ای او بی آئی کے پنشنروں کی فریاد اور اراکین اسمبلی کا استحقاق؟
میرے اردگرد، میرے محلے، میرے شہر اور میرے ملک میں اتنے مسائل ہیں کہ قلم اٹھاتے وقت سوچنا پڑتا ہے، آج کس کو موضوع تحریر ہونا چاہیے۔ آج بھی کیفیت یہ ہے ”بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی، جیسی اب ہے، تیری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی“ جی ہاں، یقین مانیئے کچھ ایسی ہی کیفیت ہے کہ ”کرے مونچھوں والا اور پکڑا جائے داڑھی والا“ مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ ظل الٰہی کس بات پر خوش اور کس پر ناراض ہوتے ہیں۔ میرا خیال تھا کہ آج کرکٹ کے حوالے سے کچھ خیالات کا اظہار کروں اور اسی حوالے سے اپنے محترم سکپر عبدالحفیظ کاردار کو بھی یاد کر لوں جن کی پوری زندگی اصولوں پر گزری اور انہوں نے کسی قیمت پر سمجھوتہ بھی نہیں کیا تھا، لیکن کیا کروں اس دوران میرے بزرگ بھائی، قارئین مجبور کر رہے ہیں کہ پہلے ان کی بات کر لوں، ایک بابے نے صبح ہی صبح فون کیا اور کہا تم سو رہے ہو، تمہیں یہ بھی علم نہیں کہ تم جیسے بوڑھوں پر کیا گزر رہی ہے، میں نے معذرت کی اور عرض کیا، سمجھا نہیں، آپ کیا کہنا چاہتے ہیں“ وہ بولے، پنجابی کی ایک ضرب المثل ہے جو بعینہ بتا نہیں پاؤں گا کہ تم لکھ نہیں سکو گے، اسے غیر اخلاقی قرار دے دو گے، بہرحال اس ضرب المثل کا مفہوم یہ ہے کہ اگر آپ کو سر میں شدید درد ہو اور سنبھلا بھی نہ جا رہا ہو تو آپ کے جسم پر کسی دوسرے حصے میں زور دار چوٹ لگا دی جائے تو آپ سر کی درد کو بھول جائیں گے، میں نے عاجزی سے عرض کیا، آپ مطلب کی بات کریں تو انہوں نے کہا، تم نے ای او بی آئی کے پنشنر بابوں کے بارے میں دو دفعہ لکھا اور حقائق بتا کر ان کی پنشن مزدور کی کم از کم تنخواہ کے برابر متعین کرنے کی قانونی ضرورت پورا کرنے کو کہا، لیکن یہاں تو کچھ اور ہی ہوگیا، آج 3جولائی ہے، الفلاح بنک کی طرف سے پنشن جاری ہو کر ای او بی آئی کارڈ میں جمع ہونے کی اطلاع کیا ملتی، بینک کے اے ٹی ایم سے رجوع کرنے پر معلوم ہوا کہ ابھی تک یہ معمولی ساڑھے آٹھ ہزار روپے بھی نہیں آئے اور بوڑھے مایوس ہو رہے ہیں،کیا یہ سر کا درد بھلانے والی بات نہیں کہ تم اضافے کو روتے ہو، یہاں اصل کی فکر کرو کہ یہ بھی ان ”مفت خوروں“ کی منشاء ہے کہ وہ آپ کی پنشن آپ کے اکاؤنٹ میں بھیجیں یا نہ بھیجیں، خود تو وہ آپ (بابوں) کی ذاتی کمائی سے لاکھوں کے حساب سے تنخواہ اور مراعات لیتے رہیں گے، میں نے عاجزانہ معذرت کی اور وعدہ کیا کہ اب ابتدا ہی اس مسئلہ سے کروں گا۔ وفاقی حکومت کو توجہ کرنا چاہیے کہ ان بوڑھوں کا یہ قانونی حق ہے کہ وہ اپنی پنشن مزدور کی کم از کم متعین اجرت کے مطابق کریں اور یہ اب 20ہزار روپے ماہانہ ہے، ان بوڑھوں کو 2015ء سے اب تک کے بقایا جات سمیت پوری پنشن ملنا چاہیے، چہ جائیکہ ان کی موجودہ شرح والی پنشن بھی جمع نہ کرائی جائے۔ یہ پنشن پرانے مالی سال کے اختتامی مہینے جون کی ہے، میں تو وزیراعظم سے گزارش کروں گا کہ وہ خود اس میں دلچسپی لے کر بوڑھوں کا مسئلہ حل کرائیں کہ وہ خود بھی تو اب ساٹھ کا ہندسہ عبور کر چکے ہیں۔
میں اپنے مہربان فون کرنے والے بابے سے عرض کروں گا کہ اگر وہ اس تحریر سے مطمئن ہیں تو میری یہ کاوش قبول فرما لیں، ویسے اب تو میں بھی کچھ کچھ مایوس ہونے لگا ہوں، اب یہی ملاحظہ فرمائیں کہ ملک میں سیاسی محاذ آرائی ذاتی دشمنی کی حد تک پہنچ چکی۔ سیاسی عدم استحکام کی انتہا ہے، لیکن ان منتخب اراکین کو اپنی کس قدر فکر ہے اور ان کو خبروں سے کتنی تکلیف پہنچتی ہے کہ وہ سب قومی مسائل پر تو اتفاق رائے سے گریز کرتے ہیں، لیکن جب ان کی اپنی ذات کا مسئلہ ہوتا ہے تو وہ سب محمود و ایاز کی طرح ایک ہی صف میں کھڑے ہو جاتے ہیں، اس کا اندازہ پنجاب اسمبلی سے اراکین کے استحقاق والے ترمیمی بل سے لگایا جا سکتا ہے، جو ”پرائیویٹ ممبرز ڈے“ کے روز پیش ہوا، اسی وقت مجلس قائمہ کو بھیج دیا گیا۔ ایک ہفتے کے اندر مجلس قائمہ کی رپورٹ بھی آ گئی۔ بل ایوان میں پیش ہوا اور پھر متفقہ طور پر اسی طرح منظور ہو گیا، جیسے اسی ایوان سے توہین صحابہؓ والا قانون منظور ہوا، اس پر اب تک عمل بھی نہیں ہو پایا۔
عرض کروں کہ مجھے پارلیمانی رپورٹنگ کا کم از کم بھی 30سال کا تجربہ ہے۔ اس عرصہ میں بھی میں نے اراکین کواپنے استحقاق کے بارے میں اتنا حساس نہیں پایا کہ وہ ایوان میں ایک ایسا قانون متفقہ طور پر منظور کر لیں جو صریحاً آئین کے آرٹیکل 91اور 91 اے سے متصادم ہو، اور اگر اسے عدالت میں چیلنج کیا جائے تو یہ ٹھہر نہ سکے گا۔ اس قانون کی آڑ میں استحقاق کے نام پر صحافیوں سے نہ صرف ان کا خبر کی اشاعت و تشہیر کا حق چھینا گیا، بلکہ ان کے لئے سزا بھی تجویز کر دی گئی اور اس کے لئے اختیار بھی استحقاق کمیٹی کو دیا گیا۔ خود ہی مدعی، خود ہی منصف اور جج ہوں گے، یہ دنیا کے کس آئین اور قانون کی کتاب میں لکھا ہوا ہے اور ہمارے اپنے ملک کا آئین تو اظہار خیال اور تحریر کی مکمل آزادی دیتا ہے، جہاں جہاں تفکر اور احتیاط کی ضرورت ہے اس کے لئے بھی اسی آئین میں بتا دیا گیا ہے، اس کے علاوہ یہی آئین اجتماع کی بھی تو اجازت دیتا ہے اور اسی حق کے تحت میڈیا ورکروں نے یہ حق استعمال بھی کیا ہے۔ ایک امر یہ بھی ماورا ء عقل ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی والوں نے کیسے اتفاق کیا کہ دونوں جماعتیں ایسی ہی قدغنوں کے خلاف سراپا احتجاج ہیں، ان کو تو خیال کرنا چاہیے تھا کہ صحافی تو خبر روک کر بھی ان کے استحقاق سے بچ جائیں گے، لیکن عظمیٰ بخاری کیسے محفوظ ہوں گی۔ ان کو تو سب سے پہلے یہ کمیٹی سزا سنائے گی کہ انہوں نے تو وزیراعلیٰ کا بھی لحاظ نہیں کیا، اب وزیراعلیٰ نے ان کو ذاتی توہین کا نوٹس دیا ہوا ہے، جس کا مقابلہ کرنے کا وہ اعلان کرتی ہیں، ان کو باور کرا دوں، اب تو وزیراعلیٰ اپنا استحقاق مجروح کرنے کا الزام بھی لگا سکیں گے اور تین سال کے اندر پوری نہیں تو پندرہ روز کی سزا کی حقدار تو پا ہی جائیں گی۔
اس سلسلے میں کارکنوں اور مالکان کے علاوہ ایڈیٹر حضرات اور براڈ کاسٹروں کی طرف سے بھی اپنا حق استعمال کیا گیا اور احتجاج کرتے ہوئے اس قانون کو مسترد کرکے واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا ہے، میں یاد دلاؤں کہ جنرل ایوب خان نے بھی 1963ء میں پریس اینڈ پبلکیشنز آرڈی ننس 1963ء نافذ کرکے پریس کی آزادی غصب کی اور بہت سی قدغنیں لگائی تھیں۔ پی ایف یو جے نے اس کے خلاف طویل جدوجہد کی۔ میں نے بھی بے روزگاری اور پولیس تشددکا مزہ چکھا تھا۔ طویل سہی،مگر جدوجہد رنگ لائی۔ یہ قانون منسوخ ہوا اور 1973ء میں پیپلزپارٹی کے دور میں نیوز پیپرز ورکرز ایکٹ نافذ ہوا جو اب تک موجود ہے۔ اس لئے جو آواز بلند کر رہے ہیں، ان کے لئے عرض کہ ”موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں“ اگر تم متحد نہیں تو ایسا ہوتا رہے گا۔