بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات
بلوچستان میں دہشت گردوں کی فائرنگ کے دو مختلف واقعات میں ایک سینئر افسر سمیت سیکیورٹی فورسز کے چھ اہلکار شہید ہو گئے ہیں۔ سیکیورٹی اہلکاروں کی جوابی فائرنگ سے ایک دہشت گرد ہلاک جبکہ دو زخمی ہو گئے۔ خبروں کے مطابق بلوچستان کے علاقے بلور میں سرچ آپریشن کے دوران دہشت گردوں نے گھات لگا کر سیکیورٹی اہلکاروں پر فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں میجر ثاقب حسین، نائیک باقر علی شہید جبکہ ایک جوان زخمی ہو گیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق حملہ آوروں کی گرفتاری کے لئے سرچ آپریشن جاری ہے۔دوسرے واقعے میں ضلع شیرانی میں ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب دہشت گردوں نے دھانہ سر میں پولیس سٹیشن اور ملحقہ فرنٹیئر کانسٹیبلری (ایف سی) کی چیک پوسٹ پر اُس وقت حملہ کیا جب اہلکار تھانے کی چھت پر سو رہے تھے، سیکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں میں دو گھنٹے فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس کے نتیجے میں ایک دہشت گرد ہلاک جبکہ دو زخمی ہو گئے تاہم دہشت گردزخمیوں کو ساتھ لے جانے میں کامیاب ہو گئے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دھانہ سر اور دیگر علاقوں کی ناکہ بندی کرکے تلاشی کا عمل شروع کر دیا ہے۔ ڈپٹی کمشنر شیرانی کے مطابق زخمی ایف سی اہلکاروں کی حالت خطرے سے باہر ہے۔ شہید پولیس اہلکاروں کی شناخت سب انسپکٹر بہادر خان،سپاہی محمد افضل، سپاہی باز خان جبکہ ایف سی اہلکار کی سعید کے نام سے ہوئی ہے۔ دہشت گردی کے اِس واقعے کے خلاف شیرانی میں شہریوں نے شدید احتجاج کیا، قومی شاہراہ بند کر دی جس کی وجہ سے زخمیوں کو ہسپتال پہنچانے میں بھی تاخیر ہوئی۔وزیراعظم شہبازشریف اور وزیرخارجہ بلاول بھٹو نے دہشت گردی کے تازہ واقعات کی شدید مذمت کرتے حوئے اِس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان کو دہشت گردی کے ناسور سے جلد پاک کر دیا جائے گا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس نے بھی دہشت گردی کے واقعات کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ سیکیورٹی فورسز کی قربانیاں ہمارے لئے مشعلِ راہ ہیں۔ دوسری جانب فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے بیان کے مطابق مارے جانے والے دہشت گرد سیکیورٹی فورسزکے علاوہ شہریوں کے خلاف دہشت گردی کی متعدد وارداتوں میں بھی ملوث تھے، اُنہوں نے 11اپریل 2022ء کو کلاچی میں پولیس پر حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں پانچ اہلکار شہید ہو گئے تھے۔ ہمسایہ برادر ملک ایران نے بلوچستان میں سیکیورٹی فورسز پر حملوں کی شدید مذمت کی ہے۔ ترجمان ایرانی سفارت خانے کی سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر کہا گیا ہے کہ دہشت گردی خطے کا مشترکہ درد ہے۔ ایک اور واقعے میں خیبرپختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے کلاچی میں خفیہ اطلاع پر آپریشن کے نتیجے میں سیکیورٹی فورسز نے تین دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا جبکہ محکمہ انسداد دہشت گردی نے پنجاب میں انٹیلی جنس پر مبنی آپریشن کرتے ہوئے ملتان میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے اہم کمانڈر کو گرفتارکر لیا ہے۔
شدید معاشی اور سیاسی مشکلات کا شکار پاکستان ایک عرصے سے دہشت گردی کے خلاف حالتِ جنگ میں ہے۔ دہشت گردوں کو جب بھی موقع ملتا ہے وہ سیکیورٹی اداروں اور عوام کو نقصان پہنچانے سے نہیں چوکتے ،ہماری بہادر افواج اور سیکیورٹی ادارے لگ بھگ دو دہائیوں سے اِس ناسور کے خاتمے کے لئے کوشاں ہیں۔ پاکستانیوں کی پُرامن زندگی کے لئے ہمارے جوان اپنی جانوں کی قربانیاں دے رہے ہیں جس پر پوری قوم کو فخر ہے۔دہشت گرد ماضی کے مقابلے میں زیادہ جدید اسلحے اور وسائل سے لیس ہیں، اِنہیں دی جانے والی غیر ملکی فنڈنگ ڈھکی چھپی بات نہیں، بلوچستان سے گرفتار ہونے والے بھارتی جاسوس کلبھوشن نے اعتراف کیا تھا کہ وہ ایک عرصے تک بلوچستان میں دہشت گردوں اور پاکستان دشمن قوتوں کو مالی امداد فراہم کرتا رہا۔ پنجاب ہو یا سندھ، خیبرپختونخوا ہو یا بلوچستان، سب ہی پاکستان کی اکائیاں ہیں تاہم معدنی وسائل سے مالامال بلوچستان اپنے قدرتی وسائل اور اپنی جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر ملک دشمن قوتوں کا ٹارگٹ ہے۔ ِرکوڈِک کی کھربوں کی معدنیات کے علاوہ صوبے میں گوادر کی ترقی غیر ملکی قوتوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتی،ایسی طاقتیں علاقے کے نوجوانوں کی منفی ذہن سازی کرنے کے علاوہ لوگوں کو خرید کر علاقے میں امن و امان کی صورتحال کو خراب کرتی ہیں تاہم متعلقہ ادارے دن رات محنت کرکے اِن کوششوں کو نہ صرف ناکام بناتے ہیں بلکہ اپنے خون سے پاکستان میں امن کی فصل سینچتے ہیں۔یوں توپچھلی چند دہائیوں سے مختلف صوبوں میں امن کے دشمن شورش بپا کرنے میں لگے رہتے ہیں لیکن موثر کارروائیوں اور سدِباب کی کوششوں کے سبب اِن پر قابو پا لیا جاتا ہے تاہم بلوچستان میں صورت حال قدرے مختلف ہے، یہاں دہشت گرد تواتر سے صوبے کے اَمن پر حملہ آور ہیں اور اِسی لئے اُن کی راہ میں حائل سیکیورٹی فورسز کے بہادر جوان ہروقت اُن کے نشانے پر رہتے ہیں۔اعداد و شمار کے مطابق کوئٹہ سمیت صوبے کے 14اضلاع میں گزشتہ ایک ماہ کے دوران ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں کے 25سے زائد واقعات ہو چکے ہیں جن میں سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں سمیت 17شہری شہید ہو ئے۔ سب سے زیادہ حملے سیکیورٹی فورسز پر ہوئے جبکہ حکام کے مطابق جوابی کارروائیوں میں 17دہشت گردوں کو جہنم واصل کر دیا گیا۔
حال ہی میں پاکستان کے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ سے ہونے والے سٹاف لیول معاہدے کے بعد ملک میں معاشی ہلچل دیکھنے میں آ رہی ہے، عید کی تعطیلات کے بعد سٹاک ایکسچینج نے اپنے کاروبار کا آغاز انتہائی مثبت انداز سے کیا ہے جو کہ شدید معاشی ابتری میں اُمید کی کرن ہے۔ اِس میں دو رائے نہیں کہ سیاسی طور پر مستحکم ممالک ہی معاشی ترقی کر پاتے ہیں،پاکستان کو تو سیاسی استحکام کی اِس لئے بھی ضرورت ہے کہ پوری قوم جب تک ایک جان ہو کر چیلنجوں کا مقابلہ نہیں کرے گی تب تک اِس کی مشکلات بڑھ تو سکتی ہیں لیکن کم ہرگز نہیں ہوں گی۔ دہشت گردی کچلنے کے لئے بھی ازحد ضروری ہے کہ معاشرے میں سیاسی استحکام ہو تاکہ پوری قوم یکسو ہو کر اِس ناسور کو کچل سکے۔