”نانگا پربت“ بھی مجھے سلام کرتی ہے،یہ میں ہی ہوں جو ایسے نظارے دکھاتا ہوں،”کیا خیال ہے تم جلوے دیکھو گی یا دکھا ؤ گی؟“
مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:66
یہاں سے روانہ ہوئے تو مجھے پھر میرے عظیم دوست سندھو کی مانوس آواز نے اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ ”وہ سامنے اوپر پہاڑوں کی طر ف دیکھو۔ تمھیں برف پوش چوٹی نظر آ رہی ہے نایہ ”نانگا پربت“ ہے۔ یہ بھی مجھے سلام کرتی ہے۔یہ میں ہی ہوں جو ایسے نظارے دکھاتا ہوں۔نین آپ کو کیسا لگا یہ نظارہ۔“ ہماری نظر سامنے اٹھی۔ لاجواب منظر ہے۔ نین بولی؛”شاندار۔ دماغ کو سن کر دینے والا نظارہ ہے۔“نانگا پربت کی چوٹی ڈھلتی سہ پہر میں سورج کی کرنوں سے چمک رہی ہے۔ جیسے کہہ رہی ہو”آؤ میرے قریب تمھیں اپنے جلوے دکھاؤں۔“ میں نے نین سے کہا؛”کیا خیال ہے تم جلوے دیکھو گی یا دکھا ؤ گی؟“وہ غصے سے گھوری مگر اس کے چہرے پر لالی بھی پھیل گئی ہے۔ نانگا پربت کے جلوے تو آنکھوں سے اوجھل ہو چکے مگرنین کے جلوے ساتھ ہیں۔
جگلوٹ سے چلاس جاتے ہوئے نانگا پربت کی آسمان سے بوس و کنار کرتی یہ چوٹی برف سے ڈھکی کہیں کہیں سے درشن دیتی ہے۔ سر تا پا غیر اراضی مگر آفاقی حسن میں ڈوبی ہے۔ یہ کوئی ایک پہاڑ نہیں بلکہ پے درپے پہاڑوں اور عمودی چٹانوں کا دیو ہیکل سلسلہ ہے جس کی انتہائی بلندی چھبیس ہزار سات سو ساٹھ (26760) فٹ ہے اور یہ ہر وقت برف کی چادر اوڑھے رکھتی ہے۔میرا دوست سندھو جیسے اس کے سائے سے بہتا ہے۔ نانگا پربت کو کئی راستے ہیں۔ ہر شخص اپنے اپنے حوصلے اور ہمت کے مطابق راستے کا انتخاب کر تا اس کے قریب جانے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن زیادہ تر فیری میڈوز والا راستہ ہی استعمال ہوتا ہے۔ پہاڑوں کی بھی اپنی سائیکی ہے چاہے تو آنے والے کو اپنا درشن دیں دل نہ مانے تو کئی کئی دن اپنے چہرے کو بادلوں چھپا لیں۔ نیچے سندھو کے ارد گرد انتہائی گرمی ہے تو اوپر نانگا پربت پر شدید سردی۔
برف سے ڈھکے پربت اور درخت، درمیان سے گزرتی نین کی کمر کی طرح بل کھاتی سڑک اور نیچے خم دار بہتا سکڑا ہوا سندھو۔ اس موسم میں کوئی سندھو کو یہاں بہتے دیکھے تو ندی سمجھے، کناروں سے سمٹ کر اندر کی جانب دھنسا ہوا۔نین نے تو اسے دریائے سندھ ہی ماننے سے انکار کر دیا ہے۔یہاں کے پربت جنگلات سے بھرے ہیں۔ صنوبر، چیڑ کے درخت اس قدر گھنے ہیں کہ ان سے گزرنا مشکل ہے۔ڈھلتی شام میں جب ان پیڑوں، پتھروں اور چٹانوں کے سائے سڑک پر پڑتے ہیں تو دور سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ سڑک میں بڑے بڑے شگاف پڑے ہیں۔ بعض دفعہ تو یہ سائے انسان کو اس قدر ڈرا دیتے ہیں کہ بس میں ہو تو دوڑ ہی جائیں۔آہ! دوڑا بھی نہیں جا سکتا اور دوڑ کر جانا بھی کہاں۔ہر طرف کہسار، ویرانی اور سناٹا ہے۔
سندھو دونوں جانب سر اٹھائے کھڑے سنگلاخ پہاڑوں کے بیچ شور مچاتا بہتا ہے مگر یہاں اس کی سڑک سے گہرائی نسبتاً کم ہے۔ ہاں کبھی سڑک دریا کے دائیں کنارے آ جاتی ہے اور کبھی بائیں کنارے۔ یہ پہاڑ اور سندھو ہر نئے آنے والے مسافرکو مل کرخوب ڈراتے ہیں لیکن ہمیں وہ اپنی تاریخ، مقامی روایات اور قدیم قافلوں کی کہانیاں خود سنا رہا ہے۔وہ پھر سے گویا ہوا ہے؛”میری اور ان پہاڑوں کی دوستی ازل سے ہے لازوال جیسے پاک چین دوستی لازوال ہے۔ مجھے ان پہاڑوں کا جو بھی پتھر پسند آجائے میں اُن سے مانگ لیتا ہوں۔ میری خواہش کے احترام میں تیز ہوا اور بارش میرے پسندیدہ پتھر مجھ میں لڑھکا دیتے ہیں۔ زیادہ بڑے پتھر پسند آ جائیں تو زلزلوں کے دوران میرے پیندے میں اتر آتے ہیں۔ مجھ میں گرے ان گنت چھوٹے بڑے پتھر ہماری ازلی اور پکی دوستی کے امین ہیں۔میرا پانی ان پتھروں سے ٹکرا کر موسیقی کے وہ جل ترنگ بکھیرتا ہے جو انسان پر وجدان طاری کردیتا ہے۔ کبھی میرے کنارے تنہا ئی میں بیٹھ کر اس جل ترنگ کو سننا، تم حیران رہ جاؤ گے کہ کیا پتھر بھی ایسی موسیقی سے وجد طاری کر دیتے ہیں۔“
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)