بارش اپنی اپنی ہوتی ہے

بارش اپنی اپنی ہوتی ہے
بارش اپنی اپنی ہوتی ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اڑتیس برس بعد برسنے والی ایسی موسلادھار بارش میں آپ کے گھر چھاجوں برستا پانی نہیں بھرا اور آپ سب مل کر اسے بالٹیو ں میں بھر بھر کے باہر نہیں پھینک رہے، اللہ تعالیٰ آپ کو سلامت رکھے اور اگر آپ کے پیاروں میں کسی کو کرنٹ لگنے کا حادثہ پیش نہیں آیا، آپ کے گھر کی کوئی چھت یا دیوار بھی نہیں گری اور آپ کے مزاج تک سلامت ہیں بلکہ کچھ کچھ رومانوی ہو رہے ہیں توآپ پکوڑے بنا سکتے ہیں، میوزک لگا سکتے ہیں اور شاعری پڑھتے ہوئے جاناں یا تصور جاناں، جو بھی دستیاب ہو، خوبصورت موسم کو انجوائے کر سکتے ہیں۔اگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی گاڑی جیسی نعمت سے بھی نواز رکھا ہے اور آپ کا گھر کسی پوش علاقے میں ہے توآپ ڈرائیو پر بھی جا سکتے ہیں، دیکھیئے تو سہی کہ قدرت نے بڑے بڑے سنگ مرمرلگے محلوں کو دھو کے کیسے چٹے کبوتروں سا سفید نکال دیا ہے، گرد سے اٹے درختوں کے دھل جانے کے بعد ذرا پتوں کی سبزی اور شوخی تو دیکھئیے ٹہنیوں پر رقص کرتے اور تالیاں بجاتے نظر آتے ہیں،لمبی کالی سڑکیں دھل کے مزید صاف ہو گئی ہیں، زندگی پہلے ہی رنگین تھی اور اب مزید رنگین ہو گئی ہے مگرمان لیجئے کہ ان رنگوں کو نعمت، دولت اور سہولت کی عینکوں سے ہی دیکھا جاسکتا ہے۔


آپ الیکشن لڑ رہے ہیں اور آپ کا تعلق مسلم لیگ ن سے ہے تو فوری طور پر ایسی تصویریں ڈھونڈیں جن میں کراچی اور پشاور گندے پانی میں ڈوبے ہوئے نظر آئیں تاکہ ان کے اس پروپیگنڈے کا جواب دے سکیں جو مخالفین لاہور کی سڑکوں کے پانی میں گوڈے گوڈے ڈوب جانے پر کر رہے ہیں بلکہ پیرس، لندن اور برمنگھم کے ڈوبنے کی تصویریں بھی دکھائی جا سکتی ہیں ۔آپ کالاباغ ڈیم کا ایشو بھی اٹھا سکتے ہیں اور کہہ سکتے ہیں کہ اگر اس ڈیم کی مخالفت نہ ہوتی تو وہ تمام پانی جو ہم نالیوں، گلیوں اور نہروں اور دریاوں کے ذریعے سمند ر میں پھینک رہے ہیں اسے محفوظ کیا جا سکتا تھا لیکن اگر آپ تحریک انصاف، پیپلزپارٹی یا جماعت اسلامی سے ہیں تو آپ کی موج ہو گئی ہے کہ آپ لاہور کو پیرس بنانے کے شہباز شریف کے دعووں کے جواب میں اس شہر کے وینس بننے کی تصویریں شئیر کر سکتے ہیں اور آپ کو اس فلسفے میں جانے کی ہرگز ضرورت نہیں اگر اتنی شدید بارش کراچی یا پشاور میں ہوگی تو وہاں اس سے بھی زیادہ پانی کھڑا ہوجائے گا کہ بہرحال لاہور میں صفائی کے ساتھ ساتھ پانی کی نکاسی کانظام باقی تمام شہروں سے کہیں بہتر ہے اور یہ کہ کسی بھی جگہ اگر گنجائش ایک گلاس پانی کی ہے اور وہاں جگ انڈیل دیا جائے گا تو اس کے نکاس میں وقت لگے گا ، دیکھنا صرف یہ ہے کہ جب پہلے نکاس میں تین، تین اور چار ،چار دن لگتے تھے تو کیا اب تین سے چار گھنٹے میں پانی نکلتا ہے یا نہیں۔ آسمانوں سے بلا تکان برستے ہوئے پانی میں وہ شہر بھی ڈوب جاتے ہیں جہاں کی ترقی اور جدت کی مثالیں دی جاتی ہیں، جہاں ٹیکس گزاروں کے دئیے ہوئے پیسوں سے بہتر ہی نہیں بلکہ بہترین نظام موجود ہیں مگر ہر نظام کی ایک صلاحیت ہوتی ہے اور جب اس صلاحیت سے زیادہ بوجھ اس پرفطری یا غیر فطری طریقے سے لاد دیاجائے تو وہ بیٹھ جاتا ہے۔


آپ سرکاری ملازم ہیں تو چھٹی بھی کر سکتے ہیں لیکن واسا، واپڈا یا ٹریفک پولیس جیسے کسی شعبے میں کام کرتے ہیں تو بارش نہیں آئی بلکہ آپ کی شامت آ گئی ہے۔ کون بتائے اور سمجھائے کہ کسی بھی شہر کی واٹر اینڈ سینی ٹیشن ایجنسی کے پاس ملازمین کی تعداد معمول کی صورتحال سے نمٹنے کے لئے ہوتی ہے لیکن اگر ایسی شدت کی بارش ہوجائے جو برس ہا برس میں کبھی کبھار ہوتی ہو تو یقینی طور پر آپ کا عملہ تمام سڑکوں اور علاقوں میں موجود نہیں ہو سکتا مگریہ بات اس شخص کو نہیں سمجھائی جا سکتی جس کے گھر یا گلی میں پانی بھرا ہوا ہو، اس کی پہلی ترجیح یہی ہواس کے گھر اور گلی سے پانی نکل جائے، اسے کیا غرض کہ کس ایجنسی کے پاس کتنا عملہ ہے ۔ اگر آپ واپڈا( مطلب یہ کہ اس کے ترسیلی اداروں لیسکو وغیرہ) کے ذمہ دار ہیں تو پھران عوام کی بددعاؤں اور بدگوئیاں سننے کے لئے تیار رہیں جن کی بارش شروع ہونے کے ساتھ ہی کسی بھی ٹیکنیکل فالٹ کی وجہ سے بجلی چلی گئی، وہ انتظار میں ہیں کہ بجلی بحال ہو مگر بارش کی طوالت کے ساتھ ساتھ ان کا انتظار بھی طویل ہوتا چلا جا رہا ہے، وہ امید رکھتے ہیں کہ الیکٹریسٹی جلد از جلد بحال ہوجائے گی مگر وہ یہ بات سمجھنے اور قبول کرنے کے لئے تیار نہیں کہ متعلقہ عملہ بارش کے دوران کھمبوں پر چڑھ کے ٹرانسفارمروں اور تاروں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کر سکتا، اس کے لئے انتظار کرنا ہو گا کہ بارش رک جائے، کھمبے خشک ہوجائیں کہ بجلی کی بحالی کا کام کرنے والے بھی ہمارے اپنے ہیں، وہ بھی کسی کے بھائی، بیٹے اور والد ہیں، ان کی جان بھی قیمتی ہے اور اسی طرح اگر آپ ٹریفک کے عملے میں ہیں تو بارش آپ کے لئے بھی رحمت کی بجائے زحمت بن سکتی ہے۔ بارش کے دوران ٹریف کا بہاو غیر معمولی طور پرسُست ہوجاتا ہے اور کسی بھی چوک پر آگے بڑھنے کی خواہش میں ٹریفک بلاک ہوجاتی ہے۔میں نے بہت ساری جگہوں پر چھتریاں تھامے ہوئے ٹریفک پولیس کے جوانوں کو گاڑیوں میں سوار لوگوں کی جلدبازی کے باعث پیدا ہونے والے مسائل سے لڑتے ہوئے دیکھا ہے۔
جہاں بارش سب کی اپنی اپنی ہے وہاں سوچ بھی اپنی اپنی ہے ۔

مجھے تو سیاسی جماعتوں اور معاشرے میں کم جمہوریت سمیت ہر مسئلے کا حل جمہوریت میں ہی نظر آتا ہے۔ یہ واحد نظام ہے جس میں آپ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں کا انتخاب ہی نہیں بلکہ کارکردگی کامظاہرہ نہ کرنے والوں کا احتساب بھی کر سکتے ہیں چاہے اس کا موقع دو ، چار برس کے بعد کبھی عام اور کبھی بلدیاتی انتخابات کی صورت میں ملے مگر موقع ضرور ملتا ہے۔ یہ جوابدہی کا ہی احساس ہوتا تھا کہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف برستی بارش میں لانگ بوٹ پہن کے پہنچے ہوتے تھے۔اگرہم چار چار عشروں کا رکارڈ توڑتی ہوئی بارشوں کو قدرت کی طرف سے ایک امتحان سمجھتے ہوئے پوائنٹ سکورنگ چھوڑیں اوریہ سوچیں کہ طنز کرنے کے لئے تو عمر پڑی ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ کسی کو ہماری مدد کی ضرورت ہو اور ہماری تھوڑی سی اعلیٰ ظرفی کسی کی بڑی مشکل ، مصیبت اور پریشانی ٹالنے کا سبب بن جائے ورنہ جن کے گھروں میں پانی بھرا ہے نکالناانہوں نے خود ہی ہے، جن کی چھتیں گری ہیں انہوں نے اپنے لئے کوئی سائباں خود ہی ڈھونڈنا ہے اور جن کا کوئی پیارا اس رحمت کے زحمت بننے سے ہمیشہ کے لئے جدا ہو گیا ہے ہم پکوڑوں سے میوزک اور ڈرائیو تک سے لطف اندوز ہوتے رہیں، اس کا مون سون اسی کی آنکھوں میں اترنا ہے کہ قسمت اور ظرف کی طرح بارش بھی سب کی اپنی اپنی ہوتی ہے۔

Back

مزید :

رائے -کالم -