ضمنی انتخابات ملتوی ،جیکب آباد کی سیاست میں ڈرامائی تبدیلیوں کا امکان
جیکب آباد(خصوصی نامہ نگار ) جیکب آباد کے ضمنی انتخابات ملتوی ہونے کے بعد جیکب آباد کی سیاست میں ڈرامائی تبدیلیوں کا امکان، میر بابل خان جکھرانی اور میر اعجاز خان جکھرانی میں کشیدگی میں اضافہ، جکھرانی خاندان کی سیاسی بالادستی فیصلہ کن موڑ پر، بابل خان جکھرانی کے سیاسی اور مالی مفادات کو نقصان ، میر اعجاز حسین جکھرانی کی سیاسی حکمت عملی کامیاب، میر راجا جکھرانی کی جگہ میر خالد خان کے امیدوار بننے کے امکان، باپ بیٹے کے درمیان کشیدگیوں کو ختم کرنے کے لیے معززین سرگرم،باپ بیٹے کے درمیان صلح کے لیے فارمولا تیار:رپورٹ کے مطابق:جیکب آباد میں صوبائی اسمبلی کی نشست پی ایس14سردار محمد مقیم خان کھوسو کی وفات کے بعد خالی ہونے پر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 22جون کو ضمنی انتخابات کرانے کا اعلان کیا تھا بعد ازاں الیکشن کمیشن کے ممبران مکمل نہ ہونے کے وجہ سے الیکشن کمیشن نے 22جون کو ہونے والے انتخابات غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دیے ہیں تاہم اس سے قبل انتخابات میں جو امیدوار حصہ لے رہے تھے ان میں پیپلز پارٹی کے اورنگزیب خان پنہور، مسلم لیگ نواز کے محمد اسلم ابڑو، پاکستان تحریک انصاف کے میر راجا خان جکھرانی، جمعیت علماء اسلام کے ڈاکٹر اے جی انصاری، مجلس وحدت المسلمین کے علامہ مقصود علی ڈومکی و دیگر شامل تھے جبکہ کانٹے دار مقابلہ پیپلز پارٹی کے میر زیب خان پنہور ،مسلم لیگ نواز کے محمد اسلم ابڑو اور تحریک انصاف کے میر راجا خان جکھرانی کے درمیان متوقع تھا۔بعد ازاں انتخابی مہم کے دوران تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے درمیان کشیدگی بڑھنے لگی جس کی بنیادی وجہ باپ بیٹے یعنی میربابل خان جکھرانی اور ان کے صاحبزادے ایم این اے میر اعجاز حسین جکھرانی کے درمیان اختلافات تھے انتخابی مہم کے دوران تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے اسٹیجوں پر ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشیاں کی گئی جس سے الیکشن کا ماحول تصادم کی جانب بڑھنے لگا جبکہ سیاسی تجزیہ نگاروں کہنا ہے کہ پر امن ماحول کو کشیدگی کی طرف لے جانے کا سبب میر بابل خان جکھرانی کی تقاریریں بنی جنہوں نے اپنے سیاسی مخالفین اور ضلعی انتظامیہ کو دھمکیاں دیتے ہوئے بار بار نازیبا الفاظ استعمال کیے جو کہ نہ صرف الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کے خلاف تھے بلکہ عوام کو بھی ان الفاظ سے رنج پہنچا 22جون سے ایک ہفتہ قبل الیکشن کمیشن کی جانب سے مذکورہ انتخابات کے اچانک ملتوی ہوجانے کے بعد یوں تو عملاً سیاسی سرگرمیوں کو ختم ہوجانا چاہئے تھا تاہم تحریک انصاف نے سیاسی جلسے جاری رکھے گوکہ انتخابات ملتوی ہو گئے لیکن میر بابل خان جکھرانی اور میر اعجاز حسین کے درمیان کشیدگی کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مقامی انتظامیا نے بعض ایسے اقدامات اٹھائے کے جن کی وجہ سے میر بابل خان جکھرانی کے بعض مفادات کو نقصان پہنچا جن میں خصوصاً مویشی منڈی جو ایک عرصہ دراز سے میر بابل خان جکھرانی کے پاس تھی اور غالباً دس لاکھ روپے سالانہ ٹھیکے پر ان کے حوالے تھی۔ اس مویشی منڈی کے ٹھیکے کی دوبارہ نیلامی ہوئی اور ڈیڈھ کروڑ روپے سالانہ کی بنیاد پر ٹھیکہ میر بابل خان جکھرانی کے مخالفین نے لے لیا جس پر میر بابل خان جکھرانی کا کہنا یہ تھا کہ میرے خلاف میرے اور میرے لوگوں کے خلاف انتقامی کارروائی کی جا رہی ہے انتقامی کارروائی کرتے ہوئے جھوٹے مقدمات بھی درج کیے جا رہے ہیں جبکہ ایم این اے میر اعجاز حسین جکھرانی کا کہنا تھا کہ ہم انتقامی کارروائی پر یقین نہیں رکھتے تاہم قانون کی بالادستی قائم کی جائیگی اور کسی بھی ادارے کو فرد واحد کے ہاتھوں یرغمال ہونے نہیں دیا جائیگا میر بابل خان جکھرانی جو کہ سینئر سیاستدان اور قبائلی شخصیت ہیں ان کے حوالے سے بعض ایسی خبریں میڈیا میں شایع ہوئیں جن سے میر بابل خان کی سیاسی ساکھ کر نقصان پہنچا خصوصاً مال پڑی میں ایک بوڑھے شخص پر تشدد کرتے ہوئے اور مویشیوں کو مارتے ہوئے دکھائے جانے والے فوٹیج جو میڈیا میں بار بار دکھائے گئے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ میر بابل خان جکھرانی مویشی منڈی کے ہاتھ سے نکل جانے کے بعدتحریک انصاف کے امیدوار میر راجا خان جکھرانی کوآئندہ پی ایس14کا امیدوار بننے سے روک دیا ہے اور ذرائع کے مطابق آئندہ کے لیے پی ایس 14پر میر بابل خان جکھرانی کے بیٹے میر خالد خان جکھرانی امیدوار ہونگے ذرائع کے مطابق میر بابل خان جکھرانی آئندہ انتخابات میں قومی اسمبلی کی نشست این اے208پر انتخابات لڑنے کا سوچ رہے ہیں برحال میر بابل خان جکھرانی اور ان کے صاحبزادے ایم این اے میر اعجاز حسین جکھرانی کے درمیان کشیدگی کو بڑھتا ہوا دیکھ ان کے ہمددر دوستوں نے ان کے درمیان صلح کرانے کے لیے اپنی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں اس سلسلے میں رابطہ کرنے پر جیکب آباد کی سیاسی شخصیت ملک الطاف حسین نے بتایا کہ میر بابل خان جکھرانی اور میر اعجاز خان جکھرانی کے درمیان کشیدگی بہت ذیادہ حد تک بڑھ چکی ہے لہٰذا ان کے درمیاں صلح کرانے کے لیے مشکل فیصلے کرنا ہونگے جس کے لیے میں نے دونوں فریقین کے سامنے ایک فارمولا پیش کیا ہے اور میرے نزدیک وہ مسئلے کا واحدحل ہے اور وہ یہ ہے کہ میر بابل خان جکھرانی اپنے نوجوانوں سمیت سیاست سے مکمل طور پر دستبردار ہو جائیں جکھرانی خاندان کے سیاسی فیصلوں کا مکمل اختیار ایم این اے میر اعجاز حسین جکھرانی کو دیا جائے جبکہ میر بابل خان جکھرانی کے دیگر مفادات کا مکمل خیال رکھا جائیگا انہوں نے کہا کہ اس فارمولے پر دونوں فریقین رضامند ہو بھی جائیں تو بھی اس کا اعلان سابق وزیر اعظم میر ظفر اللہ خان جمالی اور سردار منظور خان پنہور کی موجودگی میں کیا جاناچاہے تب جاکر یہ صلح پائیدار ثابت ہو سکتی ہے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ دونوں فریقین سے رابطے میں ہوں اور صورتحال امید افزہ ہے جکھرانی خاندان کے سیاسی مخالفین کو مایوسی ہوگی اور جیکب آباد کا سیاسی ماحول انشااللہ پرامن رہیگا کیوں کہ ایم این اے میر اعجاز حسین جکھرانی اور صوبائی وزیر سردازادہ ممتاز خان جکھرانی جمہوریت اور برداشت پر یقین رکھتے ہیں جن سے امید ہے کہ وہ جیکب آباد کے عوام کے بہترین مفادات میں فیصلے کریں گے اور اسی طرح کی توقع میر بابل خان جکھرانی اور میر خالد خان جکھرانی سے بھی ہے کہ وہ سیاست اور خاندانی معاملات میں برداشت اور بردباری کا مظاہرہ کریں گے ۔