا اسلوب نثر تھا۔اور فکری لحاظ سے بھی ان کے ہاں کچھ گہرائی تھی۔ ان میں سے بعض کی تحریریں کا مطبوعہ صورت میں ملیں،ان کوبھی دقتِ نظر سے پڑھا اورجو مواد دستیاب ہوا اس کو بھی مطالعہ میں لا کر اپنی آراءمرتب کیں۔ ان کے حالات زندگی بھی چھان پھٹک کر لکھے اور ان کے بارے میں بعض مغالطے بھی حل کرنے کی کوشش کی۔
ڈاکٹر صاحب نے نوشاہی علماءو ادباءکی تیس نہایت اہم کتب کا بھی جائزہ سپرد قلم کیا ہے۔ ان سکالر حضرات میں نوشہ گنج بخشؒ، اشرف نوشاہی منچری، مولانا غلام قادر اثر، فتح علی خان قلندر نوشاہی، مولانا محمد اعظم میرووال، ابوالکمال برق نوشاہی، محبوب حسین نوشاہی، شریف احمد شرافت نوشاہی، ڈاکٹر گوہر نوشاہی اورڈاکٹر عارف نوشاہی کے اسماءگرامی نمایاں ہیں۔
آخری باب میں فاضل مصنف نے اردو ادب میں سلسلہ نوشاہیہ کا مقام و مرتبہ متعین کرنے کی سعی کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نوشاہی سلسلے کے لوگوں کا قلمی سرمایہ سامنے نہ ہونے کی وجہ سے طویل دور تک قدیم اردو کا سراغ دکن میں لگانے کی کوشش کی گئی، لیکن اب پنجاب میں قدیم اردو کے کئی نمونے دریافت ہوگئے ہیں۔تحقیق ہی کی روشنی میں حضرت نوشہ گنج بخشؒ پنجاب میں اردو کے سب سے پہلے صاحب دیوان شاعر قرار پاتے ہیں۔
ڈاکٹر یزدانی اپنی اس کتاب کے آئینے میں ایک سنجیدہ محقق اور پختہ مشق قلمکار کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ وہ بہت شستہ اور فصیح نثر لکھتے ہیں۔ جہاں کسی سے اختلاف کرتے ہیں، اس میں شائستگی کا لہجہ برقرار رکھتے ہیں۔ وہ اپنے ڈاکٹریٹ ورک کا دوسرا حصہ پنجابی کے نوشاہی شعراءو ادباءکے بارے میں مرتب کر رہے ہیں۔ ہمیں انتظار ہے کہ ان کا یہ کام بھی جلد منظر عام پر آئے۔ چند سال پہلے پروفیسر ڈاکٹر نبیلہ رحمن نے قادری سلسلے کی پنجابی ادب کے ضمن میں خدمات پرپی ایچ ڈی کا مقالہ تحریر کیا تھا۔ وہ ابھی تک لائبریری کی زنیت بنا ہوا ہے۔ اس میں بھی ظاہر ہے نوشاہیوں کا ذکر شامل ہوگا۔ ہم انہیں بھی توجہ دلاتے رہتے ہیں کہ وہ اپنا کام منظر عام پر لائیں۔اس طرح سے پنجابی ادب کی تاریخ کے کئی گم شدہ ابواب منظر عام پر آجائیںگے! ٭