مشرف کا بھوت، پس پردہ کام جاری، نئی جماعت یا شوشا؟
تجزیہ : چودھری خادم حسین
پیپلز پارٹی دور میں وزیر امور مملکت برائے اطلاعات صمصام بخاری نے ایک ٹیلیویژن ٹاک شو میں ایک بڑا انکشاف کیا ہے جو خبر کے اعتبار سے واقعی ہے لیکن ہمارے لئے تعجب کا باعث نہیں کہ ہم ان سطور میں ایک سے زیادہ مرتبہ ’’بھوت‘‘ کا ذکر کرچکے ہوئے ہیں اور یہ بھی بتا چکے ہوئے ہیں کہ جنرل (ر) پرویز مشرف عدالتوں میں پیشی کے حوالے سے تو بیمار ہیں، سفر نہیں کر سکتے۔ ان کی ریڑھ کی ہڈی میں نقص ہے لیکن وہ کراچی میں بیٹھ کر مکمل سیاست کر رہے ہیں اور پس پردہ بہت سی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ اب صمصام بخاری کا یہ کہنا کہ ان کے ساتھ کسی نے رابطہ کیا اور ان کو نئی جماعت میں شمولیت کے لئے آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ تفصیل یہ بتائی گئی کہ اس جماعت میں پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) میں موجود دل شکستہ اور باغی حضرات کو ملا کر نئی جماعت تشکیل دی جائے گی۔ صمصام بخاری کو یہ تاثر دیا گیا کہ اس جماعت کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے، بخاری نے البتہ یہ نہیں بتایا کہ آل پاکستان مسلم لیگ کو کیا کسی میوزیم میں سجا دیا جائے گا؟اس سے پہلے جنرل (ر) پرویز مشرف سے غوث علی شاہ، پیر صبغت اللہ مجددی پیر پگاڑو (ہشتم) کے علاوہ مسلم لیگ (ق) والے بھی مل چکے ہیں اور یہ تو باقاعدہ اعلان کیا گیا تھا کہ مسلم لیگیوں کو اکٹھا کرکے (ماسوا مسلم لیگ ’ن‘) ایک جماعت بنائی جائے گی اب اگر صمصام بخاری جیسے رہنما کہتے ہیں تو پھر ابہام باقی نہیں رہتا کہ کچھ ہو رہا ہے۔ ہمار اپنا یقین ہے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کو بالکل بے اثر نہ بنایا جائے۔ ان کے اثرات ہی نہیں گروپ بھی موجود ہیں اور بہت سی جگہوں پر ان کے لئے کام کر رہے ہیں۔ اب وزیراعظم اور بلاول تو صمصام بخاری سے پوچھ نہیں سکتے اور عمران خان کیوں پوچھیں کہ ان کا کام آسان ہوتا ہے کہ تینوں جماعتوں سے لوگ باہر نکلیں تو فائدہ ان کو ہوگا کہ زیادہ لوگوں کا رخ ان کی جماعت کی طرف ہوگیا ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ق) کے حضرات کی شمولیت کے بعد وہ اور بھی توقع کر بیٹھے ہیں۔ کیا پتہ اگلے قدم کے طور پر ایک ایسا اتحاد وجود میں آئے جو جنرل (ر) پرویز مشرف کی جماعت، عمران خان کی تحریک انصاف اور ڈاکٹر طاہر القادری کی عوامی تحریک پر مشتمل ہو۔ ان حضرات میں کبھی کسی امر پر اختلاف تو نہیں ہوا بلکہ دونوں اپنے اپنے وقت میں جنرل (ر) پرویز مشرف کی حمایت کرچکے ہوئے ہیں۔ عمران خان نے تو ریفرنڈم کی حمایت بھی کی تھی۔ دوستو! یاد کرو، گیم ان ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے مقدر میں کیا لکھا ہے۔ ہمارے ندیم افضل چن کی زبانی یہ ہے کہ وہ پارٹی کے ساتھ اور پارٹی کے اندر رہ کر گھس بیٹھیوں کے خلاف جدوجہد کریں گے۔ اس سلسلے میں ندیم افضل چن اکیلے نہیں ہیں۔ پیپلز پارٹی کا ہر پرانا کارکن ان جیسے خیالات کا حامی ہے لیکن ان کا بس تو چل نہیں رہا کہ پارٹی پر قبضہ تو ابھی برقرار ہے اور اب یہ افسوسناک بات کر دی گئی ہے کہ سوہنا، صمصام اور قریشی کے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ مفاد پرست ہیں، یہ سیاسی طرزِ عمل نہیں ہے۔ بلاول سے پارٹی والوں کو بہت امیدیں ہیں، وہ مستقبل کی آس میں بیٹھے ہیں۔ ان کو مایوسی ہوئی تو ملک کی سب سے بڑی پارٹی تحریک انصاف ہوگی۔ میاں منظور وٹو نے تو بڑی معصومیت سے کہہ دیا کہ اخراج ان کی وجہ سے نہیں اگر ایسا ہے تو وہ پیپلز پارٹی سنٹرل پنجاب کی جنرل کونسل اور مجلس عاملہ کا مشترکہ اجلاس بلا کر دکھا دیں کہ سب ان کے ساتھ ہیں۔ شرط یہ ہے کہ یہ سب اصلی ممبر ہوں، بھرتی نہ کی جائے۔ بلاول بھٹو کی صدارت میں یہ فیصلہ کر لینے کے بعد نئی رکن سازی ہوگی اور مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس میں تنظیمی تبدیلیوں کا فیصلہ کیا جائے گا۔ کارکنوں کو پسند تو نہیں آیا لیکن ان کو ماننا پڑے گا۔ ایک سینئر پارٹی عہدیدار اور کارکن جیالے کا کہنا ہے کہ کوئی بھی نئے لوگوں کے پارٹی میں آنے کے خلاف نہیں لیکن نئے آنے والوں کے حوالے پارٹی کر دینا مناسب نہیں، ان کو قطار میں لگ کر کام کرکے اپنا وجود ثابت کرکے عہدہ حاصل کرنا چاہئے، یہاں لوگ گھر سے آتے ہی عہدیدار بن گئے، حالانکہ ان کا پیپلز پارٹی کے نظریات سے اب بھی اختلاف ہے، جس نے آنا ہے وہ نظریات قبول کرکے آئے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ عید کے بعد بلاول بھٹو مرکزی مجلس عاملہ کا جو اجلاس بلاتے ہیں، وہ کون سی ہوگی کیا محترمہ والی مجلس عاملہ کے تمام ارکان بحال ہوں گے (ماسوائے ان کے جو خود چھوڑ گئے) اور ان کے ساتھ نئے نامزد بیٹھیں گے، یا موجودہ کور کمیٹی ہی کام کرے گی اور عبدالرحمن ملک ہی کی مشاورت کام آئے گی جن سے کارکن محترمہ بے نظیر کی شہادت والے دن کا حساب مانگتے ہیں کہ ان کے حفاظتی انتظامات کیا تھے؟
ایک سینئر پارٹی لیڈر اور اہم حیثیت کے مالک بااعتماد رہنما سے جب یہ پوچھا گیا کہ ایک سینئر صحافی نے لکھا ہے کہ پیپلز پارٹی کو کھل کر سیاست نہیں کرنے دی جا رہی تو کیا اس کے لئے کسی کی اجازت کی ضرورت ہے یا پھر اسی تنخواہ پر کام کر کے ’’جماعتی موت‘‘ قبول ہوگی، انہوں نے جواب دیا پیپلز پارٹی شہیدوں کی جماعت ہے۔ اس کے کارکن قربانیاں دینا جانتے ہیں۔ بلاول کو فیصلہ کرنے دو، پارٹی کو کوئی عوام سے رابطہ اور عوامی سیاست کرنے سے روک نہیں سکے گا۔ اور یہ کرنا ہوگا کہ قائدین کو اگلی صفوں میں نظر آنا ہوگا۔