اے پی بی ایف کا صنعتی فیڈرز پر دوبارہ لوڈ شیڈنگ کرنے پر احتجاج
لاہور ( این این آئی) آل پاکستان بزنس فورم کے صدر ابراہیم قریشی نے صنعتی علاقوں میں دوبارہ لوڈ شیڈنگ شروع کرنے اور اس کے نتیجے میں کاروباری سرگرمیاں متاثر ہونے پر شدید احتجاج کیا ہے۔انہوں نے اس ضمن میں حکومت سے فوری طور پر اس مسئلے کے حل اور صنعتوں کو یومیہ دس گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ سے نجات دلانے کا مطالبہ کیا۔انہوں نے مزید کہا کہ حکومت اپنے دیگر وعدوں کی طرح صنعتوں علاقوں میں زیرو لوڈ شیڈنگ کو یقینی بنانے میں ناکام ہوگئی ہے ۔ابراہیم قریشی کا کہنا تھا کہ لوڈ شیڈنگ کے دورانیئے میں ایک بار پھر بے انتہا اضافہ ہوگیا ہے اور ہائیڈل پیداوار میں کمی کے بعد صوبائی دا رالحکومت لاہور میں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ 8تا10گھنٹے تک پہنچ گیا ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ یہ ملک کی انتہائی بدقستی ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب ہمیں بجلی کے شدید ترین بحران کا سامنا ہے ،حکام کی جانب سے 1410میگا واٹ کے تربیلا کے چوتھے توسیعی منصوبے پر کام روک دیا گیا ہے،تربیلا توسیعی منصوبے کے ساتھ ساتھ منگلا ڈیم کے خالق آباد سیکشن پر بھی کام رکا ہوا ہے جو کہ سمجھ سے بالاتر ہے ۔حکومت کی جانب سے اس منصوبے پر کام کی رفتار تیز کرنے کیلئے کنٹریکٹرکو اضافہ 5ارب روپے کی رقم بھی فراہم کی گئی تھی۔
تاہم حکومت کی جانب سے نامناسب مانیٹرنگ اور نا اہلی کے سبب اس منصوبے پر کام کی رفتار کو تیز نہ کیا جاسکا۔آل پاکستان بزنس فورم کے صدر ابراہیم قریشی کا کہنا تھا کہ واپڈا کے پاس یوں سے ملازمین کی فوج ظفر موجود ہے،تاہم بات جب منصوبوں کی تکمیل کی ہوتی ہے تو وہاں واپڈا کی کارکردگی صفر دکھائی دیتی ہے ۔انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ مختصر مدت میں ہائیڈل وسائل میں اضافے کیلئے نئی حکمت عملی ترتیب دی جائے،حکومت صنعتی علاقوں میں لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کا دعوی کرتی ہے مگر دوسری جانب بجلی کی بڑھتی ہوئی طلب کاروبارکو بری طرح متاثر کررہی ہے ۔ان کا مزید کہنا تھاکہ پاکستان کا شمار ایسے ممالک میں ہوتا ہے جہاں واٹر سیکورٹی ایک اہم مسئلہ بنتا جارہا ہے،ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں سالانہ 35ملین ایکڑ فیٹ پانی سمندر برد ہوجاتا ہے جسے ملک میں زرعی مقاصد اور بجلی پیدا کرنے کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔پانی کو محفوظ کرنے کیلئے ہمیں بڑے ڈیمز بنانے کی ضرورت ہے جس سے نہ صرف زرعی مقاصد بھی پورے کئے جاسکتے ہیں بلکہ بجلی بھی پیدا کی جاسکتی ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ کالا باغ ڈیم 7.9ملین ایکڑ فیٹ پانی ذخیرہ کرنے کے ساتھ ساتھ 3600میگاواٹ بجلی بھی پیدا کرسکتا تھا اور کالا باغ ڈیم سے سالانہ حاصل ہونے والی بجلی 20ملین بیرل تیل کے مساوی ہوتی،کالا باغ ڈیم کی تعمیر پر 10ارب ڈالرز کی لاگت آتی جو کہ محض پانچ برس میں پوری ہوجاتی،اگر کالا باغ ڈیم بن جاتا تو ملک میں پانی و بجلی کی کمی کا سامنا نہ کرنا پڑتا اور نہ ہی تھر میں انسانی المیے جنم لیتے۔آل پاکستان بزنس فورم کے صدر ابراہیم قریشی کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال مختلف صنعتی شعبوں کے اہداف کو بری طرح متاثر کررہی ہے جس میں ماربل،اسٹیل،فارماسیوٹیکل،ایڈیبل آئل،فلور ملز،فوڈ پروسیسنگ،سوپ اور دیگر شامل ہیں۔انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں کمی کرکے صنعتی شعبے کو بحران سے بچایا جائے اور لوڈ شیڈنگ کا شیڈول ترتیب دیتے وقت مقامی صنعتوں کو اعتماد میں لیا جائے۔