سیاسی آم
کتنی حیرانی کی بات ہے کہ ہمارا ملک ان دنوں خوف ناک قسم کے مسائل کا شکار ہے، لیکن ہمارے بعض کالم نگار، آموں کی پیٹیاں بھیجنے والے اپنے مہربانوں کو کالمانہ رسیدیں دینے میں مصروف ہیں۔ وہ آموں سے زیادہ آم بھیجنے والوں کے لئے رطب اللسان ہیں۔ آموں کی تعریف وہ شاید اس لئے ضروری نہیں سمجھتے کہ مفت کے آم ہمیشہ میٹھے ہوتے ہیں۔ ہمارے صدر محترم جناب آصف علی زرداری نے اپنے باغات کے آم بڑے بڑے سیاسی لیڈروں کے علاوہ بعض نامور کالم نگاروں کو بھی بھیجے۔ زرداری صاحب نے نئے وزیراعظم میاں نواز شریف کو بھی آموں کی پیٹیاں بھیجیں۔ انہوں نے وضع داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ آم قبول تو کر لئے، لیکن کھائے نہیں۔ شاید ان کے پیش نظر غالب کا یہ مصرع رہا ہو:
ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں
اگلے دن اخبار میں چھپنے والی ایک چھوٹی سی خبر نے اطلاع دی کہ میاں نواز شریف صاحب نے زرداری صاحب کے سارے آم غریبوں میں تقسیم کر دئیے ہیں۔ مَیں ابھی ان خوش قسمت ”غریبوں“ کی تلاش شروع کرنے ہی والا تھا جو زرداری صاحب کے باغات کے آموں سے لطف اندوز ہو رہے تھے کہ میرے ایک پسندیدہ کالم نگار نے اپنے کالم میں انکشاف کیا کہ زرداری صاحب کے ساتھ ساتھ میاں نواز شریف نے بھی انہیں آم بھیجے تھے۔ زرداری صاحب کے آموں کی سمجھ تو آتی ہے، لیکن میں ابھی تک یہ بات نہیں سمجھ سکا کہ میاں نواز شریف کے آموں کے باغات کہاں ہیں؟ کہیں میاں صاحب نے غریب کالم نگاروں میں زرداری صاحب کے بھیجے ہوئے آم تو تقسیم نہیں کر دئیے؟.... اگر میاں صاحب کی نظر میں صرف کالم نگار غریب ہوتے ہیں تو پھر قوم کا اللہ ہی حافظ ہے۔ لُطف کی بات یہ ہے کہ ہمارے بعض کالم نگاروں نے مفت کے آموں کے بارے میں اتنے مزے دار اور میٹھے کالم لکھے ہیں کہ پڑھنے والوں کے منہ میں پانی بھر آیا۔ ہمارے ایک سینئر کالم نگار اور فکشن کی دنیا میں شہرت کمانے والے ادیب نے جب ”غیر سیاسی باتیں“میں آموں کا تذکرہ پڑھا تو خود ان کے منہ میں بھی پانی بھر آیا اور انہوں نے مفت کے آموں کی تعریف میں حسنِ طلب سے بھرا ہوا ایک کالم گھسیٹ مارا۔ ایک ادیب جس نے مرزا غالب اور علامہ اقبال کی سوانح حیات پڑھ رکھی ہو اس کے لئے آموں کے بارے میں کچھ لکھنا مشکل نہیں۔ چنانچہ انہوں نے شاعری کی ان دونوں شخصیات کے وہ تمام قصے بیان کر دئیے، جن میں دو چار سیر آموں کا ذکر آیا ہے۔
ویسے سچی بات یہ ہے کہ اگر آدمی کو کوئی نعمت میسر آتی ہے تو اسے شکرانِ نعمت کا اظہار ضرور کرنا چاہئے۔ اگر شکرانِ نعمت نہ ہو تو نعمت چِھن بھی جاتی ہے۔ شاید اسی اصول کے پیش نظر آم وصول کرنے والے سارے کالم نگار آموں کی وصولی کی رسیدیں اپنے کالموں کے ذریعے دے رہے ہیں۔ ان کے اس عمل سے ان کے کالم کے قارئین کے منہ کا ذائقہ چاہے خراب کم ہو جائے، لیکن یہ بات یقینی ہے کہ اگلے سال انہیں ایک بار پھر مفت کے آم کھانے کو مل جائیں گے۔ میرے ایک دوست کا کہنا ہے کہ آم صرف اُن کالم نگاروں کو بھیجے جاتے ہیں، جن کی تحریروں میں کڑواہٹ پائی جاتی ہے۔ ان کی کڑواہٹ، آموں کی مٹھاس سے دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور جو کالم نگار آم کھائے بغیر ہی میٹھا میٹھا لکھ رہے ہیں انہیں کوئی درخورِ اعتنا نہیں سمجھتا۔ جبکہ میرا خیال یہ ہے کہ آموں پر دو طرح کے کالم نگار، کالم گھسیٹ رہے ہیں ایک وہ جنہیں آم موصول ہوگئے اور دوسرے وہ جنہیں کسی نے آم نہیں بھیجے۔ خود ہمارا شمار دوسری طرح کے کالم نگاروں میں ہوتا ہے اور ہاں یاد آیا۔ کالم نگاروں کی ایک قسم وہ بھی ہے جو اخبارات کے ایڈیٹروں کو آموں کی پیٹیاں بھیج کر اپنے کالم چھپواتی ہے۔
آم چونکہ شاعروں کا پسندیدہ اور مرغوب پھل ہے۔ اس لئے چاہئے تو یہ تھا کہ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف شاعروں کو بھی آم بھیجتے، لیکن بہت سے دوسرے معاملات کی طرح یہاں بھی وہ شاعروں کے ساتھ ناانصافی کر گئے۔ کالم نگاروں کی محبت میں ہمارے حکمرانوں نے شاعروں اور ادیبوں کو بھلا ہی دیا ہے۔ ساری نوازشات کالم نگاروں پر ہیں اور شاعر بے چارے کہتے رہ جاتے ہیں:
گُل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ بر انداز چمن کچھ تو اِدھر بھی
آج اگر اسد اللہ غالب اور علامہ اقبال زندہ ہوتے تو شاید آموں کے لئے وہ بھی کالم نگاری شروع کر چکے ہوتے۔
آموں کے باغات کے مالک سیاسی رہنماو¿ں سے مجھے کہنا ہے کہ وہ میرے اس کالم کو حسنِ طلب نہ سمجھیں، کیونکہ میرا کالم اور شاعری عام آدمی کے لئے ہوتی ہے آم کے لئے نہیں اور اگر اس کے باوجود بھی کوئی مجھے آم بھیج دیتا ہے تو مَیں ”خوش آم دید“ کہوں گا۔ آخر مروت اور وضع داری بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ آخر میں میری ایک غزل کے تین اشعار ملاحظہ کیجئے:
جب چاہا تیرے عشق میں ہم نے غزل کہی
جب چاہا ہم نے نالہ و فریاد کرلیا
جب اپنے ساتھ رہنے کی عادت سی ہوگئی
اُس وقت دوستوں نے ہمیں یاد کرلیا
دنیا کے ساتھ چلنے کے قابل نہیں رہے
ہم نے تو اپنے آپ کو برباد کرلیا