” بابا مجید نظامی “
نوائے وقت کے ایڈیٹر انچیف ، بزرگ صحافی محترم مجید نظامی کے لئے ”بابا “کا یہ لفظ مَیں نے ایک طالبہ سے سنا، وہ ایوان کارکنان تحریک ِپاکستان میں نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے زیر اہتمام جاری نظریاتی سمر سکول میں خطاب کر رہی تھی، بچی کے منہ سے بابا کے لفظ کی تکرار نے مجھے اس کی معنویت اور اس میں چھپی محبت میں گویا بھگو کے رکھ دیا۔مجھ سے پہلے بہرحال اس لفظ کی موزونیت کا اعتراف جناب خوشنود علی خان نے کیا۔ جب مجھے بات کرنے کی دعوت دی گئی تو مَیں نے کہا جس طرح ایک باپ اپنے بچوں پر مہربان، نگہبان اور ان کی اچھی تربیت کے لئے پریشان ہوتا ہے، نظریاتی سمر سکول کے ذریعے بچوں کو ایک بہترین پاکستانی بنانے کے لئے وہی کردار جناب مجید نظامی ادا کر رہے ہیں لہذا میرے خیال میں ان کے نام کے ساتھ لگے ہوئے ایڈیٹر انچیف، ڈاکٹر یا بزرگ صحافی جیسے تمام سابقے اور لاحقے اپنی تمام تر اہمیت اور احترا م کے باوجود وہ جامعیت اور اپنائیت نہیں رکھتے جو ” بابا“ کا ایک چھوٹا سا لفظ رکھتا ہے۔ جب انہیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی گئی تو میرا پہلا تاثر یہی تھا کہ وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر مجاہد کامران نے یہ ڈگری دے کر انہیں عزت نہیں بخشی کہ آج کل تو ایرا غیرا ڈاکٹر بنا پھر رہا ہے ، اصل میں جناب مجید نظامی نے اس ڈاکٹریٹ کو قبول کر کے اس ڈگری کو عزت ، مقام اور رتبہ عطا کیا ہے ۔ بابائے قوم تو قائداعظم محمد علی جناح ہی ہیں مگر ان کے بعد کسی کو یہ خطاب سوٹ کر سکتا ہے تو وہ ہمارے صحافتی پیشواجناب مجید نظامی ہی ہیں، یہ ایک لفظ گویا پوری قوم کو اپنے دامن میں چھپا لیتا ہے۔
مجھے حیرت ہوئی کہ آج کے دور میں ہمارے بچے تو اردو پڑھتے ہوئے اٹکتے ہیں اور وہاںپروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد نے انہیں حکیم الامت علامہ محمد اقبال کے اپنی ساخت اور معنی کے اعتبار سے مشکل ترین اشعار روانی سے پڑھنے پر قادر کر رکھا تھا، مجھے تو ان بچوں کے سوالوں نے بھی چونکا کے رکھ دیا، وہ بچے جو درسی کتب کے سوالوں سے آگے نہیں بڑھتے، وہ جناب عطاءالرحمان اور خوشنود علی خان سے امن کی آشابارے پوچھ رہے تھے۔ مجھے جواب دینے کا کہا گیا تو مَیں نے یہی کہا کہ جس طرح کسی چھوٹے بچے کو یہ کہا جائے کہ وہ اس بڑے بچے کو اپنا دوست بنا لے جو اس کا لنچ چھین کے کھا لیتا اور اس کی بوتل کا ٹھنڈا پانی گرانے کے بعد اسے بھوکا پیاسا رہنے پر مجبور کر دیتا ہے، اسے موقع بے موقع دھوبی پٹخا مارنے کی کوشش کرتا اور ایک دو مکے تو ایسے ہی آتے جاتے جڑ دیتا ہے تو کیا آپ اس گندے بچے سے دوستی کریں گے۔ بچوں نے یک آواز جواب دیا نہیں، میرا کہنا بھی یہی تھا کہ بھارت ایسا ہی گندا بچہ ہے جوبڑا ہونے کا ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے۔
مَیں نے بچوں سے پوچھا کہ کیا آپ ٹی وی دیکھتے ہیں، امید کے عین مطابق سو فیصد جواب ”ہاں“ میں تھا، پھرپوچھا کیا آپ کارٹون دیکھتے ہیں تو ایک مرتبہ وہی صورت حال تھی، مجھے بچوں کی اکثریت نے بتایا کہ وہ کارٹون نیٹ ورک اور ڈورے مان کے کارٹون دیکھتے ہیں۔ مَیں ان سے ڈورے مان کے گیجٹس بارے ڈسکس کرتااور محنت کو سب بڑا گیجٹ بتاتے ہوئے ذہن میں سوچتا رہا کہ کیا وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں بچوں کی نظریاتی تربیت کرنے کے لئے کوئی بچوں کا کوئی ایک بھی موثر اور مقبول ٹی وی چینل نہیں۔ کارٹون نیٹ ورک ہی نہیں، بلکہ ڈورے مان کے کارٹونوں میں جو کچھ بتایا اوردکھایا جا رہا ہے وہ ہماری تہذیب نہیں اور نہ ہی ہم اپنے بچوں کو وہ سب کچھ پڑھانا اور سکھانا چاہتے ہیں۔ اگر کاروباری نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو اس وقت ایک دن سے لے کر چودہ سال کی عمر تک کے بچوں کے لئے ہزاروں پراڈکٹس موجود ہیں جو بچوں کے چینلز کو بہترین بزنس فراہم کر سکتی ہیں، بچوں کے لئے کارٹونز، کوئز شوز اور ڈراموں وغیرہ کے چینل کے لئے بہترین فزیبیلیٹی بن سکتی ہے۔ جہاں نیوز، کرنٹ افئیرز اور انٹرٹینمنٹ کے چینل مارکیٹ میں گنجائش نہ ہونے کے باوجود دھڑا دھڑ آتے جا رہے ہیں وہاںکوئی بچوں کے چینل کا تجربہ کیوں نہیں کر رہا۔کیا وہ ماضی میں بننے والے ایک دو چینلز کی ناکامی سے ڈر رہے ہیں ، اگر ایسا ہے تو انہیں ان خبروں اور ڈراموں کے ان درجنوں چینلوں کے انجام سے بھی ڈرنا چاہئے جوبری طرح ناکام ہو چکے۔
مَیں نے بچوں سے کہا کہ وہ اپنے بابا مجید نظامی سے شکایت لگائیں کہ ان کے نصاب کی کتابوں سے اسلامی تاریخی شخصیات کے ساتھ ساتھ تحریک پاکستان کے واقعات اور مشاہیر ہی نہیں، بلکہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ پر مشتمل مختلف ابواب کو خارج کر تے ہوئے ان کی جگہ پر اونٹ کی شادی جیسی فضول اور بے معنی چیزیں شامل کر دی گئی ہیں اور یہ کام پنجاب کی حکومت نے کیا ہے۔ مَیں نے انہیں بتایا کہ اس وقت کے وزیر تعلیم میاں مجتبٰی شجاع الرحمان نے اس کی تحقیقات کا حکم دیا اور ایوان وزیراعلیٰ کے کسی ترجمان نے بھی ان ابواب کو نکالنے کے خلاف پریس ریلیز جاری کی مگر عملی طور پر وہ ابواب ابھی تک خارج ہی ہیں۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ اگر بچوں کو اسلام اور پاکستان کے بارے میں نہیں پڑھایا جائے گا تو وہ جوانی میں ان دونوں سے لاتعلق ہوجائیں گے۔ یہاں حکمرانوں کی طرف سے روا رکھی جانے والی بدعملیوں نے پاکستانیت کا عمل پہلے ہی بہت کم زور کر رکھا ہے، نوجوانوں کی پہلی چوائس ہی یہی بنتی جا رہی ہے کہ انہیں امریکہ ، کینیڈا یا یورپ میں کتے نہلانے کا کام مل جائے تو وہ پاکستان کی افسری چھوڑ کے بھاگ نکلیں۔ عطاءالرحمان صاحب نے وہاں درست کہا کہ انہیں ان بچوں کی صورت میں پاکستان کے وزیراعظم ، صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور گورنر نظر آ رہے ہیں، لیکن بنیادی سوال یہی ہے کہ اگر یہ مستقبل کے یہی وزرائے اعظم اور وزرائے اعلیٰ اسلام اور پاکستان کی تاریخ اور مشاہیر سے بے بہرہ ہی رہے تو کیا وہ اسلام اور پاکستان کے حقیقی محافظ ثابت ہو سکیں گے۔
مَیں نے جانا کہ کمرشلائزیشن اور پولیٹیکلائزیشن کے اس دور میں نظریہ پاکستان سے وفاداری کو آہستہ آہستہ آو¿ٹ آف فیشن کیا جا رہا ہے، وہ بچے جو اردو نہیں چکھ سکتے وہ اقبال کے شعروں کو کیسے ہضم کر سکتے ہیں ، پروین شاکر مرحومہ نے تو شکایت کی تھی کہ ان کے عہد کے بچے چالاک ہو گئے ہیں مگر اب سٹار پلس کو تو ایک طرف رہنے دیجئے کارٹون نیٹ ورک نے اس عہد کے بچوں کو وقت سے پہلے جوان کرنا شروع کر دیا ہے۔ جہاں ٹی وی اور کمپیوٹر نے کتابوں کو عوام کے ذوق اور قوت خرید دونوں سے باہر کر دیا ہے وہاں بچوں کے لئے نظریاتی اور پائیدارادب کی تخلیق کے سوتے بھی شائد خشک ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ یہ کہا گیا کہ ہر ضلعے میں ایک نظریاتی سکول بننا چاہئے اور میرا خیال تھا کہ ہر سکول کے اندر ہفتے کے چھ دنوں میں تین دن مطالعہ پاکستان کے ساتھ ساتھ تین دن نظریہ پاکستان کی ایک علیحدہ کلاس ہونی چاہئے۔ مجھے بتایا گیا کہ سکولوں میں نظریہ پاکستان سوسائٹیاں بنانے کا کام ہو رہا ہے، مَیں اس پر بھی مطمئن ہوں مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ مقدس کام ترجیحی بنیادوں پرجلد از جلد مکمل کیا جائے۔ آنے والی نئی نسل نظریہ پاکستان سے دور ہوتی چلی جار ہی ہے، اسے علم نہیں ہو پارہا کہ ہمارے بزرگوں نے کتنی قربانیوں کے بعد یہ وطن حاصل کیا تھا ۔
یہ اک افسوس ناک حقیقت ہے کہ جنہیں گھر میں کوئی اس مشورے کے قابل نہیں سمجھتا کہ کیا پکایا جائے وہ قائداعظم کے وژن اور پالیسیوں پر اعتراض کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ برما کے مسلمانوں پر بدھ مت کے پیرو کاروں کے مظالم نے ثابت کر دیا کہ منٹو پارک میں آج سے تہتر سال پہلے ہونے والی باتیں سو فیصد درست تھیں، اگر اراکان کے مسلمانوں کے پاس محمد علی جناح کے وژن اور کریکٹر والا لیڈر ہوتا تو وہاں کے مسلمانوں کو بتاتا تم برما میں رہتے ہوئے کبھی بھی اقلیت سے اکثریت میں تبدیل نہیں ہوسکتے۔ قائداعظم نے تو اسلام کے لئے تجربہ گاہ حاصل کر کے رسول اکرم کی یثرب کو مدینہ بنانے کی سنت پر عمل کیا تھا مگر آج ہم اپنے انہی مشاہیر کے تذکرے کو اپنے نصاب سے نکال کے چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔ مَیں نے بچوں کی ڈیوٹی لگانے کے بعد یہ شکایت آج اس تحریر کے ذریعے بابا مجید نظام کو خود بھی لگا دی ہے۔ نظریاتی سمر سکول میں ایک بچی نے مجھ سے سوال کیا کہ آپ کو یہاں آ کے مزا آیا۔ مَیں نے جواب دیا ہاں بیٹا ، اتنا ہی مزا آیا جتنا آپ کو چاکلیٹ کھا کے آتا ہے !!!