ریلوے کا افسوسناک حادثہ
پنوں عاقل سے کھاریاں جانے والی ٹرین گوجرانوالہ کے علاقے جامکے چٹھہ کے قریب ریلوے پُل ٹوٹنے سے نہر میں جا گری، جس سے چار فوجی افسروں سمیت15افراد شہید ہو گئے، اس ٹرین کی پہلی چار بوگیوں میں فوجی اور اُن کے اہلِ خانہ سوار تھے،90 کے لگ بھگ افراد زخمی بھی ہو گئے، زخمیوں سمیت سب زندہ لوگوں کو نہر سے نکال لیا گیا۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے گوجرانوالہ میں شہید فوجیوں کی نمازِ جنازہ میں شرکت کی اور سی ایم ایچ میں زخمیوں کی عیادت کی۔
ابھی تک حادثے کی وجوہ کا حتمی تعین نہیں کیا گیا، تخریب کاری کے امکانات کو بھی پیش نظر رکھا جا رہا ہے تاہم بطور مجموعی قیاس آرائیاں اتنی زیادہ ہیں کہ فوری طور پرکسی نتیجے پر پہنچنا مشکل ہے۔ ماہرین ہر پہلو سے تفتیش کر کے کوئی نتیجہ نکال سکتے ہیں۔ اگرچہ ریلوے کے وزیر خواجہ سعد رفیق نے تخریب کار ی کے امکان کو رد نہیں کیا تاہم اُن کی اِس بات میں وزن ہے کہ پُل کی فروری میں انسپکشن کی گئی تھی اور ایک گھنٹہ پہلے پاکستان ایکسپریس اس پُل پر سے گزری تھی، لیکن دوسری جانب حادثے کے بعد خیال آرائیوں اور قیاس آرائیوں کا جو سلسلہ شروع ہے اس میں کہا گیا ہے کہ ریلوے کے بہت سارے پُل سو سال پرانے ہیں۔ یہ پُل بھی اُنہی میں سے ہے، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پُلوں کی نگرانی پر اناڑی افراد تعینات تھے،2007ء سے159انتہائی خطرناک پُلوں کی مرمت شروع ہوئی تھی، جو اب تک مکمل نہیں ہوئی۔ قیاس آرائیوں کا یہ سارا سیلاب حادثے کے فوری بعد اَمڈ کر آیا ہے۔ اگر یہ حادثہ نہ ہوا ہوتا تو اب تک راوی چین ہی چین لکھتا، کسی جانب کوئی پریشانی نہ ہوتی، ریلوے کے پُل اگر سو سال پرانے ہیں، تو حادثے سے پہلے بھی تو ان کی عمر اتنی ہی تھی، اس وقت تک کسی کا دھیان کیوں اِدھر نہیں گیا تھا؟پُل بھی یہیں موجود تھے اور قیاس آرائیاں کرنے والے بھی۔
ہمارا قومی مزاج یہ بن چکا ہے کہ جب تک کوئی بڑا حادثہ رونما نہ ہو جائے ہم مطمئن ہو کر نارمل زندگی گزارتے رہتے ہیں۔صدر پرویز مشرف اور وزیراعظم شوکت عزیز کے دور میں ملتان میں فوکر طیارے کا حادثہ ہوا تو یکایک شور مچ گیا کہ فوکر طیارے بہت پُرانے ہیں اور پاکستان کے پاس جو فوکر طیارے چل رہے ہیں وہ دُنیا میں کہیں بھی آپریشنل نہیں ہیں اور گراؤنڈ ہو چکے ہیں، چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے پی آئی اے کے تمام فوکر طیارے، جو ایک روز پہلے تک اڑانیں بھر رہے تھے، گراؤنڈ ہو گئے اور جن روٹوں پر بڑے طیارے نہیں چل سکتے وہاں سروس کے لئے چھوٹے طیارے ایمرجنسی میں خریدے گئے، حالانکہ طیارے ہوں یا ٹرینیں، ریلوے ٹریک ہوں یا ریلوے پُل بسیں ہوں یا سڑکیں دُنیا بھر میں معمول ہے کہ ان کی مسلسل دیکھ بھال اور نگرانی کی جاتی ہے۔ پُل تو ایسی چیز ہیں، جن کی تعمیر کے ساتھ ہی اُن کی عمر کا تعین بھی ہو جاتا ہے اور دُنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں معمول ہے کہ جب یہ عمر پوری ہوتی ہے تو بظاہر اچھے بھلے نظر آنے والے پُلوں کو بلاسٹ کے ذریعے اُڑا دیا جاتا ہے اور اُن کی جگہ نیا پُل بنایا جاتا ہے۔ اِسی طرح بلڈنگوں کی عمروں کا تعین بھی ہو جاتا ہے۔ ہمارے ہاں یہ معمول نہیں ہے، ہم حادثے کے بعد جاگتے ہیں اور پھر کچھ عرصے کے لئے اضطرای اقدامات دیکھنے میں آتے ہیں، جونہی معاملہ ٹھنڈا ہوتا ہے، پرانے معمولات لوٹ آتے ہیں، ریلوے کا معاملہ بھی یہی ہے۔ دو سال پہلے تک تو ایسے لگتا تھا کہ ریلوے قصۂ ماضی بن جائے گا۔ متعدد بار ریلوے کے وزیر رہنے والے سیاست دان غلام احمد بلور نے تو یہ تک کہہ دیا تھا کہ دُنیا میں بہت سے مُلک ریلوے کے بغیر چل رہے ہیں۔ پاکستان میں ریلوے نہ ہو گا تو کیا قیامت آ جائے گی۔
برصغیر میں ریلوے کو متعارف کرانے کا سہرا انگریزوں کے سر ہے، قیام پاکستان کے بعد ریلوے کا جو نظام پاکستان کے حصے میں آیا وہ آہستہ آہسہ تنزلی کا شکار ہوتا چلا گیا، ریلوے کے مختلف شعبوں میں کام کا معیار گر گیا، کام چوری عام ہو گئی، ورکشاپوں میں کام کرنے والے ملازمین حاضری لگا کر کام سے غائب ہونے لگے، انجنوں وغیرہ کی خریداری میں کمیشن عام ہو گیا۔ کرپشن رگ رگ میں گھس گئی۔ جنرل پرویز مشرف کے مشہور وزیر ریلوے جاوید اشرف قاضی کے دور میں جو ریلوے انجن چین سے درآمد کئے گئے وہ ایک ایک کر کے کھڑے ہوتے چلے گئے، اور اب ان انجنوں میں سے ایک بھی ٹریک پر نہیں، انجنوں کی خرابی میں عملے کا کردار بھی تھا، جان بوجھ کر خرابی بھی پیدا کی گئی اور ہڑتالوں کے دوران خصوصی طور پر انجنوں کو ناکارہ بنایا گیا۔ انجنوں کی کمی کے باعث بہت سی ٹرینیں بند ہو گئیں،مال گاڑیوں کا آپریشن تو سرے سے رُک گیا یہ تو دو سال پہلے موجودہ حکومت نے بحالی کا مشن شروع کیا، تو اب ریلوے میں زندگی کی رمق لوٹتی دکھائی دیتی ہے۔اگرچہ اب بھی اربوں کا خسارہ ہے، لیکن خسارے میں کمی ضرور ہوئی ہے۔ نئی ریل گاڑیاں بھی چلائی گئی ہیں، نئے ریلوے انجن بھی منگوائے جا رہے ہیں۔ چین کے علاوہ امریکہ سے55 ریلوے انجن خریدنے کا معاہدہ ہوا ہے، جو آئندہ چند برسوں میں پاکستان کو ملیں گے۔
ریلوے کا تمام انفراسٹرکچر اس وقت اَپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے، جو پُل سو سال پہلے تعمیر ہوئے تھے اُن کی جگہ نئے پُل بنانے کی ضرورت ہے، جو پُل مرمت ہو رہے ہیں، اُن پر کام تیز کرنے کی ضرورت ہے اور نگرانی کا سلسلہ تو چوبیس گھنٹے جاری رہنا چاہئے، جہاں تک تخریب کاری کا تعلق ہے بلوچستان کے علاقے میں ریلوے ٹریک کو اکثر نقصان پہنچایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے گاڑیاں حادثات کا شکار ہوتی رہتی ہیں۔ عین ممکن ہے یہ ٹرین بھی تخریب کاری کا شکار ہوئی ہو، غلط کانٹا بدلنے سے بھی گاڑیاں آپس میں ٹکرا جاتی ہیں، اس لئے اس سارے نظام کی اصلاح کی ضرورت ہے، جس کے لئے اربوں روپے درکار ہوں گے، ریلوے کے پاس تو اتنے وسائل نہیں، حکومت بھی اپنے محدود وسائل کے اندر رہ کر ہی انفراسٹرکچر کی ایک دم اصلاح نہیں کر سکتی۔ یہ کام مرحلہ وار مکمل کرنا ہو گا۔ تاہم اب آغاز کسی تاخیر کے بغیر کر دینا چاہئے اور جہاں جہاں ٹریک، پُل، سگنل سسٹم جو کچھ بھی قابلِ مرمت ہے اُسے ٹھیک کرنے کا آغاز کر دیا جائے، اس صورت میں تیز رفتار گاڑیاں ٹریک پر دوڑ سکتی ہیں، اگر ٹریک اور پُل ہی ناکارہ ہوں گے تو ان پر نئے انجن بھی ریلوے کو منافع بخش نہیں بنا سکیں گے۔جو ٹرین پُل ٹوٹنے سے نہر میں گری یہ پنو عاقل چھاؤنی سے چلی تھی اور اسے کھاریاں چھاؤنی پہنچنا تھا،فوجی یونٹ جب ایک چھاؤنی سے دوسری چھاؤنی کے لئے سفر کرتے ہیں تو ریلوے ہی ذریعہ سفر ہوتا ہے، اس لئے اس ٹرین کے آغاز سے قبل ٹریک وغیرہ کی معمول کی چیکنگ تو کی گئی ہو گی۔ بہرحال یہ حادثہ افسوسناک ہے ،جس میں قیمتی جانیں ضائع ہوئیں اور بہت سے خاندانوں کے لئے یہ عظیم المیہ بن کر رہ گیا ہے۔ ہم غمزدہ خاندانوں کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ پاک فوج کے افسر اور جوان پہلے ہی شہادتوں کے سفر پر ہیں، حادثے میں بھی پاک فوج کو یہ خصوصی صدمہ پہنچا ہے، ہماری تمام تر ہمدردیاں پاک فوج کے ساتھ ہیں۔ توقع ہے کہ حادثے کی تحقیقات کے بعد اگر تخریب کاری کا کوئی امکان سامنے آیا تو آئندہ اس ضمن میں بہتر احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں گی۔