غریب خوددار بچی جونامور سائنسدان بن گئی

غریب خوددار بچی جونامور سائنسدان بن گئی
غریب خوددار بچی جونامور سائنسدان بن گئی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

فزکس اور کیمیا میں نوبل انعام لینے والی وہ دنیا کی واحد خاتون ہیں،پولینڈ میں پیدا ہوئی،ساری زندگی فرانس میں گزاری ،غربت میں زندگی گزاری ،شدید گرمی ، سردی اور بھوک پیاس کو برداشت کیا ،پیرس کی ایک یونیورسٹی میں داخل ہوئیں تو اکثر مواقع پر وہ بھوک کی وجہ سے بے ہوش ہو جاتی تھیں۔ صبح پڑھتی ،شام پڑھاتیں ،ایک سائنس دان سے ہی شادی کی جو اس کا استاد بھی تھا۔انہوں نے پولونیم اور ریڈیم نامی دو عناصر دریافت کیے ،تابکاری کا نظریہ پیش کیا جس سے تابکار عناصر سے ان کے ہم جا علیحدہ کیے جا سکتے تھے ۔دو سائنس کے مراکز ایک پیرس دوسرا وارسا میں قائم کیا ۔پہلی جنگ عظیم کے دوران ملٹری ریڈیالوجیکل سینٹرز قائم کیے ۔
آپ جان تو گئے ہوں گے کہ میں مادام کیوری یا میری کیوری کا ذکر کر رہا ہوں ۔میری کیوری ((MarieCurie(پیدائشی نام ماریہ سکلوڈووسکا) المعروف مادام کیوری (7 نومبر 1867ء یا 1868)کووارسا پولینڈ میں پیدا ہوئیں ۔ جب وہ 19 برس کی ہوئیں تو ایک امیر گھر میں ملازمت کر لی تاکہ تعلیم کے اخراجات پورے کر سکے ملازمت میں گھر کے سب کاموں کے ساتھ ایک دس سالہ بچی کی دیکھ بھال بھی شامل تھا ۔اس گھر میں جن کی وہ ملازم تھی ان کا بیٹا اسے پسند کرنے لگا ،اور میری کو شادی کی پیش کش کر دی ،بات اس کے والدین تک پہنچی تو مالکن نے سارے نوکر اکھٹے کیے ،اور ان کے سامنے میری کیوری پر الزام لگایا اس کی بے عزتی کی کہ ملازمہ ہو کر مالکہ بننے کی سوچ رہی ہے ۔
اس دن مادام کیوری کو غربت کا احساس ہوا کہ غریب ہونا کتنا بڑا جرم ہے سچائی صرف وہ ہے جو دولت مند کہے کیونکہ میری اس امیر زادے میں نہیں بلکہ امیر زادہ اس میں دلچسپی لے رہا تھا ۔اس نے یہ نوکری چھوڑی دی اوروہ شہروہ ملک چھوڑ دیا اور اس نے اعلیٰ تعلیم کے لیے فرانس کی شہریت اختیار کر لی۔
مادام کیوری نے پیرس میں رہائش اختیار کی وہاں یونیورسٹی میں داخلہ لیا خود دن رات پڑھنے پر لگا دیا ،بھوکی پیاسی ،بے روزگار ،تنہامادام کیوری صبح خود پڑھنے جاتیں اور شام کو بچوں کو پڑھاتیں اس سے کنجوسی کر کے ،خود کو بھوکا رکھ کر تعلیمی اخراجات بڑی مشکل سے پورے ہونے لگے ایک دن کلاس میں بھوک سے بے ہوش ہو گئی ۔تو اس کے استاد کو اس کا علم ہوا جو خود غریب تھا لیکن اس نے میری کیوری کی مدد کی ۔
مادام کیوری نے شادی بھی اپنے استاد سے کی یہ1895 ء کا سال تھا اس کے شوہر پروفیسر پیری کیوری تھے جو کہ سائنس دان بھی تھے ۔شوہر کے نام کی وجہ سے کیوری اپنے نام کے ساتھ لگایا۔کند ہم جنس باہم پرواز ۔کے مطابق میاں بیوی نے مل کر تجربات کیے اور ایک دوسرے کا ساتھ دیا ،مادام کیوری کی یہ جد وجہد حضرت علامہ اقبال کے اس شعر کی عملی تشریح ہے ۔
مرا طریق امیری نہیں، فقیری ہے
خودی نہ بیچ، غریبی میں نام پیدا کر
اور پھر انہوں نے اپنا نام پیدا کیا ۔ہوا یہ کہ جولائی 1898 ء میں کیوری خاندان نے یورنیم سے چار سو گنا زیادہ ریڈیائی تابکار کیمیاوی عنصر کی دریافت کا اعلان کیا۔ اپنے وطن کے نام پر اس کو میری نے پولونیم کا نام دیا۔اسی سال دسمبر میں کیوری خاندان نے ایک اور ریڈیائی تابکار کیمیاوی جوہر دریافت کیا ہے ۔اس کو انہوں نے ریڈیم کا نام دیا۔ یہ لاطینی زبان کے لفظ ریڈیر سے جس کا مطلب ہے شعاعیں برسانے والا۔میری اور پیری کی یہ جوڑی اب تک سائنس میں وہ کام کر چکی تھی جوان کے نام کو دوام بخشنے والا تھاپیری اپنی بیوی کے کام میں جوش و خروش سے حصہ لیتا تھا۔ لیکن ایک روز جب وہ پیرس کی سڑک کو پار کر رہا تھا تو ٹیکسی کی زد میں آ کر ہلاک ہو گیا۔
یہ اپریل 1906 ء کا واقعہ ہے ۔اب میری اکیلی رہ گئیں ان کے یہاں دو بیٹیاں پیدا ہوئیں تھیں جن میں سے ایک نے بعد میں سائنس کے میدان میں بہت شہرت حاصل کی۔مادام کیوری کو 1903ء میں فزکس کے میدان میں نمایاں خدمات سرانجام دینے پرنوبل پرائز سے نوازا گیا۔پھر 1911ء میں کیمسٹری کے میدان میں نمایاں خدمات سرانجام دینے پراسے نوبل پرائز سے نوازا گیا۔یہ انعام اس نے اپنے نام پر نہیں بلکہ اپنے خاوند کے نام پر قبول کیے ۔
مادام کیوری کا انتقال4 جولائی 1934 ء میں 66 برس کی عمر میں تابکاری کے اثرات کی وجہ سے ہوا ۔
مادام کیوری کا قول ہے کہ ''زندگی ایک مرتبہ ملتی ہے اور جو لوگ اِس کو بینک کے گورکھ دھندوں میں ڈال کر برباد کر دیتے ہیں وہ تاریخ میں ہمیشہ کیلئے خاموش ہو جاتے ''۔ ''زندگی ایک سخت ترین اور مشکل ترین سکول ہے ، اس میں آپ کو یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ آپ کی کلاس کب ختم ہوگی اور آپ کا اگلا امتحان کب شروع ہوگا،آپ اس زندگی کے امتحان میں کسی سے چیٹ بھی نہیں کرسکتے کیوں کہ اس امتحان میں سب کے سوالات مختلف ہیں،ہر کسی نے اپنے اپنے سوالوں کے جوابات تیار کرنے ہیں۔

.

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -