پاکستان کے سابق وزیر اعظم کی جیل میں سکیورٹی پر مامور کرنل رفیع الدین کی تہلکہ خیز یادداشتیں ۔۔۔ قسط نمبر 20

Jul 04, 2018 | 02:59 PM

پاک فوج کا سب سے بڑا جنرل: ایک دن پاک بھارت جنگ1965ء کا ذکر چھڑا میں نے بھٹو صاحب سے پوچھا کہ جناب آپ اس زمانے میں وزیر خارجہ تھے۔ ہمارے فارن آفس نے اس جنگ سے پہلے یہ کیوں نہ سوچا تھا کہ ہندوستان ہماری سرحدوں پر حملہ کر دے گا۔ کہنے لگے کہ دفتر خارجہ نے تو اس کا اندازہ لگا لیا تھا لیکن فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے ایک جوائنٹ میٹنگ میں اس امکان کو رد کر دیا تھا۔ اسی دوران وہ کہنے لگے کہ جھرل ہیڈکوارٹر نے بھی تو اسی غلطی کا اعادہ کیا تھا۔ پھر کہنے لگے کہ جنرل اختر ملک کو کشمیر کے جو ڑیاں محاذ پرنہ روک دیا جاتا تووہ کشمیر میں ہندوستانی افواج کو تہس نہس کر دیتے مگر ایوب خان تو اپنے چہیتے جنرل یحییٰ خان کوہیرو بنانا چاہتے تھے۔ 1965 ء کی جنگ کے اس تذکرے کے دوران بھٹو صاحب نے جنرل اختر ملک کی بے حد تعریف کی۔ کہنے لگے اختر ملک ایک باکمال جنرل تھا۔ وہ ایک اعلیٰ درجے کا سالار تھا۔ وہ بڑا بہادر اور دل گردے کا مالک تھااور فن سپاہ گری کو خوب سمجھتا تھا۔ اس جیسا جنرل پاکستان فوج نے ابھی تک پیدا نہیں کیا۔ پھر مسکراتے ہوئے کہنے لگے‘ باقی سب تو جنرل رانی ہیں۔

پاکستان کے سابق وزیر اعظم کی جیل میں سکیورٹی پر مامور کرنل رفیع الدین کی تہلکہ خیز یادداشتیں ۔۔۔ قسط 19پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

پاکستانی میں اسلامی حکومت: جنرل ضیاء الحق صاحب یوں تو شروع سے ہی کچھ نہ کچھ اس موضوع پرکہتے رہے لیکن انہوں نے غالباً1978 ء کے آخیر میں سرکاری اعلان کیا کہ پاکستان میں اسلامی نظامِ حکومت قائم کیا جائے گا۔ اس اعلان کے دوسرے یا تیسرے روز جب میں بھٹو صاحب سے سیکیورٹی وارڈ میں ملاتو کہنے لگے کرنل رفیع تمھارا جنرل کونسا اسلام اس ملک میں رائج کرے گا۔ یہ اسلام کارخانے داروں کا ہو گا یا مولویوں کا یا عوام کے کسی حصے کا۔ کیونکہ مولوی کسی اور چیز پر تو متفق ہو سکتے ہیں لیکن اسلام پر کبھی بھی ایک رائے قائم نہیں کرسکتے۔ پھر کہنے لگے یہ ایک بڑا دھوکہ ہے جو ہمارے سادہ لوح عوام کے ساتھ کیا جا رہا ہے ۔جنرل ضیاء کبھی بھی اس اعلان پر عمل نہیں کرے گا۔
آج کئی سال گزر جانے کے بعد جب کہ جنرل ضیاء صاحب کو بھی ہمارے دوستوں نے اپنا مطلب نکل جانے کے بعد شہید کر دیا تو مجھے بھٹو صاحب کا یہ کہنا بالکل درست معلوم ہوتاہے ۔میں نے کچھ محترم اور ذمہ دار پاکستانیوں کو بھی یہ کہتے سنا ہے کہ ضیاء صاحب بھی نفاذِ اسلام میں صرف زبان کی حد تک سچے تھے۔ بدقسمتی سے انہوں نے اسلام کے نام پر اپنی حکومت کو زندگی کے آخری لمحات تک طویل کر دیا لیکن اسلانی نظام کیلئے وہ کچھ نہیں کیاجووہ کر سکتے تھے۔ ان حضرات کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ نظامِ اسلام کے نفاذ میں مشکلات ٰحائل تھیں لیکن بدقسمتی سے انہوں نے بھی اس عظیم کام کو فقط سیاسی نعرہ بناکر باقی سیاست دانوں کی طرح قوم کو بیوقوف ہی بنایا۔
میرا سر پاکستان کی قیمت ہے:
بھٹو صاحب اکثرکہا کرتے تھے کرنل رفیع اگر میرا سر گیا تو پاکستان بھی ختم ہو جائے گا۔ میں اس فقرے کا مطلب کبھی نہیں سمجھ سکا اور ہر بار سوچتا رہا کہ بھٹو صاحب( My Head Goes, Pakistan Goes ) کہہ کر کیا بتا رہے تھے۔ یہ فقرہ کم از کم درجنوں بار انہوں نے مختلف موقعوں پر مجھ سے کہا ہوگا
مجھے معلوم ہوا کہ مسٹر عبدالحفیظ پیرزادہ نے جب مارچ1979 ء میں جنرل ضیاء الحق صاحب کے ساتھ ملاقات کی تھی تو انہوں نے بھی اس قسم کے خیالات ظاہر کئے تھے مگر ضیاء الحق صاحب نے اس خیال کو بھٹو صاحب کا وہم سمجھ کر خارج ازامکان قرار دیدیا تھا۔
پاکستان میں آبادی کا مسئلہ: ایک دفعہ ہماری گفتگو کے دوران پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی کا مسئلہ بھی آیا۔ شاید اس موضوع پر اس دن کے اخبار میں ذکر ہوا تھا۔ میں نے جرأت کر کے اس موضوع پر کچھ کہا کہ میرے خیال میں پاکستان کا یہ گھمبیر مسئلہ ہے ۔ ہماری آبادی بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے اور آبادی میں یہ روز افزوں اضافہ ہمارے وسائل کو ختم کر رہا ہے او رہم مادی ترقی میں وہیں کے وہیں کھڑے ہیں۔ عوام کے تقریباً تمام مصائب کی ایک بڑی وجہ ہماری آبادی میں اضافہ ہے۔ بھٹو صاحب کہنے لگے ‘ بھئی ان اَن پڑھ مولویوں کو کون سمجھائے۔ ایوب خان نے اس مسئلے کو کنٹرول کرنے کیلئے کچھ کرنا چاہا تو ان نا سمجھ لوگوں نے اسے کیا کچھ کہنا شروع کر دیا تھا۔ پھر وہ ہنس پڑے اور کہنے لگے ’’ ہماری فوج ہماری آبادی کو کم کرنے کا فریضہ اسی طرح انجام دیتی رہی تو یہ مسئلہ خود بخود حل ہو جائے گا‘‘
احمدیہ مسئلہ: یہ ایک ایسا مسئلہ تھا جس پر بھٹو صاحب نے کئی بار کچھ نہ کچھ کہا۔ ایک دفعہ کہنے لگے ’’ رفیع یہ لو گ چاہتے ہیں کہ ہم ان کو پاکستان میں وہ مرتبہ دیں جو یہودیوں کو امریکہ میں حاصل ہے۔ یعنی ہماری ہر پالیسی ان کی مرضی کے مطابق چلے۔ایک بار انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی نے ان کو غیر مسلم قرار دیا ہے اس میں میرا کیا قصور ہے۔
ایک دن اچانک مجھ سے پوچھا کہ کرنل رفیع کیا احمدی آج کل یہ کہہ رہے ہیں کہ میری موجودہ مصیبتیں ان کے خلیفہ کی بددعا کا نتیجہ ہیں کہ میں کال کوٹھڑ ی میں پڑا ہوا ہوں۔ ایک مرتبہ کہنے لگے کہ بھئی اگر ان کے اعتقاد کو دیکھا جائے تو وہ تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو آخری پیغمبر ہی نہیں مانتے اور اگر وہ مجھے ہی اپنے آپ کو غیر مسلم قرار دینے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں تو کوئی بات نہیں۔ پھر کہنے لگے میں تو بڑا گناہ گار ہوں اور کیا معلوم کہ میرا یہ عمل ہی میرے گناہوں کی تلافی کر جائے اور اللہ میرے تمام گناہ اس نیک عمل کی بدولت معاف کردے۔ بھٹو صاحب کی باتوں سے میں اندازہ لگایا کرتا تھا کہ شاید ان کو گناہ وغیرہ کا کوئی خاص احساس نہ تھا لیکن اس دن مجھے محسوس ہوا کہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔
میں خو د فوج کیسے برباد کر سکتا ہوں: بھٹو صاحب نے کئی مرتبہ مجھ سے کہا کہ میں خود جس فوج کا معمار ہوں اسے کیسے برباد کر سکتا ہوں۔ ان دنوں شاید فوج میں یہ پروپیگنڈا ہو رہا تھا کہ مسٹر بھٹو اور ان کی پارٹی فوج کو برباد کرنا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے تو ملک ‘ قوم اور فوج شکستہ حالت میں حاصل کی۔ ایسٹ پاکستان کے الگ ہو جانے کے بعد ملک ٹوٹا ہوا پایا۔ قوم اور فوج شکست خوردہ حالت میں پائی۔ میں نے اپنے دن رات لگا کر اس قوم کو زندہ کیا۔ فوج جو بے جان ہو چکی تھی اس میں جان ڈالی۔ اس کو بہتریں ہتھیار مہیا کئے‘ اس کا مورال اونچا کیا اس میں دوبارہ زندگی کی لہر پھونکی ‘ اب آپ کے جرنیل کہہ رہے ہیں کہ بھٹو فوج کو برباد کرنا چاہتا تھا۔ میں اس ملک اور فوج کو بنانے والا ہوں۔ میں اسے برباد کرنے کی بات کیسے سوچ سکتا ہوں؟
ایک دن کہنے لگے مجھے پارٹی کے کئی لوگوں نے مشورہ دیا کہ دنیا کی پیشتر افواج میں بیٹ مین( Bat Man ) کی سہولت ختم کر دی گئی ہے لیکن ہمارے ہاں یہ نو آبادیاتی( Colonial )رسم جاری ہے۔ ہمار ی فوج میں افسران کے علاوہ جے سی اوز( JCOS ) کو بھی یہ سہولت حاصل ہے۔ اس طرح ہمارے بے شمار سپاہی فوجی کام نہیں کر رہے بلکہ ایک نوکر کا کام کر رہے ہیں۔ یہ عمل ایک سپاہی کی خوداری کی نفی کرتا ہے۔ ہماری فوج اس سسٹم کی وجہ سے تقریباً دو ڈویژن سے محروم ہو رہی ہے۔ یہی نہیں بلکہ لال فیتے والے افسران تو ڈرائیور‘ باورچی‘ خانساماں اور بیٹ مین تک الگ رکے ہوئے ہیں۔ بلکہ سینئر ریٹائرڈ آفیسر اپنے نے ابھی تک کئی کئی سپاہی اپنے گھروں اور زمینوں پر رکھے ہوئے ہیں جبکہ وہ تنخواہ اور راشن فوج سے لے رہے ہیں۔ کہنے لگے کئی احباب نے کہاکہ اس قسم کی لعنت کو فوج سے ختم کیا جائے لیکن میں نے کہا کہ بھٹو کے دور میں نہیں ‘ بعد میں خودبخودیہ لعنت فوج سے نکل جائے گی۔ کہنے لگے رفیع صاحب میں تو ہر لحاظ سے فوج کی بہبود کیلئے ہر کام کرنے کیلئے ہمیشہ تیاررہا ہوں تا کہ ہمارا ہر فوجی دل لگا کر اپنی سروس کرے۔ پھر کہنے لگے بھٹو فوج کو ختم کرنے کی کس طرح سوچ سکتا ہے؟
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)

کمپوزر: طارق عباس

مزیدخبریں