چھوٹی نیکی کو حقیر نہ سمجھو
”اٹھ کر بیٹھیں دادی میں کھانا لے آیا ہوں۔ ہم دونوں کھانا کھائیں۔“احمد نے اپنی بزرگ دادی کو اٹھایا اور اخبار کے ٹکڑے میں لپٹی روٹیاں نکالیں۔دونوں نے مل کر کھانا کھایا۔دادی نے پیار سے احمد کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے دعا دی کہ ”بیٹا ہمت اور حوصلہ رکھو وہ اللہ ہمارے ساتھ ہے وہ سب سے بڑا نگہبان ہے۔
“احمد کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔لیکن خاموشی سے سعادت مندی کا ثبوت دیتے ہوئے نظریں جھکائے رکھیں۔کیونکہ اس کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا ہو گیا ہے؟وہ والدین اس کی زندگی میں کبھی پریشانی نہیں آنے دیتے تھے وہ آج اس کے ساتھ نہیں تھے۔
انتہائی غربت کے باوجود جس والدین نے اپنے بیٹے کو حالات کا مقابلہ کرنا سکھایا اور ہر حال میں خوش اور شکر ادا کرنا سکھایا وہ والدین اچانک حادثے میں موت کا شکار ہو گئے۔
غریبی کے باوجود اپنے بیٹی کی پڑھائی کے اخراجات پورے کرنے کے لئے اسد کے والد ایک ہوٹل پر ملازم تھے اور والدہ سلائی کرتی تھیں۔لیکن اب حالات اتنی تیزی سے بدل گئے کہ اسد کو سکول چھوڑ کر ہوٹل میں ملازم بن کر رہنا پڑا۔ایسی زندگی کے بارے میں سوچا بھی نہیں تھا??????اپنے ہی سوالوں میں الجھا اسد اٹھا اور کھانے کے برتن کچن میں دھوکر رکھ دیئے اور وہ اخبار کا ٹکڑا جس میں روٹیاں لپیٹ کر لایا تھا اسے انتہائی احتیاط سے اٹھایا صاف کیا اور اپنے ساتھ کمرے میں پڑھنے کی غرض سے لے آیا۔
اخبار پڑھنے کے دوران اس کی نظر ایک طرف لکھی ہوئی اقوال زریں پر پڑی۔جس میں لکھا تھاکہ
”اللہ تعالیٰ ستر ماؤں سے بھی زیادہ محبت کرتاہے اپنے بندوں سے“
اسد نے بہت ہی حیرت اور تجسس سے یہ تحریر دوبارہ پڑھی۔کیونکہ اسے دادی کے کہے ہوئے الفاظ بھی سمجھ آگئے۔
اسد نے اپنے خود ہی آنسو صاف کیے کہ اب وہ اپنے ماں باپ کو یاد کرکے روئے گا نہیں کیونکہ ایک ایسی ذات ہے جو اس کو ماں باپ سے بھی زیادہ محبت کرتی ہے بلکہ وہ ایسے کام کرے گا جس سے اس کے ماں باپ کو ثواب پہنچے۔ اْس ایک فقرے کو پڑھنے سے اسد میں خود اعتمادی لوٹ آئی۔
اْس نے اپنے آپ سے وعدہ کیا کہ جس طرح اس کے والدین نے کبھی ہمت نہیں ہاری وہ بھی حالات کا سامنا ڈٹ کے کرے گا۔اسد اٹھا اور اپنا بیگ اٹھا لایا جیسے اس کی کتابیں اب اس کا مقصد ہوں۔یوں اسد نے دن میں ہوٹل میں کام کرنا اور شام کو پڑھنا شروع کر دیا۔
دیکھتے ہی دیکھتے اسد نے حالات کا مقابلہ اتنی ہمت اور جر?ت سے کیا کہ اپنی محنت اور اْس کی وجہ سے ملنے والے وظائف سے ایک ڈاکٹر بن گیا۔آج اسد نے نہ صرف اپنے آپ کو سنبھال لیا بلکہ بہت سے غریب لوگوں کے بچوں کی پڑھائی کے اخراجات بھی اٹھاتا ہے تاکہ کسی بھی بچے کی پڑھائی حالات کی وجہ سے نہ رْکے۔
بچو!اگر آپ کے اردگرد بھی کوئی ایسا بچہ ہے جو غریب پڑھ نہیں سکتا خصوصاً یتیم بچے تو آگے بڑھیں۔آپ کے تھوڑے سے حوصلے اور مدد سے اس کی زندگی سنور جا سکتی ہے۔