پی آئی اے ترقی کی اڑان،مالی خسارے پر کنٹرول
ضیاء الحق سرحدی پشاور
ziaulhaqsarhadi@gmail.com
باکمال لوگ، لاجواب سروس۔۔۔۔۔۔یہ کسی دور میں ایشیا کی کامیاب ترین ایئر لائنز میں شمار ہونے والی پی آئی اے کا موٹو تھااور اس میں بہت حد تک سچائی بھی تھی۔آئیے ہمارے ساتھ پرواز کیجیے(Come Fly with us)کا نعرہ بھی کار کردگی،سہولتوں اور سروس کے لحاظ سے لوگوں کو اپنی جانب کھینچتا تھا۔ اور لوگ ملک سے باہر اس ایئر لائن سے سفر کرتے ہوئے یا اندرون ملک سفر پہ ہی اپنے پیاروں کو بڑے فخر سے بتایا کرتے تھے کہ ہم پی آئی اے کی پرواز کے ذریعے آئے ہیں۔پھر کیا ہوا؟ کیوں ہوا؟ اہل وطن اور خاص کر اہل فکر ونظر کے لئے یہ بات باعث تشویش ہے کہ ملک کا ایک اہم ادارہ ایک عرصے سے زوال کا شکار ہے۔کرپشن اور اقرباپروری کے باعث قومی ادارے اربوں روپے کے خسارے سے دوچار ہیں۔جن کی بحالی ناگزیر ہے۔کرپشن کا ناسور ملکی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔قومی دولت اور وسائل کی لوٹ مار کے باعث پاکستان کے بڑے ادارے،سٹیل ملز،ریلوے اور پی آئی اے سمیت متعدد پبلک سیکٹر ادارے تباہی کے دہانے پہنچ چکے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں سالانہ 300ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے۔پی آئی اے کا شمار دنیا کی بہترین ایئر لائنز میں کیا جاتا تھا،اس ادارے کا ماضی تو بہت شاندار رہا،لیکن حال بہت برا ہے۔آزادی سے قبل 1946ء میں ابتدائی طور پر”اورینٹ ایئرویز“کے نام سے قائم ہونے والی یہ فضائی کمپنی ایک وسیع تاریخ رکھتی ہے۔1955ء میں پاک ایئرویز،اورینٹ ایئرویز اور کریسنٹ ایئرویز کو یکجا کرکے پی آئی اے کا نام دیا گیا۔یہ وہ وقت تھا جب پی آئی اے نے کم وسائل کے باوجود نمایاں کامیابیاں اپنے نام کیں۔ایئر مارشل اصغر خان اور ایئر مارشل نور خان نے پی آئی اے کو ایک مثالی ادارہ بنانے کے لئے کلیدی کردار ادا کیا، ایئر مارشل اصغر خان پاک فضائیہ کے پہلے کمانڈر انچیف تھے۔1965ء سے 1968ء تین سالہ دور پی آئی اے کی”گولڈن ایج“کہلاتا تھا۔اس عرصے میں پی آئی اے حادثاتی اعتبار سے دنیا کی سب سے محفوظ ایئرلائن بن گئی تھی اور پروازوں کے شیڈول اور کیبن سروس کے اعتبار سے پانچ بڑی ایئر لائنز میں شمار ہوتی تھی۔ماضی میں ہوا بازی کے شعبے میں دنیا کی مختلف ایئرلائن کمپنیوں نے پی آئی اے کے ماہرین سے تربیت حاصل کی۔پی آئی اے دنیا کی پہلی ایئرلائن ہے جس نے دوران پرواز مسافروں کو فلمیں دکھانے کا آغاز کیا۔1965ء اور1971ء کی پاک بھارت جنگوں میں پی آئی اے نے بوئنگ 707کے ذریعے ایئر فورس کے لئے ٹرانسپورٹ کے بھی فرائض انجام دیئے۔ملک کے پبلک سیکٹر اداروں کی تباہی کی اصل وجہ سیاسی بھرتیاں ہیں۔گزشتہ حکومتوں نے ایوی ایشن سے نابلدمن پسند افراد کو پی آئی اے میں انتظامیہ عہدوں پر فائض کرتی رہیں۔ماضی میں پی آئی اے کے وسائل کی جس انداز میں بندربانٹ کی گئی اس کی بھی مثال نہیں ملتی۔پی آئی اے کے ہوٹلوں میں سستے کھانوں کی مد میں جس طرح کی عیاشیاں کی جاتی رہی ہیں وہ لمحہ فکریہ ہے۔سیاستدانوں اور بیوروکریسی کی مفاداتی رکابتوں نے پی آئی اے کو آج اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے جہاں خسارے کے سوا کچھ نہیں۔پی آئی اے وہ قومی ادارہ ہے جو ساٹھ اور ستر کی دہائی میں عالمی سطح پر ایک کامیاب اور منافع بخش ایئر لائن تھی تاہم ستر کی دہائی کے وسط میں اس میں خرابیاں پیدا ہونی شروع ہوئیں اور اس کا منافع کم ہونا شروع ہوا۔80کی دہائی میں بھی اس کی حالت مناسب رہی مگر اس میں خرابیاں بڑھتی گئیں۔پیپلز پارٹی کے آخری دور حکومت میں اس کی حالت مزید خراب ہو گئی اور پی آئی اے کی نجکاری کا فیصلہ کیا گیا تاہم پی آئی اے کی مختلف یونینوں نے نجکاری کی مخالفت کی۔مسلم لیگ (ن)نے اپنے دور حکومت میں پی آئی اے کی نجکاری کی مہم دوبارہ شروع کی اور پی آئی اے کے ملازمین نے نہ صرف مخالفت کی بلکہ پائلٹوں نے دوسرے مسائل کو بہانہ بنا کر ہڑتال کر کے پی آئی اے کا آپریشن بند کر دیا۔اس معاملے سے حکومت نے مذاکرات کرکے نجات حاصل کی۔پی آئی اے کے ایم ڈی اور دیگر اعلیٰ حکام تبدیل کیے گئے مگر نتیجہ بہتر نہ ہوا تاہم پی آئی اے کے انتظامی اخراجات کم کیے گئے۔پی آئی اے کے پاس اس وقت تقریباً 40طیارے آپریشنل تھے مگر پی آئی اے کے ملازمین کی تعداد 17ہزار سے زائد تھی جو دنیا کی کسی بھی ایئر لائن کو کامیاب نہیں ہونے دے سکتی۔پی آئی اے میں سیاسی حکومتوں کے ادوار میں غیر ضروری بھرتیوں،یونینوں کی موجودگی اور انتظامیہ میں مداخلت نے معاملات کو بری طرح خراب کیا تاہم پی آئی اے کو چلانے کی کوشش کی گئی۔پی آئی اے کی بحالی بالکل ممکن ہے،اس سلسلے میں ملایشیاء اور امریکا کی قومی ایئر لائن سمیت دنیا کی متعدد ایئر لائنز کی مثالیں بھی موجود ہیں جو شدید خساروں کا شکار چلی آرہی تھیں لیکن مثبت اور قابل عمل اقدامات کے بعد منافع بخش بن کر آج کامیابیوں کا تسلسل قائم کئے ہوئے ہیں۔البتہ مخلصانہ اور ایماندارانہ کوششوں اور موثر حکمت عملی سے پی آئی اے کو پھر سے ایک کامیاب ایئر لائن بنایا جا سکتا ہے۔اتحاد ایئرویز،قطرایئرویز،ایمریٹس ایئرویز اور راایئر بلیو جیسی فضائی کمپنیاں آج منافع میں جا رہی ہیں۔اگر یہ فضا ئی کمپنیاں بہتر طور پر چل سکتی ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ پی آئی اے دنیا کی بہترین افرادی قوت ہونے کے باوجود مسلسل خسارے کا شکار ہے۔پی آئی اے کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لئے اس میں کرپشن کے دروازے بند کرنے ہونگے۔سیاسی مداخلت،فرائض کی انجام دہی میں ملازمین کی عدم دلچسپی اور مختلف شعبوں میں رابطوں کے فقدان جیسے مسائل سے جلد چھٹکارہ حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔وزیر اعظم عمران خان مختلف اداروں میں اصلاحات کے جس ارادے کا اکثر اظہار کرتے نظر آتے ہیں، انہیں پی آئی اے کی بحالی کے حوالے سے بھی سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ خسارے کا شکار مختلف اداروں کی بحالی تحریک انصاف کی حکومت کے لئے بہت بڑا چیلنج ہے۔پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ افراد ماضی میں بھی پی آئی اے کے مسائل اور خسارے کے حوالے سے نشاندہی کرتے رہے ہیں اور آج بھی کر رہے ہیں،سابقہ حکومتوں نے تو جان بوجھ کر آنکھیں بند کئے رکھی اور پی آئی اے کو سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھایا، اب اس روایت کی حوصلہ شکنی کی اشد ضرورت ہے۔حکومتوں کی غلط سیاسی پالیسیاں ریلوے،سٹیل ملز اور پی آئی اے جیسے بڑے بڑے اداروں کی تباہی کا اصل سبب ہیں۔ اگر کسی نے ایمانداری اور خلوص نیت سے ایسا کرنے کی کوشش کی ہوتی توماضی میں ملک کے جن بڑے اداروں کو نجکاری کی بھینٹ چڑھایا گیا وہ بھی اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکتے تھے۔اب دیکھتے ہیں اس حوالے سے وزیر اعظم عمران خان کیا کرتے ہیں۔ایئر مارشل ارشد ملک کو حال ہی میں چیئرمین پی آئی اے تعینات کیا گیا ہے،وہ پی آئی اے میں خسارے کے سونامی کو روکنے میں کہاں تک کامیاب ہوتے ہیں اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا۔گزشتہ ماہ پاکستان کی قومی ایئر لائن کی انتظامیہ نے دعویٰ کیا ہے کہ طویل عرصے کے بعد قومی ایئرلائن نے مالی خسارے پر قابو پا لیا ہے اور 31مارچ کو ختم ہونے والی سہ ماہی انتظامی اخراجات کی نسبت ریونیو میں معمولی اضافہ ہوا ہے۔پی آئی اے کے چیف ایگزیکٹوکے مشیر ایئر وائس مارشل نور عباس نے بتایا کہ ادارے کے آپریشنل اخراجات اور ریونیوبرابر ہو گئے ہیں۔3اور4ماہ میں ادارہ نفع کمانے کے قابل ہو جائے گا۔پی آئی اے کا ریونیو8سے ساڑے8ارب روپے ماہانہ تک پہنچ گیا ہے۔جوگزشتہ برس اس عرصے میں 7ارب روپے ماہانہ تھا۔ان کا کہنا تھا کہ فضائی بیڑے میں 4طیاروں کا اضافہ، ملازمین کی تعداد میں کمی،ٹکٹ ریزویشن کی لاگت میں کمی،کارگو بزنس میں اضافہ اور نفع بخش روٹ پر پروازوں کی تعداد میں اضافے سے مثبت نتائج حاصل کرنے میں مدد ملی۔ترکی سے جدید سافٹ ویئرحاصل کیے جانے کے بعد صرف ٹکٹ ریزویشن میں ماہانہ ایک ارب روپے کی بچت ہو رہی ہے۔موجودہ حکومت نے برسراقتدار آنے کے بعد پاک فضایہ کے ایک اعلیٰ افسر کو ایئر لائن کے معاملات درست کرنے کی ذمہ داری سونپی جس کے بعد مختلف اقدامات کئے گئے جس کے نتیجے میں پی آئی اے کی آپریشنل آمدن اس کے انتظامی اخراجات سے زائد ہوئی ہے۔اس وقت بھی ایک مکمل آپریشنل کیا جائے۔غیر ضروری عملہ فارغ کیا جائے۔ہر انتظامی عہدے پر بلا صلاحیت افراد تعینات کیے جائیں۔انتظامی اور غیر ضروری اخراجات کم کئے جائیں۔نئے روٹس پر طیارے اڑائے جائیں۔مزید طیارے حاصل کرکے پروازوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے تو پی آئی اے ایک کامیاب اور منافع بخش ایئر لائن بن سکتی ہے۔پاکستان کی مدد سے دنیا کی کامیاب ترین امارات ایئر لائن کا مقام حاصل کرنے والی ایئر لائن بن سکتی ہے تو پی آئی اے کیوں نہیں؟۔صرف ٹکٹ ریزویشن کے لئے سافٹ ویئر کی تبدیلی سے ایک ارب روپے ماہانہ بچ سکتے ہیں تو دیگر شعبوں اور سیکشنوں میں بھی ایسی جگہوں کا سراغ لگا کر ان کو بند کیا جائے جہاں پر اٹھنے والے اخراجات کم یا ختم کیے جا سکتے ہیں۔اسی طرح ایئر لائن میں بدعنوانی یا خورد برد کو بھی روکا جائے منیجمنٹ کو ضرورت کے مطابق مختصر کیا جائے تو قومی ائیر لائن ملک کے لیے باعث فخر بن سکتی ہے۔
