دنیا کی تاریخ کا پراسرار ترین معمہ، 83 ارب روپے کی چوری جس نے تفتیش کرنے والوں کو گھما کر رکھ دیا

دنیا کی تاریخ کا پراسرار ترین معمہ، 83 ارب روپے کی چوری جس نے تفتیش کرنے والوں ...
دنیا کی تاریخ کا پراسرار ترین معمہ، 83 ارب روپے کی چوری جس نے تفتیش کرنے والوں کو گھما کر رکھ دیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) آرٹ کے فن پاروں کی چوری کی وارداتیں بھی تاریخ میں اپنا ایک پس منظر رکھتی ہیں اور اکثرفن پاروں کے چور دھر بھی لیے جاتے رہے لیکن تاریخ میں آرٹ کی جو سب سے بڑی چوری کی واردات ہوئی، وہ آج تک ایک پراسرار ترین معمہ بنی ہوئی ہے اور تفتیش کار بھی چکرا کر رہ گئے ہیں کہ چور کون تھے اور قیمتی پینٹنگز وغیرہ چرا کر کہاں لے گئے۔ بلومبرگ کے مطابق یہ وارات امریکی ریاست میساچوسٹس کے شہر بوسٹن میں واقع ازابیلا سٹیورٹ گارڈنر میوزیم میں1990ءمیں ہوئی۔
واردات کی رات رِک اباتھ اور رینڈی ہیسٹینڈ نامی دو سکیورٹی گارڈ میوزیم کی حفاظت پر مامور تھے۔ یہ دونوں 25سال کے نوجوان تھے اور سکیورٹی گارڈ کی نوکری کا ان کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ ان کی شفٹ ساڑھے 11بجے شروع ہوئی تھی۔ رینڈی سکیورٹی ڈیسک پر موجود تھا اور اباتھ میوزیم میں گشت کرنے چلا گیا۔ میوزیم میں سکیورٹی کیمرے موجود نہیں تھے، البتہ انسانی حرکت کی نشاندہی کرنے والے ڈی ٹیکٹر لگے ہوئے تھے جو گشت پر موجود اباتھ کی حرکت کی نشاندہی کر رہے تھے۔ رات 1بجے اباتھ اپنا راﺅنڈ ختم کرکے واپس سکیورٹی ڈیسک پر آیا اور رینڈی اپنی بار پر راﺅنڈ پر چلا گیا۔ ابھی 1بج کر 25منٹ ہوئے تھے کہ دو پولیس آفیسرز سکیورٹی ڈیسک پر آ گئے اور اندر آنے کی اجازت مانگی۔ اباتھ نے انہیں اندر آنے دیا۔ آفیسرز نے اباتھ سے کہا کہ انہیں میوزیم میں کچھ گڑبڑ کی اطلاع ملی ہے اور انہیں سکیورٹی گارڈز سے کچھ سوالات پوچھنے ہیں۔ چنانچہ یہاں جتنے سکیورٹی گارڈ ہیں انہیں یہاں بلاﺅ۔
یہ سن کر وائرلیس پر اباتھ نے رینڈی کو واپس بلا لیا۔ جب رینڈی واپس آ گیا تو آفیسرز نے بات گھما دی اور کہا کہ وہ دراصل اباتھ کو گرفتار کرنے آئے ہیں اوران کے پاس اس کے گرفتاری وارنٹ ہیں۔ یہ کہہ کر انہوں نے اباتھ کو ہتھکڑی لگا دی۔ اباتھ کو قابو کرنے کے بعد انہوں نے رینڈی کو بھی پکڑا اور اس کو بھی ہتھکڑی لگا دی۔ تب اباتھ کی سمجھ میں بات آئی اور اس نے رینڈی سے کہا کہ ”مجھے یہ ڈکیتی کا معاملہ لگتا ہے، یہ اصلی پولیس والے نہیں ہیں۔“ مگر تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ دونوں جعلی پولیس آفیسرز نے اباتھ اور رینڈی کے ہاتھ پاﺅں اچھی طرح باندھے او رپھر ڈکٹ ٹیپ ان کے پورے سر اور چہرے پر لپیٹ دی، جس سے ان کی آنکھیں، کان، منہ سب کچھ بند ہو گیا۔ آفیسرز نے ان کے چہرے پر صرف ناک کا حصہ خالی چھوڑا تاکہ وہ سانس لیتے رہیں۔
دونوں سکیورٹی گارڈز کو ٹھکانے لگانے کے بعد چور میوزیم کے چوتھے فلور پر گئے جہاں ایک کمرے میں سب سے مہنگی پینٹنگز رکھی ہوئی تھی جو انتہائی نایاب تھیں۔ آج ان پینٹنگز کی مالیت 50کروڑ ڈالر (تقریباً 83ارب 79کروڑ روپے)بنتی ہے۔ چور یہ پینٹنگز اور دیگر نایاب چیزیں اٹھا کر چلتے بنے۔ اتنی بڑی مالیت کی آرٹ کی چوری تاریخ میں اس سے پہلے کبھی ہوئی تھی، نہ بعد میں اب تک ہوئی ہے۔ میوزیم کی طرف سے ان چوروں کے متعلق کسی طرح کی اطلاع دینے والے شخص کے لیے 1کروڑ ڈالر (تقریباً1ارب 67کروڑ روپے)انعام کا اعلان کر رکھا ہے۔ جس طرح یہ چوری آرٹ کی تاریخ کی سب سے بڑی واردات ہے اسی طرح اس کو پکڑوانے والے کے لیے رکھا گیایہ انعام بھی تاریخ میں سب سے زیادہ ہے۔ اب تک ایف بی آئی کے بے شمار ایجنٹس، پرائیویٹ کھوجی اور تفتیش کار، آرٹ ڈیلرز اور دیگر لوگ اس چوری کا سراغ لگانے کے جتن کر چکے ہیں لیکن ہر ایک کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ اب تھک ہار کر میوزیم کی طرف سے یہ اعلان بھی کر دیا گیا ہے کہ اگر چور رضاکارانہ طور پر چوری کا اعتراف کر لے اور سامنے آ جائے تو اس کے خلاف مقدمہ درج نہیں کروایا جائے گا، تاہم انہیں پینٹنگز واپس کرنی ہوں گی۔ اگر یہ پینٹنگز چوروں سے آگے کسی فرد یا افراد کے پاس پہنچ چکی ہیں تو یہ پیشکش ان کے لیے بھی ہے۔تاہم میوزیم کی طرف سے اس اعلان کے بعد بھی کوئی سامنے نہیں آیا۔

مزید :

ڈیلی بائیٹس -