مکافات عمل؟
جنرل ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالا تو ان کے ذہن میں شاید پہلا خیال پاپولر لیڈر شپ سے نجات کا تھا، پاکستان قومی اتحاد کی جماعتیں ان کی دعوت پر کابینہ میں شریک بھی ہو گئیں، ایسے میں ایک مہر بند ایف آئی آر کھلوا کر ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف نواب محمد احمد خان کے قتل میں معاونت کا مقدمہ کھلوا دیا گیا، یہ وقوعہ قائد عوام کے اپنے زمانہ اقتدار میں ہوا، احمد رضا خان قصوری نے ایف آئی آر لکھوائی اور اپنے قائد ذوالفقار علی بھٹو کو مرکزی ملزم قرار دیا، تھانہ سول لائنز میں درج یہ ایف آئی آر سر بمہر کر دی گئی کہ بھٹو صاحب برسر اقتدار اور وزیراعظم تھے۔ اِس دوران اُس وقت کے ایس ایس پی لاہور سردار عبدالوکیل خان(مرحوم) نے ایک ملاقات میں ذوالفقار علی بھٹو کو مشورہ دیا کہ ایف آئی آر کھلوا کر تفتیش کرا لی جائے اس کی روشنی میں مقدمہ خارج ہو جائے گا اس پر بااعتماد بھٹو نے جواب دیا، مَیں نے کیا کِیا ہے،کہ ایسا کرتا پھروں پڑی رہنے دیں، پھر وقت نے ثابت کیا کہ یہی مشورہ درست تھا۔
وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا دور تھا، جب اپوزیشن ان کو تنگ کرنے لگی تھی۔ سرکاری طور پر جن کے خلاف مقدمات بنتے ان کو ضمانت مل جاتی تھی، وکلاء بھی متحرک تھے، ایسے میں خود ذوالفقار علی بھٹو نے سوچا یا کسی نے مشورہ دیا،انہوں نے آرٹیکل199 میں ترمیم کا فیصلہ کر لیا، کچھ صاحب بصیرت حضرات نے مخالفت کی اور کہا کہ اس وقت اس آرٹیکل میں کوئی ابہام نہیں ہے، اِس لئے اسے نہ چھیڑا جائے،لیکن یہ مشورہ نہ مانا گیا اور ترمیم کی گئی، قرار دیا گیا کہ دو سالہ پریکٹس کے بعد ہی کوئی وکیل محترم ہائی کورٹ میں پیش ہو سکے گا اور اسی طرح کسی دوست ملک کا وکیل بھی پاکستان میں دو سالہ پریکٹس کے بعد ہی پیش ہو سکتا ہے،اسی طرح ضمانت قبل از گرفتاری کے حوالے سے بعض وضاحتیں ہوئیں۔
پھر چشم فلک نے دیکھا کہ ایک پاپولر لیڈر کے خلاف جب قتل کا مقدمہ بنا اور ان کو گرفتار کیا گیا تو دُنیا بھر میں تشویش کا اظہار کیا گیا۔ پھر یہ بھی ہوا کہ اس وقت کے چیف جسٹس مولوی مشتاق نے براہِ راست ہائی کورٹ ہی کو ٹرائل کورٹ کا درجہ دیا اور اپنی قیادت میں بنچ بنا کر سماعت شروع کر دی۔ یوں بھٹو کا اپیل کا ایک حق اسی مرحلے پر ختم ہو گیا۔ بہرحال لاہور ہائی کورٹ میں مقدمہ کی سماعت کے دوران برطانیہ کے معروف ترین فوجداری مقدمات کے ماہر وکیل چل کر لاہور آئے اور اپنی خدمات بطور وکیل صفائی پیش کیں،لیکن ان کی راہ میں وہ ترمیم آڑے آ گئی جو خود بھٹو حکومت نے کی وہ دو چار روز کورٹ روم میں آ کر سماعت دیکھتے رہے اور پھر مایوس ہو کر واپس چلے گئے۔
اب مولانا فضل الرحمن نے پھر دہرایا ہے کہ مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کے دونوں ادوار میں مشورہ دیا کہ نیب کا قانون ختم کر دو،لیکن ایسا نہ کیا گیا۔مسلم لیگ(ن) کو پرویز مشرف نے زچ کیا تو پیپلزپارٹی بھی تنگ رہی،شاید اسی لئے انتخابات کے بعد پہلے دور میں پیپلزپارٹی کی طرف سے احتسابی ادارے کی تشکیل ِ نو کے لئے بل پیش کیا گیا جو متعلقہ مجلس قائمہ کو بھجوایا گیا اس پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے درمیان اتفاق رائے کا مسئلہ آن پڑا، فریقین قریباً تمام شقوں پر اتفاق کر چکے تھے،لیکن چیئرمین کے تقرر اور احتساب کب سے شروع ہو،اس پر رضا مندی نہیں ہو رہی تھی۔ یوں پیپلزپارٹی کا دور گذر گیا، اب مسلم لیگ(ن) برسر اقتدار آ گئی، دوبارہ اس بل کا ذکر شروع ہوا، دلچسپ امر یہ ہے کہ مسلم لیگ(ن) کو چیئرمین کی تقرری اور احتساب کے پیریڈ سے جو اختلاف تھا وہ اس کی طرف سے اپنے دورِ اقتدار میں بھی حل نہ ہوا، اور یہ بل جوں کا توں رہا اور احتساب کا ادارہ جنرل(ر) پرویز مشرف کے دور والا ہی رہا اور اب سب کارروائی اسی کے تحت ہو رہی ہے۔
اب مشیر اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کے مطابق وزیراعظم کے ایما پر کابینہ نے پروڈکشن آرڈر کے قواعد میں ترمیم کا فیصلہ کر لیا ہے، وزیراعظم ناراض ہیں کہ ”چور“ ”ڈاکو“ اور ”منی لانڈرنگ“ میں ملوث لوگ ایوان میں آ کر تقریریں کرتے ہیں۔ خبر ہے کہ وہ ان ملزموں کو دی جانے والی سہولتوں پر بھی برہم ہیں اور ان کا موقف ہے کہ یہ لوگ قومی مجرم ہیں ان کو جیلوں میں عام قیدیوں کے ساتھ ہونا اور ویسا ہی سلوک ہونا چاہئے۔ کابینہ میں پروڈکشن آرڈر میں ترمیم کے فیصلے کے اگلے ہی روز آصف علی زرداری کے مجلس قائمہ برائے نشرو اشاعت کے اجلاس میں طلبی کے لئے جاری پروڈکشن آرڈر یہ کہہ کر روک لئے گئے کہ مجلس قائمہ کا اجلاس پارلیمینٹ ہاؤس میں نہیں ہو رہا، چنانچہ وزیراعظم عمران خان کی برہمی کا پہلا اثر ہو گیا اور زرداری نہ آ سکے، ان کو احتساب عدالت میں پیش کر کے نئے مقدمے میں جسمانی ریمانڈ حاصل کر لیا گیا۔
ادھر قمر زمان کائرہ نے مسلم لیگ(ن) کے اراکین اسمبلی کی وزیراعظم سے ملاقات پر دلچسپ تبصرہ کیا، وہ کہتے ہیں، حکمران پیٹریاٹ2بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پیٹریاٹ تو راؤ سکندر اقبال کی قیات میں اُس وقت بنی جب جنرل(ر) پرویز مشرف انتخابی عمل میں مبینہ مداخلت کے بعد بھی مسلم لیگ(ق) کو اکثریت نہ دِلا سکے اور اس کے لئے پیپلزپارٹی کے اندر سے پیٹریاٹ برآمد کر لی گئی۔ راؤ سکندر اقبال سینئر وزیر ہوئے، ظفر اللہ جمالی کو وزیراعظم بنایا گیا ان کی حمایت میں پیٹریاٹ کے باوجود صرف ایک ووٹ کی اکثریت آئی تھی۔ قمر زمان کائرہ کے مطابق اب پیٹریاٹ 2بنانے کی کوشش ہو رہی ہے ان کو یہ بھی بتانا چاہئے کہ پیٹریاٹ ون والے جنہوں نے بے وفائی کی اب کہاں ہیں؟ اور ان میں کتنے حضرات کو پھل ملا، اور اب جو لوگ اس عمل میں شامل ہوں گے بالآخر ان کا کیا حال ہو گا کہ اب محاذ آرائی کی شکل تبدیل ہو چکی، فواد چودھری کہتے ہیں، سب اپوزیشن والے جیل جائیں گے، خود وزیراعظم الزام علیہان کو دیکھنا پسند نہیں کرتے، یہ شدید محاذ آرائی ہے۔ اس میں معیشت کی زبوں حالی نظر نہیں آ رہی، لوگوں کو ٹرک کی بتی کے پیچھے ہی چلانے کی کوشش ہو رہی ہے، ہم نے واقعات بیان کئے خود رائے نہیں دی، نتیجہ متعلقین خود نکالیں۔
