عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا۔۔۔قسط نمبر14

عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا۔۔۔قسط نمبر14
عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا۔۔۔قسط نمبر14

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

وقت کافی گزر چکاتھا۔ اچانک ایک چمگادڑکہیں سے اڑی اور چھپاک سے مارسی اور قاسم کے سامنے آگری۔ یک لخت مارسی کی ہذیانی انداز میں چیخ نکلی اور وہ بے ساختہ قاسم کی جانب سمٹ گئی اوراس کے دائیں بازو کو چھوا تو اس کے تن بدن میں بجلی سی کوندگئی۔ مارسی کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ اور قاسم کے سینے میں ایک نئی لذت کے شگوفے پھوٹ رہے تھے۔ لیکن یہ سب کچھ صرف دو ثانیے کے لیے تھا۔ اگلے لمحے مارسی ، قاسم سے الگ ہو کر بیٹھ گئی۔ اس کا چہرہ شرم و حیاء کی شدت سے انار ہوچکا تھا۔ اب مارسی نے واپس چلنے میں ہی بہتری سمجھی ۔ کیونکہ اس طرح قاسم کے بدن سے مس ہونے کے بعد اس کے بدن میں کپکپی طاری ہوچکی تھی۔ اور وہ کوئی بات کرنے کی ہمت نہ کرپارہی تھی............
وہ کانپتے قدموں کے ساتھ اٹھی اور زمین پر پڑے خشک پتوں کو گھورتے ہوئے کہنے لگی۔ ’’اب ہمیں چلنا چاہیے۔‘‘
قاسم کے لیے آج کی ملاقات بائیس سالہ زندگی کا سب سے حسین تجربہ تھی۔ قاسم بہت خوش تھا۔ اسے مارسی کے ساتھ مل کر یوں لگا جیسے اس نے ہفت اقلیم کی شہنشاہیت حاصل کر لی ہو۔ قاسم بھی اٹھ کر مارسی کے ہمراہ قدم بقدم چلنے لگاتھا۔ راستے میں اس نے مارسی سے سوال کیا۔

عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا۔۔۔قسط نمبر13 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں


’’سنا ہے ابوجعفر کے تعلقات سلطان کے رشتے داروں تک بھی ہیں۔ کیا یہ سچ ہے؟‘‘ مارسی نے جواب دیا’’ ہاں، میں نے بھی سن رکھا ہے۔ میری ماں بتارہی تھی کہ ابوجعفر کے بہت گہرے مراسم ’’شہزادہ علاؤالدین ‘‘کے ساتھ ہیں۔‘‘
’’شہزادہ علاؤالدین کے ساتھ؟..........یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں؟...........تو کیا شہزادہ علاؤ الدین یعنی سلطان کا بڑا بیٹا بھی غداروں کا ساتھی ہے۔؟‘‘قاسم نے حیرت کی شدت سے کسی قدر بلند آواز میں کہا تو مارسی فوراًبول اٹھی۔
’’نہیں ! یقیناً ایسا نہیں ۔ شہزادہ علاؤالدین کو میں ذاتی طور پر جانتی ہوں۔ وہ ایسے نہیں ہو سکتے ۔ ابو جعفر یقیناً کسی چال بازی سے ان پر اثر انداز ہوتا ہوگا۔‘‘
قاسم نے اطمینان کی سانس لی۔ لیکن وہ اس نئی بات کو معلوم کر کے خوش تھا کہ ابوجعفر کا آنا جانا شہزادہ علاؤالدین کے پاس بھی تھا۔ گویا اسے ایک نیا سراغ بھی مل گیا تھا۔
قاسم اور مارسی باتیں کرتے ہوئے آبنوس کے درختوں تک پہنچے تو نوعمر کوچوان’’اکبر‘‘ بگھی تیار کئے سامنے کھڑا تھا ۔ مارسی اور قاسم رک گئے۔ مارسی نے قاسم سے جانے کی اجازت لینے کے انداز میں کہا۔
’’آپ تو ینی چری کے سالار ہیں ۔ امید ہے آپ بھی کل روانہ ہونے والے لشکر کے ہمراہ محاذ جنگ کی طرف چلے جائیں گے۔ میں چاہتی تھی کہ کبھی آپ کے دولت کدے پر حاضر ہوسکوں اور آپ کے اہل خانہ سے مل سکوں۔‘‘ مارسی نے پرتکلف لہجے میں بات کی۔
قاسم مسکرادیا۔ ’’اتفاق سے میں دونوں لشکروں میں سے کسی کے ہمراہ جانے کے لیے منتخب نہیں کیا گیا۔ مجھے اس دوران یہیں ادرنہ میں رہ کر رسدوکمک کے کام کی نگرانی کرنی ہے۔‘‘ قاسم نے مارسی سے اپنا نیا عہدہ چھپایا اور اپنے نہ جانے کی گول مول وجہ بیان کی۔مارسی قاسم کے جواب سے کسی حد تک حیران ہوئی۔ اسے توقع نہ تھی کہ قاسم جیسا سپاہی فریضہء جہاد میں پیچھے رہ جائے گا۔ اس نے استفہامیہ لہجے میں پوچھا۔
’’تو کیا ایک مایہ ناز شمشیر زن کو سلطان نے اناج ڈھونے کے کام پر لگا دیا ہے؟‘‘
مارسی کا جملہ سن کر قاسم کی روح کانپ گئی۔ اس نے ذراسی دیر کئے بغیر کہا۔ ’’نہیں ، سلطان نے مجھے جس کام پر لگایا ہے اس کا بیان نہ کرنا ہی میر ذمہ داری کا اولین تقاضا ہے۔ میں پیچھے رہنے والا سپاہی نہیں ہوں............ابھی شاید رزم گاہ میں جوہر دکھانے کا میر ا وقت نہیں آیا۔ مجھے امید ہے کہ سلطان قونیا سے واپسی پر صلیبیوں کے خلاف بڑے معرکے میں مجھے ضرور لے کر جائے گا۔‘‘
مارسی، قاسم کی بات سمجھ گئی ۔ اس نے تفہیمی انداز میں سرہلایا اپنے کہے پر معذرت کرنے لگی۔ قاسم بھی مسکرادیا ۔ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد مارسی، قاسم کی آنکھوں سے آنکھیں نکال کر مڑی اور تیز قدموں سے چلتی ہوئی بگھی میں سوار ہوگئی۔
دوسرے دن سلطانی لشکر کوچ کرچکا تھا۔ جبکہ شہاب الدین پاشا چند دنوں میں ہی روانہ ہونے والاتھا ۔ قاسم کے دل میں میدان جنگ سے دور رہنے کا کچھ ملال تو پہلے ہی تھا۔ لیکن مارسی کی بات اس کے دماغ میں نشتر کی طرح اتر گئی تھی۔ وہ چاہتاتھا کہ میدان جنگ میں صلیبی پہلوانوں کے پنجہ سے پنجہ لڑائے ۔ لوہے سے لوہا ٹکرائے اور صلیبی بزدلوں پر یہ واضح کردے کہ مکہ کے عرب آج بھی خالد بن ولیدؓ جیسی شجاعت اور قوت و جبروت کے مالک ہیں۔ لیکن اسے ادرنہ میں رہنے کا حکم مل چکا تھا۔ وہ انہی خیالوں میں گم ینی چری کی قیام گاہ(کیمپ) کی روش پر چل رہاتھا ۔ اس کا ذہن ساتھ کے ساتھ اپنے اگلے
منصوبوں پر بھی سوچ رہاتھا۔
اگلے چوک پر وہ رک گیا اور ایک ثانیے کے بعد بائیں جانب کی روش پر مڑ گیا۔ وہ آغا حسن سے ملنے کے لیے جارہاتھا ۔ آغاحسن ینی چری کا دس ہزاری سالار تھا۔ تھا تو وہ بھی نومسلم لیکن ایمان کا پکا اور قول کا دھنی تھا۔ اب قاسم کا رخ ان فوجی بارکوں کی جانب تھا جواینٹ اور گارے سے افسروں کے لیے بنوائی گئی تھیں۔
قاسم ، آغا حسن کے کمرے کے قریب پہنچا تو اسے اندر سے قہقہوں کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ لگتا تھا اندر خوب گپ شپ ہورہی تھی۔ قاسم رکے بغیر آغاحسن کے کمرے میں داخل ہوتا چلا گیا۔ آغاحسن کا کمرہ ینی چری کے نوجوان افسروں سے بھرا پڑا تھا۔ یہاں فرش پر سرکنڈوں کی صف بچھی ہوئی تھی اور دیواروں کے ساتھ تکیے رکھے تھے۔ قاسم داخل ہوا تو سب خاموش ہوگئے اور قاسم کے استقبال کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ قاسم نے سب سے بغل گیر ہونے کے دوران ہی کہا۔
’’آج تو محفل کشت زعفران بنی ہوئی ہے۔ لگتا ہے آپ لوگوں کو تنخواہیں مل چکی ہیں۔‘‘
قاسم کی بات سے سب قہقہہ مار کر ہنس پڑے۔ لیکن سالار ’’امیر خان ‘‘ نے برجستہ جواب دیا۔ ’’بھئی !اپنا تو یہی معسکر گھر بھی ہے اور دنیا بھی۔ اور یہاں تو ہمارا ہر روز روز عید ہے ، ہر شب شب برات ۔‘‘
سب ایک بار پھر ہنس پڑے۔
’’حضور ! تنخواہوں کی کیا بات کی آپ نے۔ سنا ہے بایزید یلدرم کے زمانے تک ینی چری کو خوب خوب تنخواہیں ملتی تھیں۔ اور ادرنہ کی عوام کے سامنے ینی چری کا بہت زیادہ مقام اور دبدبہ تھا۔ اب تو ینی چری کو نہریں کھودنے اور پل تعمیر کرنے کے گھٹیا کام پر لگادیا گیاہے۔‘‘
اسلم خان کی بات سے ایک دم محفل کا رنگ بدل گیا۔ آغاحسن سمیت کچھ افسروں کو یہ بات ناگوار لگی اور کچھ نے اسلم خان کی ہاں میں ہاں ملائی۔ قاسم اب تک ایک ماہر جاسوس ثابت ہورہاتھا۔ اس نے آتے ہی محفل سے ایسا سوال کیا تھا جس سے وہ ینی چری میں پھیلنے والی ممکنہ بغاوت کے بارے میں ابتدائی معلومات حاصل کر سکتا تھا۔ اسلم خان کی بات سے قاسم کا ماتھا ٹھنکا ۔ اس نے سادہ سے انداز میں دوسرا تیر پھینکا۔
’’ارے دوستو! یہ تو بتاؤ ، سلطان کے ہمراہ کون کون گیا ہے۔ اور شہاب الدین پاشا کے ہمراہ کون کون جارہاہے؟‘‘
آغاحسن نے فوراً جواب دیا۔ ’’سلطان کے ہمراہ صرف ینی چری کے پانچ ہزار سپاہی روانہ ہوئے ہیں۔ باقی تمام فوج جاگیرداروں،سرداروں پر مشتمل ہے۔ اس پانچ ہزار کے لشکر کی کمان اپنا دوست ’’ریاض بیگ‘‘ کر رہا ہے۔ البتہ شہاب الدین کے ہمراہ ینی چری کے تیرہ بڑے دستے روانہ ہورہے ہیں۔ ہر اول میں ، میں اور کماندار امیر خان جائیں گے۔ باقی سب لوگ جو یہاں بیٹھے ہیں، سوائے اسلم خان کے، قلب میں رہیں گے۔ میمنہ اور میسرہ پر جاگیرداروں کو مقرر کیا گیا ہے۔ اور تیس ہزار پیدل سپاہیوں کی کمان سلطان کے بہنوئی ’’محمد چلپی‘‘ کے سپرد کی گئی ہے...............یہ توہے ہماری کیفیت ۔ لیکن حیرت ہے کہ تمہارا نام کہیں دکھائی نہیں دیا۔‘‘
آغا حسن نے شہاب الدین پاشا کی تفصیل بتائی اور آخر میں قاسم سے وہی سوال کر دیا جو مارسی نے کیا تھا۔ قاسم نے آغا حسن کے سوال کو نظر انداز کر دیا اور اسلم خان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’لیکن اسلم خان کو کیوں روک دیا گیا یہاں؟‘‘
اس سوال سے اسلم خان بوکھلا گیا۔ اس نے کسی قدر ہکلاتے ہوئے کہا۔
’’آآآپ ...........اپنی بات گو ل کر گئے اور میر ی بات پوچھ رہے ہیں۔ پہلے آپ بتائیے کہ آپ کیوں رہ گئے ہیں ساتھ جانے سے؟‘‘
اس سے پہلے کہ قاسم بولتا، سالار عبدالرحمن بول اٹھا۔ ’’میں بتاتا ہوں کہ قاسم بن ہشام کس لیے لشکروں کے ساتھ نہ جاسکا۔‘‘
ساری محفل، کونے میں بیٹھے ادھیڑ عمر سالار ’’عبدالرحمن‘‘ کی طرف متوجہ ہوگئی۔
’’سلطان نے قاسم کو ادرنہ میں رہ کر جنگ لڑنے کا حکم دیا ہے۔ سنا ہے یہاں قیصر کی کوئی خفیہ فوج موجود ہے۔‘‘
عبدالرحمن کی بات سے اسلم خان اپنی جگہ پر پہلو بدل کر رہ گیا۔ اب اس کی آنکھوں میں خفت تھی۔ اس نے سمجھا تھا کہ قاسم نے از خود کوچ سے جان چرائی ہوگی۔ لیکن یہاں تو معاملہ ہی الٹ تھا۔ عبدالرحمن کی اطلاح سے ساری محفل میں سنسنی کی لہر دوڑ گئی۔
’’خفیہ فوج موجود ہے تو ہونیاڈے کے خلاف جاکے لڑنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ امیر خان نے ماتھے پر شکنیں ڈالتے ہوئے سوال کیا۔
اسلم نے فوراً امیر خان کی ہاں میں ہاں ملائی۔ ’’جی ہاں! اگر یہاں فوج ہے تو پھر سلطنت عثمانیہ کو سخت خطرات لاحق ہیں۔ ایسے عالم میں ادرنہ سے سلطان کی روانگی کیونکر درست ہوسکتی ہے۔‘‘
اسلم کی بات کے دوران قاسم پوری طرح اسلم خان کی جانب متوجہ تھا۔ اسلم خان کی بات کے اختتام پر قاسم نے پھر اپنا سوال دہرایا۔
’’ہاں !تو آپ بتانے والے تھے کہ آپ لشکر وں کے ساتھ کیوں روانہ نہ ہوسکے؟‘‘
اب قاسم کے لہجے میں ہلکی سی چبھن بھی تھی جسے اسلم خان محسوس کئے بغیر نہ رہ سکا۔ وہ گڑبڑا گیا اور ہچکچاتے ہوئے کہنے لگا۔
’’دراصل میرے گھر میں بچہ ہونے والا ہے ۔ جبکہ میرے گھر کی دیکھ بھال کر نے والا میرے سوا اور کوئی نہیں۔‘‘
قاسم نے اسلم کی بات حیرت سے سنی اور فوراً کہا ۔’’تو کیا آپ معسکر کی اقامت گاہ میں نہیں رہتے جس طرح کہ دوسرے سالار رہتے ہیں؟ مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ آپ شادی شدہ ہیں۔‘‘
قاسم کی بات کا جواب ادھیڑ عمر عبدالرحمن نے دیا۔ ’’ دراصل ینی چری کے جو سپاہی یا سالار شادی کر لیتے ہیں تو انہیں چھاؤنی کے علاقے میں سلطان کی طرف سے مکان فراہم کیا جاتا ہے۔ آپ تو جانتے ہیں کہ ہم سب پہلے غیر مسلم تھے۔ اور آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ ینی چری کے سپاہی زیادہ تر وہ قیدی ہیں جو سلطنت عثمانیہ نے مختلف صلیبی جنگوں میں قید کئے۔ اس لیے یہ یہاں ہمارا کوئی خاندان ہوتا ہے نہ ماں باپ اور بہن بھائی وغیرہ۔ تمہاری بات الگ ہے ۔ ینی چری کے تاریخ میں تم پہلے شخص ہو جو نو مسلم نہیں ، بلکہ پیدائشی مسلمان ہو۔‘‘
اس قدر معلومات تو قاسم کے پاس بھی نہیں تھیں۔ وہ تو کسی شک کی بناء پر اسلم کے بارے میں تحقیق کر نا چاہتا تھا ۔ اسے معلوم تھا کہ ینی چری کے بعض سالار ابوجعفر جیسے غداروں کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں اچانک قاسم کو کوئی خیال آیا اور اس نے مصنوعی سا قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔
’’اجی چھوڑیئے !آپ لو گ ایک رنگین محفل سجا کر بیٹھے ہیں ۔ میں نے خواہ مخواہ آپ کے رنگ میں بھنگ ڈال دی۔ چھوڑیئے یہ باریک بینیاں اور مجھے بھی بتائیے کہ میرے آنے سے پہلے آپ لوگ کس بات پر ہنس رہے تھے؟‘‘
قاسم نہیں چاہتا تھا کہ اسلم خان اس کی جانب سے محتاط ہو۔ اور وہ اپنے شک کے سراغ پر مزید کام نہ کرسکے۔ قاسم کی بات سنتے ہی آغا حسن نے مسکراکر کہا۔
ُُ’’آپ کے آنے سے پہلے یہاں محفل مشاعرہ برپاتھی اور کماندار امیر خان اپنے چٹکلے دار فارسی کلام سنا رہے تھے۔‘‘
قاسم نے سنا تو حیرت سے امیر خان کی جانب دیکھا اور شرارت سے مسکراتے ہوئے کہا ۔’’اچھا ! تو جناب شاعری بھی فرماتے ہیں۔ کچھ ہم بھی تو سنیں کہ آپ نے کیا کچھ لکھاہے۔‘‘
امیر خان نے ڈھٹائی سے جواب دیا ۔ ’’اجی ، شاعری کے کیا کہنے ۔ ہمیں تو اندلس میں ہونا چاہیے تھا۔ ’’الحمرا‘‘ کے دربار میں ہم اپنا کلام سناتے اور دیوان خاص کی شہزادیاں بالکونیوں سے ہم پر پھول نچھاور کرتیں۔‘‘
امیر خان کی بات سے ایک زوردار قہقہہ بلند ہوا اور کمرے کی فضا یکسر بدل گئی اتنے میں عبد الرحمن نے قاسم سے مخاطب ہو کر کہا۔
’’قاسم بن ہشام! آپ تو عرب ہیں کیا فارسی شاعری آپ کی سمجھ میں آئے گی؟‘‘
’’آپ سمجھ میں آنے کی بات کرتے ہیں۔ میں آپ کو فارسی کا شعر سناتا ہوںْ‘‘
ساری محفل یک دم ہمہ تن گوش ہوگئی۔ قاسم زیر لب مسکرا رہا تھا۔ اس نے کچھ دیر توقف کے بعد انتہائی خوبصورت ترنم سے اسلم خان کی جانب دیکھتے ہوئے فارسی کا ایک شعر سنایا :۔
آں نہ من باشم کہ روز جنگ بینی بشت من
آں منہم کاں درمیان خاک و خوں بینی سری
ترجمہ:۔ ’’میں وہ نہیں کہ تو جنگ کے روز میری پشت دیکھے ۔ میں تو وہ ہوں کہ تو میدان جنگ میں خاک و خون کے درمیان پڑا ہوا میرا سر دیکھے گا ۔‘‘قاسم کا شعر اس قدر خوبصورت تھا کہ آغا حسن کے کمرے میں واہ واہ کا شور مچ گیا۔

(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)