عیدکی خوشیاں
یہ پانچ ستاروں والے ایک ہوٹل میں پی ٹی وی نیوز کے عید شو کی ریکارڈنگ تھی جہاں چئیرمین پی ٹی وی عطاء الحق قاسمی کہہ رہے تھے کہ پہلے زمانوں میں عید کی خوشیاں زیادہ ہوا کرتی تھیں جو اب نہیں رہیں، پھر سب سے یہی سوال ہوا اور تقریباً ایسا ہی جواب ملا، جماعت اسلامی کے رہنما فرید احمد پراچہ نے تو عید کارڈوں کی روایت بھی یاد کروادی، ان کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ نئے آلات اپنے ساتھ نئی روایات بھی لے آئے، پہلے عیدکارڈ بھیجے جاتے تھے اور اب ایس ایم ایس جاتے ہیں، فیس بک پر مبارکبادیں دی جاتی ہیں، واٹس ایپ پر تصویریں شئیر کی جاتی ہیں، عطاء الحق قاسمی ایسی باکمال شخصیات میں شامل ہیں جنہیں پی ٹی وی کا چئیرمین ہونا اعزاز و اکرام نہیں دیتا بلکہ انہوں نے ا س عہدے کو عزت اور مقام دیا ہے، وہ بڑے دانشور ، باکمال شاعر اور بہترین کالم نویس ہیں ، میں بہت سارے دوسروں کے ساتھ ان کی سجائی ہوئی محفل میں بیٹھا سوچ رہا تھا کہ کیا واقعی ہماری عید کی خوشیاں کہیں کھو گئی ہیں، اب وہ عید نہیں رہی جو کبھی پہلے زمانوں میں ہوا کرتی تھی، پی ٹی وی کے خصوصی شو عید افئیرز کے اینکرنے بھی علامہ اقبال کا شعر پڑھ دیا، ’ہے دل کے لئے موت مشینوں کی حکومت، احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات‘، عطاء الحق قاسمی سے معذرت کے ساتھ ، مجھے نجانے کیوں یہ سب اجنبی اجنبی لگاسالگا جیسے ہم محض کتابی باتیں کر رہے ہوں۔
میں نے جانا کہ خوشیوں کا تعلق آپ کی محرومیوں اور خواہشات کے ساتھ ہیں، سعد اللہ شاہ نے کہا تھا کہ ترستا ہے جو سمندر کو وہ صحرا ہو گا، خوشیوں کا دوسرا تعلق معصومیت اور حیرانی سے ہے۔ جوں جوں آپ کی محرومیاں دور اور خواہشات پوری ہوتی چلی جاتی ہیں ، معصومیت کی جگہ تجربہ اور حیرانی کی جگہ پوری ہوتی ہوئی توقعات لینے لگتی ہیں تو آپ کم خوش ہوتے ہیں۔ بہت سارے لوگ عامرلیاقت حسین کے شو میں دس ہزار روپے ، ایک موٹر سائیکل یا ایک سوزوکی مہران جیت کے خوشی سے پاگل ہورہے ہوتے ہیں، نعرے لگا رہے ہوتے ہیں، ناچ رہے ہوتے ہیں جبکہ خوشیوں کے رخصت ہوجانے کا شکوہ کرنے والوں میں سے کسی کے دس ہزار روپے انعام نکل آئیں تو شائد شرمندگی کے مارے اسی وقت اپنے ملازمین میں تقسیم کر دے، کسی موٹرسائیکل پر سواری کرنی پڑجائے تو سوچ میں پڑجائے، اسے اپنی گاڑی کی جگہ سوزوکی مہران رکھنی پڑجائے تو وہ ہنسنے کی بجائے رونے لگے۔ کیا ایسا نہیں پی ٹی وی کے شو میں مدعو کئے گئے معاشرے میں اہمیت رکھنے والے لوگوں کے گرد پہلے ہی اتنی خوشیاں ہیں کہ انہیں عید کی خوشی کوئی خوشی ہی محسوس نہیں ہوتی۔ عید کی خوشی ایک بلب کی طرح ہے، وہ اکیلاروشن ہو تو سب کی نظریں اسی کی طرف ہوں مگر جب کسی بڑی دکان پر لگے ہوئے درجنوں بلبوں میں سے ایک بن جائے تو سب اس کے روشن ہونے کو توتسلیم کریں گے مگر اس کی اہمیت باقی نہیں رہے گی۔
ہاں! کبھی عید کارڈ ہوا کرتے تھے اور ہم اپنے پیاروں کو چھوٹی اور میٹھی عید کے موقعے پر بھیجا بھی کرتے تھے، اس وقت تو ملاقاتیں اور باتیں بھی گرمیوں ، سردیوں یا عید کی چھٹیوں میں ہی ہوا کرتی تھیں مگر ہم جن آلات کی مذمت کررہے ہیں انہی آلات نے ہمیں آپس میں جوڑ دیا ہے۔ وہ چچیاں،تائیاں، خالائیں، پھُپھیاں اور کزنیں جوآپس میں کبھی کبھی مہینوں بعد ہی بات کیا کرتی تھیں، فون پر بھی بات ہوا کرتی تھی تو مہینے بعد ہی ہوا کرتی تھی ، بیرون ملک کالز آپریٹر کو کہہ کر ملائی جاتی تھیں اور گھنٹوں بعد ملتی تھیں تو آپریٹر بتاتا تھا کہ سعودی عرب یا متحدہ عرب امارات بات کرنے کے ایک سو دس روپے فی منٹ چارج ہوں گے اوروہ اب وہ سب روزانہ فیس بک اور واٹس ایپ پر ایک دوسرے بات کرتی ہیں، سکائپ آن کر لیا جاتا ہے ، کپڑوں کی سلائی اور کھانوں کی پکائی تک بھی دیکھا اور ترکیب بارے پوچھا جا سکتا ہے۔ ملنے ، ملانے کی بات کر لیں تو کبھی رکشوں اور بسوں پر دھکے کھا کر مہینوں بعد کسی پیارے کی صورت دیکھنے جایا جاتا تھا ، پورے شہر میں گنے چنے لوگوں کے پا س موٹر کاریں ہوا کرتی تھیں مگر اب کسی ایک سڑک پر سگنل بند ہونے پر دیکھ لیجئے، آسانیوں نے ان تمام واقعات اور چیزوں کو خوشیوں کے زمرے سے نکال دیا ہے جو کبھی بڑی مشکل سے حاصل ہوا کرتی تھیں۔ یہاں عید کی خوشیوں پر معاشیات کا طلب و رسد کا معروف اصول لاگو ہو گیا، جس چیز کی افراط ہوئی اس کی طلب کم ہو گئی، اس کی اہمیت کھو گئی، اس کی چاہ کم ہو گئی۔ کہتے ہیں کہ عید کے کپڑوں کی بھی خواہش نہیں رہی، بھائی، ان کی خواہش کیوں ہو گی جب آپ سارا سال ہی کپڑے بناتے اور خریدتے رہیں گے، کہتے ہیں کہ اچھے خاصے کھاتے پیتے لوگ بھی سال میں عید ، بقر عید دو ہی جوڑے بنایا کرتے تھے لہذا وہ ان کے لئے اہمیت بھی رکھتے تھے۔
بچوں کی خوشیوں کا معاملہ اس سے الگ بھی ہے اور اس سے جڑا ہوا بھی ہے، آپ پوچھیں گے وہ کیسے، وہ اس طرح کہ ٹیبس، پلے اسٹیشنوں اور اس کی طرح کے دیگر آلات اب بچوں کے پاس ہیں، غبارے اور کھلونے ان کے لئے کچھ کم ہی کشش کا باعث بنتے ہیں مگراس کے باوجود ان میں تجربے کی کمی کی وجہ سے معصومیت اور حیرانی ابھی باقی ہے مگر وہ بھی افراط زر کا شکار ہوئے ہیں، وہ اب دس یا بیس روپوں کی عید ی قبول نہیں کرتے۔ انٹرنیٹ نے سکول جاتے ہوئے بچوں کے علم اور تجربے کو وسیع کر دیا ہے، اب وہ اپنے ماں باپ کی دی ہوئی خوشیوں کوہی حرف آخر نہیں سمجھتے، وہ چائنیز برانڈ کے ٹیب کی خوشی کا موازنہ ایپل کے آئی پیڈ کے ساتھ کرتے ہیں۔ ہم سب، وہ جو پی ٹی وی کے عید شو میں بیٹھے ہوئے تھے،ضرور گنگنائیں گے ، یہ دولت بھی لے لو یہ شہرت بھی لے لو بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی، مگر مجھ کو لوٹا دو بچپن کا ساون، وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی۔ لیکن اگر کوئی واقعی ہمارے لیپ ٹاپ اور موبائل فون چھینتے ہوئے ہمیں کاغذ کی کشتی دینے کی کوشش کرے گا اور کہے گا کہ جاو اسے بارش کے پانی میں چلا لو تو ہم اس کا شکریہ ادا کرنے کی بجائے بھاگ نکلیں گے۔
ہاں! آپ درست سمجھے، میں یہی کہہ رہا ہوں کہ ماضی کے مقابلے میں اب ہمارے پاس کہیں زیادہ آسانیاں ہیں، کہیں زیادہ کامیابیاں ہیں، کہیں زیادہ خوشیاں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہمیں عید کی خوشی بہت کم خوشی محسوس ہوتی ہے، بہت سارے چراغوں میں جلتا ہوا ایک چراغ، مگر اس کی حمایت بھی تو نہیں کی جا سکتی کہ دوسرے چراغوں کو بجھا دیا جائے، ہاں، کچھ کچھ ناشکرگزاری سی ضرور محسوس ہوتی ہے۔ میرے خیال میں تو وہ تمام لوگ جو بڑے ہو گئے، جن کے پاس پیسے آگئے، جن کی مصروفیات میں اضافہ ہو گیا وہ سب اپنی اپنی خوشیاں ان باتوں اور ان چیزوں میں ڈھونڈتے ہیں جو اب ان کے پاس نہیں ، یوں ہم سب اپنی اپنی محرومیوں کو سامنے رکھتے ہوئے خوشیاں ڈھونڈنے کاسلسلہ جاری رکھتے ہیں ۔میرے رب نے سورۃ زخرف میں اپنی تخلیق انسان کی فطرت میں موجود کمی کی درست نشاندہی کی ہے کہ بے شک انسان کھلم کھلا ناشکرا ہے، اس پر من و سلویٰ کے تھال اترتے ہیں ہیں تو وہ پیاز ، لہسن اور ککڑی مانگنے لگتا ہے۔
معذرت: گذشتہ روز شائع ہونے والے کالم ’ خان صاحب کی سیاست کا خلاصہ ‘کے آغازمیں ہی ڈاکٹر عظمیٰ صاحبہ کو سہوا تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی اہلیہ لکھا گیا جس کی نشاندہی دوستوں نے بذریعہ ایس ایم ایس بھی کی، ڈاکٹر عظمیٰ خان صاحبہ محترم عمران خان کی بہن ہیں ۔تحریر میں اس غلطی پر میں معذرت خواہ ہوں۔