تکونی تعلقات
غالباً سال 1968 تھا۔ صدر جنرل ایوب خان کا دور تھا۔ اسلام آباد میں تعینات امریکی سفیر، جسکا نام بی ایچ اوہلرٹ تھا، ایک روز راولپنڈی کے انٹر کانٹینینٹل ہوٹل سے ایک استقبالیہ میں شرکت کر کے نکلا تو صدر کے سیکرٹری قدرت اللہ شہاب کو اپنی گاڑی کے انتظار میں کھڑا دیکھا اور اصرار کر کے اپنی گاڑی میں بٹھا لیا۔ قدرت اللہ شہاب صاحب اپنی سوانح عمری“شہاب نامہ”میں رقمطراز ہیں“ فیض آباد کے چوک میں پہنچ کر جب ہم شاہراہِ اسلام آباد کی طرف مڑنے والے تھے تو مسڑاوہلرٹ نے اچانک اپنے دونوں ہاتھ آنکھوں پر رکھ لیے اور اپنا سر گھٹنوں میں دے کر سیٹ پر جھک گئے۔مجھے یہی خیال آیا کہ ان کی آنکھ میں کوئی مچھر یا مکھی گھس گئی ہے اور وہ بے چارے سخت تکلیف میں مبتلا ہیں۔میں نے ازراہِ ہمدردی ان سے دریافت کیا۔ٍآپ خیریت سے تو ہیں؟مسڑاوہلرٹ نے اپنی گاڑی ایک طرف رکوائی اور تیکھے لہجے میں بولے "میں بالکل خیریت سے نہیں۔میں کس طرح خیریت سے ہوسکتا ہوں؟وہ دیکھو۔انھوں نے باہر کی طرف اشارہ کرکے کہا"وہ دیکھو آنکھوں کا خار،میں جتنی بار ادھر سے گزرتا ہوں،میری آنکھوں میں یہ کانٹا بری طرح کھٹکتا ہے۔،،میں نے باہر کی طرف نظر دوڑائی تو چورا ہے میں ایک بڑا سا اشتہاری بورڈ آویزاں تھا۔جس پر پی۔ آئی۔اے کا ایک رنگین اشتہار دعوت نظارہ دے رہا تھا اس اشتہار میں درج تھا کہ پی آئی اے سے پرواز کیجیے اور چین دیکھیے!میں نے انہیں اطمینان دلانے کی کوشش کی کہ یہ محض ایک ایئرلائن کا تجارتی اشتہار ہے۔اسے اپنے اعصاب پر سوار کرکے سوہان روح بنانے کی کیا ضرورت ہے۔مجھے معلوم تھا کہ اس زمانے میں چین کے خلاف بغض اور دشمنی کا بھوت پوری امریکن قوم کے سر پر بری طرح سوار تھا۔خاص طور پر اس معاملے میں مسڑاوہلرٹ مریضانہ حد تک ذکی الحس تھے۔اس لیے میری بات سن کر وہ خوش نہ ہوئے بلکہ کسی قدر برامنا کر گم سم بیٹھ گئے۔چندروز بعد میں نے دیکھا کہ فیض آباد چوک سے چین والا بورڈ اٹھ گیا ہے اور اس جگہ پی آئی اے کا اشتہار اب بنکاک دیکھنے کی دعوت دے رہا ہے۔میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ تبدیلی محض تجارتی نکتہ نظر سے رونما ہوئی تھی یا اس معاملے میں مسڑاوہلرٹ کے آشوب چشم کی کچھ رعایت بھی ملحوظ رکھی گئی تھی۔”آج، نصف صدی بعد بھی امریکہ کے سر پر چین کے خلاف بغض اور دشمنی کا بھوت بری طرح سوار ہے۔ وہ چین کو امریکی کے بنائے ہوئے عالمی نظام کے لئے خطرہ سمجھتا ہے۔ ٹیکنالوجی اور عسکری قوت میں وہ امریکہ کی برتری کو چیلنج کر رہا ہے۔ لہٰذا آج بھی امریکہ پاکستان کی چین سے قربت کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھتا۔ وزیرِ اعظم پاکستان کے حالیہ دورہ چین پہ امریکہ چیں بچیں ہے۔ حیلوں بہانوں سے پاکستان کو دباؤ میں لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ آرمی چیف بھی وزیرِ اعظم کے ہمراہ چین گئے جس نے امریکہ کو مزید بے چین کر دیا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی ہمیشہ امریکہ اور چین کے ساتھ تعلقات میں توازن رکھنے میں کامیاب رہی ہے۔ 1950 کی دہائی میں جب امریکہ نے سویت یونین اور چین کو گھیرنے اور ایشیا میں انکا اثر گھٹانے کی ٹھانی تو سیٹو (SEATO) اور سینٹو (CENTO) فوجی معاہدے کئے۔ پاکستان انکا ممبر بن گیا۔ پاکستان نے خود کو امریکہ کے ساتھ جوڑ دیا اور سوویت یونین کے مقاصد کو ناکام بنانے کے لیے بنائی گئی امریکی پالیسیوں کی حمایت کی۔ در اصل پاکستان مسئلہ کشمیر کو حل کرنے اور بھارتی جارحیت کے پیش نظر اپنی سلامتی کے تحفظ میں دلچسپی رکھتا تھا۔ اقتصادی اور فوجی امداد دونوں نے پاکستان کو ان فوجی اتحادوں میں شامل ہونے پر آمادہ کیا کیونکہ ہندوستان عسکری اور مالی طور پر بہتر تھا اور سویت یونین کا حلیف تھا۔1955 میں بینڈنگ کانفرنس میں پاکستان اور چین کی قیادت ملی اور ان معاہدوں سے پیدا شدہ شکوک و شبہات کو دور کیا۔ پاکستان کے وزیر اعظم محمد علی بوگرا نے چینی رہنماؤں کو واضح کر دیا کہ SEATO اور CENTO میں پاکستان کی رکنیت کا مقصد چین کے مخالفت نہیں بلکہ بھارت کی جارحانہ پالیسیوں کے خلاف دفاع تھا۔ چینی قیادت بالغ النظر اور با عمل ہے۔ وہ پاکستان کی بات کو بخوبی سمجھ گئے۔ نتیجتاً باہمی مفاہمت تک بات پہنچ گئی، جس کے بعد دونوں ممالک کے رہنماؤں کے کئی دورے ہوئے۔پاکستانی وزیر اعظم حسین شہید سہروردی نے اکتوبر 1956 میں چین کا دورہ کیااور اسی دسمبر میں وزیر اعظم ڑو این لائی کا پاکستان کا واپسی دورہ ہوا۔ نہ صرف پاک چین دوستی کا آغاز ہو گیا بلکہ امریکہ کے ساتھ بھی مضبوط تعلق قائم رہا۔ چین نے پاکستان سے کبھی امریکہ کے ساتھ تعلقات پہ ناگواری کا اظہار نہیں کیا۔ پاکستان دونوں ممالک کے درمیان پل بن گیا اور دونوں کو قریب لانے میں معاون ثابت ہوا۔ 1971 میں امریکی وزیرِ خارجہ ھینری کسنجر کا چین کا خفیہ دورہ پاکستان کی بدولت کامیاب ہوا۔ کسنجر بیجنگ پہنچ گیا جبکہ اسکا ڈمی نتھیا گلی روانہ ہو گیا۔ بتایا گیا کہ کیسنجر کے معدے میں تکلیف ہے لہٰذا وہ وہاں آرام کریں گے۔ آج پاکستان کو دوبارہ اس کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ چین کے ساتھ دوستی نبھانی ہو گی۔ یہ ہماری معیشت، دفاع اور مستقبل کے لئے نہائیت اہم ہے۔ ساتھ ہی ساتھ امریکہ کے ساتھ بھی دوستانہ تعلقات قائم رکھنے ہوں گے۔ کلیدی نکتہ یہ ہے کہ نہ امریکہ سے مرعوب ہو کر چین سے پیچھے ہٹ سکتے ہیں نہ امریکہ کا میدان بھارت کے لئے کھلا چھوڑا جا سکتا ہے۔ اس پہ عمل کرنے کے لئے وزارتِ خارجہ اور دیگر سرکاری و غیر سرکاری اداروں کو متحد ہو کر کام کرنا ہو گا۔ اس کا پہلا مرحلہ سی پیک ٹو کو کامیابی سے ہمکنار کرانا ہے۔ اس حکمتِ عملی سے مزید دوستی اور ترقی کے راستے کھلتے جائیں گے۔