بجلی کے نرخوں میں اضافہ
نیپرا نے کمرشل اور زرعی صارفین کے لئے بجلی دو روپے ستانوے پیسے مہنگی کرنے کی منظوری دے دی ہے،گھریلو صارفین کے لئے قیمت8پیسے فی یونٹ اور کمرشل صارفین کے لئے11پیسے فی یونٹ بڑھائی جائے گی۔ اِن نرخوں کا اطلاق یکم اکتوبر2021ء سے ہو گا۔ لائف لائن اور 300 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے گھریلو صارفین نئے نرخوں سے مستثنیٰ ہوں گے۔ بجلی کی قیمتوں میں یہ اضافہ مختلف سہ ماہی ایڈجسٹ منٹس کی مد میں کیا جا رہا ہے۔2019-20ء کی چوتھی سہ ماہی کی مد میں بجلی82 پیسے،2020-21ء کی پہلی اور دوسری سہ ماہی ایڈجسٹ منٹس کی مد میں 90 پیسے مہنگی کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، بجلی صارفین سے یہ اضافی وصولیاں ایک سال کے لئے کی جائیں گی۔کمرشل اور زرعی صارفین پر1.25 روپے سرچارج عائد کیا گیا ہے۔
نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی(نیپرا) کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ تین سال میں بجلی کے نرخوں میں 21مرتبہ اضافہ کیا گیا اور عالمی منڈی میں فرنس آئل کی قیمتوں میں اضافے کو جواز بنا کر مجموعی طور پر21 روپے55پیسے فی یونٹ اضافہ کیا گیا،موجودہ حکومت کے پہلے سال، یعنی 2018ء میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے تحت چار بار ردوبدل کیا گیا،جس میں تین بار اضافے سے ایک روپیہ22پیسے فی یونٹ کا بوجھ عوام پر ڈالا گیا،جبکہ ایک بار کمی سے32 پیسے فی یونٹ کا ریلیف عوام کو دیا گیا۔ستمبر میں 19پیسے فی یونٹ اضافہ، اکتوبر میں 47 پیسے فی یونٹ اضافہ، نومبر میں 32 پیسے فی یونٹ کمی اور دسمبر میں 36پیسے فی یونٹ اضافہ کیا گیا۔2019ء میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ(ایف پی اے) کے نرخوں میں بارہ بار ردوبدل کیا گیا، جس میں صرف ایک بار 13پیسے فی یونٹ کمی اور گیارہ بار اضافے سے12روپے93 پیسے فی یونٹ بڑھائے گئے، جنوری میں ایک روپیہ80پیسے فی یونٹ اضافہ، فروری میں 80پیسے فی یونٹ اضافہ، مارچ میں 3پیسے فی یونٹ اضافہ،اپریل میں 56پیسے فی یونٹ اضافہ،مئی میں 9پیسے فی یونٹ اضافہ، جون میں 13پیسے فی یونٹ اضافہ،جولائی میں ایک روپیہ77پیسے فی یونٹ اضافہ، اگست میں ایک روپے 66پیسے فی یونٹ اضافہ،ستمبر میں ایک روپے82پیسے فی یونٹ اضافہ،اکتوبر میں ایک روپے 56پیسے فی یونٹ اضافہ،نومبر میں 98پیسے فی یونٹ اضافہ، اور دسمبر میں ایک روپیہ 87پیسے فی یونٹ اضافہ کیا گیا۔ سال2020ء میں 12 بار بجلی کے نرخوں میں ردوبدل ہوا، 7روپے41پیسے فی یونٹ کا بوجھ عوام پر ڈالا گیا اور تین بار نرخوں میں 3روپے فی یونٹ کمی کی گئی۔
وزیر خزانہ شوکت ترین عہدہ سنبھالنے سے پہلے اور بعد میں کہتے رہے کہ بجلی کے نرخوں میں اضافے کی وجہ سے معیشت کی ترقی رک جاتی ہے،اِس لئے وہ بجلی کی قیمتیں بڑھانے کے حق میں نہیں۔اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ آئی ایم ایف قیمتیں بڑھانے کے لئے دباؤ ڈال رہا ہے،لیکن ہم یہ شرط ماننے کے لئے تیار نہیں۔انہوں نے اپنا یہ دعویٰ اور وعدہ کئی بار دہرایا جس سے عوام الناس یہ سمجھنے میں حق بجانب تھے کہ وہ اپنی کہی ہوئی باتوں کا پاس کریں گے،لیکن مالی سال شروع ہونے کے دوسرے ہی روز بجلی کی قیمتیں بڑھانے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔اگرچہ وہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ”ایڈجسٹ منٹس“ ہیں اضافہ نہیں ہے، لیکن اسے نام کوئی بھی دے لیں سادہ لفظوں میں یہ رقم عوام کی جیبوں ہی سے نکلے گی چاہے یہ معمولی رقم ہو یا زیادہ، کہا گیا ہے کہ گھریلو صارفین پر صرف آٹھ پیسے فی یونٹ کا بوجھ پڑے گا،لیکن اس وقت بجلی کے نرخ پہلے ہی اس سطح پر پہنچ چکے ہیں کہ کم آمدنی والوں کا تو ذکر ہی کیا، اچھے خاصے معقول آمدنی والے بھی اس کے منفی اثرات محسوس کر رہے ہیں، اِس لئے اضافہ جتنا بھی ہو مہنگائی کا باعث بنے گا،ویسے بھی بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا اختیار صدرِ مملکت نے ایک آرڈیننس کے ذریعے متعلقہ وزارت کو دے دیا ہے،اِس لئے اب بجٹ میں بجلی میں اضافے کا ذکر ہو یا نہ ہو، متعلقہ وزارت جب چاہے بجلی کے نرخ بڑھانے میں آزاد ہے۔ فنی وجوہ کی بنا پر قیمتوں میں ردوبدل کو اگرچہ ”فیول ایڈجسٹمنٹ“ کے کھاتے میں رکھا جاتا ہے،لیکن یہ بھی عوام پر بوجھ ڈالنے ہی کی ایک شکل ہے،حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ کسانوں کی بہبود کے لئے بہت سے اقدامات کر رہی ہے، انہیں قرضوں کی سہولت کے لئے کسان کارڈ بھی دیئے جا رہے ہیں اور یہ امیدیں بھی رکھی جا رہی ہے کہ ان اقدامات سے کسان خوشحال ہو گا،لیکن زرعی مقاصد کے لئے استعمال ہونے والی بجلی بھی اگر مہنگی ہوتی رہے گی تو قرضے وغیرہ جیسے مثبت اقدامات سے بھی کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو گا۔اِس وقت کھاد، بیج اور دوسرے زرعی مداخل بہت گراں نرخوں پر کسان کو خریدنے پڑتے ہیں، عموماً کسان یہ اشیا ادھار خریدتا ہے اور جب فصل برداشت کرنے کا موسم آتا ہے تو ادائیگی کی جاتی ہے اگر کسان کو اس کی فصل کی قیمت مناسب نہ ملے تو ساری پیداوار سے حاصل ہونے والی آمدنی قرضوں کی ادائیگی میں اٹھ جاتی ہے ایسے میں اگر بجلی مزید مہنگی ہو گی تو کسان کیا کمائے گا اور کیا کھائے گا؟
بھارتی پنجاب میں کسانوں کو غیر معمولی سہولتیں دینے ہی کا نتیجہ ہے کہ پاکستان کی نسبت ایک تہائی پنجاب ملک کے بڑے حصے کی غذائی ضروریات پوری کرتا ہے وہاں اجناس کی پیداوار پاکستان کی نسبت بہت زیادہ ہے،کسانوں کو بجلی سستے داموں پر دستیاب ہے، جس کی وجہ سے پانی ٹیوب ویلوں کے ذریعے وافر مقدار میں کھیتوں کو لگایا جاتا ہے اسی پانی کی وجہ سے دھان کی دو فصلیں پیدا ہوتی ہیں۔اگیتی فصل موٹے چاول کی ہوتی ہے جو دو ماہ میں تیار ہو جاتی ہے،اس فصل کو کاٹنے کے بعد انہی کھیتوں میں باسمتی چاول کاشت کیا جاتا ہے اس کے برعکس پاکستان میں چاول کی ایک فصل ہوتی ہے، جس کے لئے ٹیوب ویل کا پانی بہت مہنگا پڑتا ہے،اِس لئے دھان کی فصل کی پیداواری لاگت بہت بڑھ جاتی ہے،حکومت اگر کسانوں کو سستی بجلی مہیا کرے اور پانی وافر دستیاب ہو تو دھان کی فصل کی پیداوار بڑھ سکتی ہے۔دھان کی کاشت کے بعد کئی ہفتوں تک اگر کھیت میں پانی کھڑا رکھا جائے تو جڑی بوٹیاں نہیں اُگتیں اور فصل تیزی سے پھلتی پھولتی ہے، لیکن جو کسان مہنگا پانی خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے وہ فصل میں اُگنے والی جڑی بوٹیاں ختم کرنے کے لئے دوسرے ذرائع اختیار کرتے ہیں اگر ایسا نہ کیا جائے تو فصل کی پیداوار متاثر ہوتی ہے۔پاکستان میں چاول کا ہائی برڈ بیج بھی مہنگے داموں فروخت ہوتا ہے،کسانوں کو اگر پانی، کھاد، بیج اور دوسرے زرعی مداخل مناسب نرخوں پر دستیاب ہوں تو پیداواری لاگت کم ہو گی اور اگر کسان کو فصل کی مناسب قیمت ملے گی تو حکومت کو گندم، چینی اور کپاس وغیرہ درآمد نہیں کرنا پڑے گی جیسا کہ کئی سال تک ہم گندم اور چینی میں اس حد تک خود کفیل رہے کہ دونوں اجناس برآمد کی جاتی تھیں۔ گیارہ لاکھ ٹن چینی تو موجودہ حکومت نے بھی برآمد کی تھی،لیکن شاید اندازہ غلط نکلا کہ برآمد کنندگان تو اربوں کی سبسڈی لے گئے،لیکن اندرونِ ملک چینی ایک سو روپے سے نیچے آنے کا نام نہیں لے رہی۔بجلی کے نرخوں میں تازہ ایڈجسٹمنٹ زرعی اجناس کی پیداواری لاگت میں اضافے کا باعث بنے گی تو مہنگی کمرشل بجلی کی وجہ سے مہنگائی کا طوفان آئے گا،کیونکہ تاجر کے بجلی بلوں کے اخراجات بھی بالآخر گاہکوں کی جیب ہی سے نکلیں گے اور بالواسطہ طور پر عام آدمی ہی متاثر ہو گا۔