عنان حکومت کمپنی کے ہاتھوں سے نکل کر تاج برطانیہ کے ہاتھوں میں آئی تو بورڈ آف کنٹرول کی جگہ ایک کونسل مقرر ہوئی
مصنف : ای مارسڈن
ان میں پہلی تو یہ ہے کہ ہندوستان انگلستان سے ایک بالکل مختلف ملک ہے اور انگریز ہندوستانیوں سے ہر بات میں اختلاف رکھتے ہیں۔ ان کی تاریخ مختلف ہے۔ ان کی عادتیں، طریقے، رسم و رواج اور قوانین بھی کسی طرح پر ایک نہیں کہے جا سکتے۔ زبان، مذہب، خوراک اور پوشاک کا تو کہنا ہی کیا ہے؟ تمام انگریز ایک ہی زبان بولتے ہیں۔ مذہب سے وہ سب کے سب عیسائی ہیں ان سب کی ایک ہی ذات ہے بلکہ اگر یہ کہو تو اور بھی صحیح ہو گا کہ انگلستان میں کوئی ذات پات ہے ہی نہیں اس لیے یہ ممکن ہے کہ جو بات انگلستان کےلئے اچھی ہو وہ ہندوستان کےلئے اچھی نہ ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ حکومت کا جو طریق یا ڈھنگ انگریزوں کےلئے موزوں ہے وہ ہندوستانیوں کےلئے ویسا مناسب نہ ہو۔
دوسری بات یہ تھی کہ ہندوستان کے مختلف ممالک کے باشندے بہت سی باتوں میں ایک دوسرے سے بہت کچھ اختلاف رکھتے ہیں۔ مثلاً ان کی شکل و صورت، زبان، ذاتیں، نسل، مذہب، عادتیں اور رسم و رواج سب نہایت مختلف ہیں۔ آریہ نسل کے سکھ، مدراسی، ڈراوڑی سے بالکل بھی مشابہ نہیں۔ پنجابی مسلمان، بنگالی ہندو سے اور بلوچی برہما یا آسام کے باشندے سے بالکل مختلف ہیں۔ صوبہ سرحد شمالی و مغربی کا پٹھان ملایا کے ہندو نائر سے ذرا بھی نہیں ملتا۔ اس لیے ہندوستان میں ایک ملک یا ایک قوم کے لوگوں کےلئے جو چیز موزوں یا مفید ہو سکتی ہے وہ دوسرے کےلئے بالکل غیر موزوں اور غیر مفید ہونی ممکن ہے۔
یہ تمام باتیں اس امر کےلئے نہایت مناسب وجوہات ہیں کہ ہندوستان کی گورنمنٹ عالیہ کو اصلاح کرنے یعنی حکومت ہند کے متعلق نئے قواعد بنانے اور نئے طریقے اختیار کرنے میں نہایت احتیاط اور سہولت سے کام لینا پڑتا ہے۔ ان اصلاحوں کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ تمام انسانوں کےلئے زندگی بسر کرنا آسان اور سہل ہو جائے۔ یہ مطلب نہیں کہ کسی ایک جماعت کے ساتھ رعایت ہو یا ایک فرقہ کسی دوسری ذات پر جورو تشدد کرنے کے قابل ہو جائے۔
جب عنان حکومت کمپنی کے ہاتھوں سے نکل کر تاج برطانیہ کے ہاتھوں میں آئی تو بورڈ آف کنٹرول کی جگہ ایک کونسل مقرر ہوئی جس کا نام ”انڈیا کونسل“ ہوا۔ اور اس کا پریذیڈنٹ ”سیکرٹری آف سٹیٹ فور انڈیا“ یعنی وزیر ہند کہلایا، جس کو تاجِ برطانیہ کی طرف سے مقرر کیا جاتا ہے۔ پہلے اس کونسل کے تمام ممبر انگریز ہوا کرتے تھے مگر اب اس میں 2 ممبر ہندوستانی بھی ہیں۔ ان میں سے ایک ہندو ہے اور دوسرا مسلمان، باقی تمام انگریز ہیں جو پہلے ہندوستان میں اعلیٰ عہدوں پر ممتاز رہ چکے ہیں۔
1857ءمیں تینوں پریذیڈنسی شہروں کلکتہ، مدراس اور بمبئی میں یورنیورسٹیاں قائم کی گئیں۔ اس کے بعد دیگر 3 صوبہ جات کے صدر مقامات الہ آباد، لاہور اورپٹنہ میں بھی یونیورسٹیاں جاری ہوئیں۔ اس کے بعد اور یونیورسٹیاں لکھنؤ، علی گڑھ، ڈھاکہ، بنارس، ناگپور اور آندھرا واقع احاطہ مدراس میں جاری ہوئیں۔ ان سے تعلیم اور انگریزی کی اشاعت میں بہت مدد ملی کیونکہ ہزاروں طلباءان یونیورسٹیوں اور ان کے ساتھ ملحق کالجوں میں تعلیم پانے کےلئے جمع ہوتے ہیں۔ یہ کالج ان لڑکوں کو سالانہ امتحانات کےلئے تیار کرنے کی غرض سے قائم کیے گئے ہیں۔ تعلیم میں جو اصلاح ہوئی ہے وہ بتدریج عمل میں آئی ہے جب یہ دیکھا گیا کہ پہلی یونیورسٹیاں نہایت کامیاب ثابت ہوئیں تو پھر دوسری نہایت سہولت اور احتیاط کے ساتھ یکے بعد دیگرے کھولی گئیں۔ ابتدائی اور دوسرے درجے کے (سیکنڈری) سکول کھولنے میں بھی پالیسی مدنظر رکھی گئی۔ تمام اعلیٰ (ہائی) درمیانی یا دوسرے درجے کے (مڈل) اور ابتدائی (پرائمری) سکول ایک دم ہی نہیں کھولے گئے بلکہ رفتہ رفتہ، جب یہ صاف طور پر معلوم ہو گیا کہ لوگ انہیں پسند کرتے ہیں اور قدر کی نظروں سے دیکھتے ہیں اور انہیں تعلیم دینے کےلئے قابل استاد تیار ہو گئے ہیں۔
بغاوت فرو کرنے، امن و امان قائم رکھنے اور ملک کی گورنمنٹ میں ترقی پیدا کرنے کے متعلق لارڈ کیننگ کو جو سخت محنت اور جانفشانی کرنی پڑی اس سے وہ تھک گئے اور اپنے وطن انگلستان پہنچنے کے 1 سال بعد 50 سال کی عمر میں ہی 1862ءمیں اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ آپ کی اہلیہ اس سے کچھ عرصہ پہلے بنگال میں ہی بخار کی نذر ہو چکی تھیں۔(جاری ہے )
نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )۔