پھولوں کی سیج یا پُرخار راستہ؟
اب جبکہ محمد نواز شریف اس مفلوک الحال ملک کے، جو مالی اور اخلاقی دیوالیہ پن کے دہانے پر ہے، تیسری مرتبہ وزیر ِ اعظم بننے کے لئے حلف اٹھارہے ہیں تو یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ وہ ملکی مسائل و نا مساعد حالات کے حوالے سے حقیقت پسندانہ رویہ اپناتے ہوئے نہایت معقول بات کر رہے ہیں ۔ وہ جانتے ہیں کہ چند سال پہلے وہ جن حالات کا شکار ہوئے تھے، اب ان کے لئے ایک مرتبہ پھر وزارت ِ اعظمی کے عہدے پر فائز ہونا نئی زندگی پانے کے مترادف ہے اور وہ یقینا اس موقعے کو ضائع نہیں ہونے دیںگے.... چونکہ میاں نواز شریف کرکٹ کا بھی شغف رکھتے ہیں، اس لئے اگر اس کھیل کی اصطلاح میں بات کی جائے تو ایسا لگتا ہے کہ ” بڑے امپائر “ نے انہیں ناٹ آﺅٹ قرار دے دیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ پہلی باریوں میں وہ بلے بازی کرتے ہوئے فٹ ورک اور ٹائمنگ کا خیال نہیں رکھ سکے ۔ پہلی مرتبہ تو وہ رن آﺅٹ ہو گئے تھے، جبکہ دوسری مرتبہ گھاگ وکٹ کیپر نے اُنہیں سٹمپ آﺅٹ کر دیا۔ اب جبکہ ”بلے بازی “ کی باری اُن کی ہے، انہیں بہترین کھلاڑیوں کو میدان میں اتارنا ہے تاکہ ان کی ٹیم لمبی اننگز کھیل سکے ۔
تاہم شریف برادران کا سڑکیں، پل، انڈر پاس، فلائی اوور اور موٹروے بنانے کا خبط تشویش ناک ہے۔ حالات اس قسم کے ہیں کہ اگر اُن کے مشیرحضرات ان کو بلٹ ٹرین چلانے کا مشورہ دیں تو وہ ان کی باتوں پر کان نہ دھریں اور یقین کر لیں کہ وہ ان کے دوست نہیں ہیں۔ اگر ان ”ایجادات “ کی تحریک کی لہر اپنے دل سے اٹھتی ہوتو اُنہیں چاہیے کہ وہ آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر کچھ دیر سوچیں اور یقین کر لیں کہ ملک کے معروضی حالات میں بنائی گئی کوئی بھی اس قبیل کی سڑک یا ٹرین سنگین ناکامی سے ہمکنار ہو گی۔ سب جانتے ہیں کہ بہت عرصہ پہلے کسی نے میاں نواز شریف کو مشورہ دیا تھا کہ لافانی شہرت ، جیسی سولہویں صدی کے حکمران شیر شاہ سوری کو ملی تھی، حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ سپر موٹر وے تعمیر کی جائے۔ میاں نواز شریف نے اس نصیحت کو پلے سے اس طرح باندھ لیا کہ آج تک نہیں کھولا۔ اس تاریخی حوالے (شیر شاہ سوری) کو سمجھنے میں غلطی پائی جاتی ہے۔ شیر شاہ سوری نے اپنے پانچ سالہ دور میں صرف اس سڑک کی حالت بہتر بنائی تھی ، یہ سڑک پہلے سے تعمیر شدہ تھی، تاہم تاریخ میں وہ اس سڑک کے معمار قرار پائے یہ قابل ِ بحث معاملہ ہے۔ بہرحال اگر سڑکیں بنانے کا عمل ہی لافانی شہرت کا تعویذ ہوتا تو اس دنیا کا ہر حکمران اس راہ پر چل رہا ہوتا، لیکن ایسا نہیں ہے۔ ان کی ترجیح تعلیم، سیکیورٹی ، خارجہ پالیسی اور معیشت ہوتی ہے، وہ حلف اٹھاتے ہی سابقہ بنی ہوئی سڑکوں پر ہلہ نہیں بول دیتے، تاہم میاں نواز شریف لاہور اسلام آباد موٹروے، جس کی لمبائی 353 کلومیٹر ہے، کے خیال سے باہرآتے دکھائی نہیں دے رہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بنائی گئی موٹر وے بہت عمدہ ہے اور اس پر سفر کرنا پُرلطف ہے ، لیکن اس پر اس ملک کے کتنے لوگ سفر کرتے ہیں ؟ اگر اسے استعمال کرنے والوں کی تعداد اور اس پر لگائی جانے والی رقم کا تناسب دیکھیں تو یہ اسراف کے زمرے میں ہی آتی ہے۔ این ایچ اے کی ویب سائٹ کے مطابق اس کا ایک سو پچاس ملین روپوں کا نقصان ہوا ہے۔ 2007ء کے بعد چونکہ ایسی ویب سائٹس کو”خاموش “ کرا دیا گیا، اس لئے مَیں وثوق سے نہیں کہہ سکتا ہے کہ رقم ملین میں تھی یا بلین میں۔ بہرحال پاکستان اتنا ”متمول “ ملک ہے کہ یہاں کئی سو ملین یا بلین کا پتا اس طرح صاف ہو جاتا ہے کہ پتہ ہی نہیں چلتا۔ این ایچ اے کے لئے صرف موٹروے ہی نہیں، بلکہ ملک کے ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک پھیلی ہوئی وہ سڑکیں، جنہیں ”سٹرٹیجک روڈز “ کہا جاتا ہے، بھی سفید ہاتھی ہیں۔ یہ ادارہ ان بے سروپا اخراجات کی وجہ سے پہلے ہی بہت نقصان اٹھا چکا ہے، اب میاں نواز شریف کے حلف اٹھانے سے یہ خود کو ”لائن آف فائر“ پر محسوس کر رہا ہوگا۔ ہماری سابقہ حکومت پہلے ہی زمینی وفضائی لوٹ مار (پاکستان سٹیل اور پی آئی اے) کی انمٹ داستانیں رقم کر چکی ہے، امید ہے کہ اب اس میںکسی نئے باب کا اضافہ نہیںہوگا، لیکن احمقانہ منصوبوں پر بھی رقم (جو ہمارے پاس ہے ہی نہیں) خرچ نہیں کرنی چاہیے۔
شاید کسی نے میاں نواز شریف کویہ نہیں بتایا کہ موٹر وےز صنعتی یونٹس کو بندرگاہوںکے ساتھ ملانے کے لئے بنائی جاتی ہیں، تاہم لاہور اور اسلام آباد سے نزدیک ترین بندرگاہ کم و بیش ایک ہزار میل دور ہے۔ اسی طرح میاں صاحبان کی طرف سے تازہ ترین پیش کش، جو کراچی میں میٹرو بس سروس تعمیر کرنے کے حوالے سے ہے، کے حوالے سے جو رد ِ عمل سامنے آیا ہے، وہ یہ ہے کہ اگر اس منصوبے کو شروع کیا گیا تو حکومت ِ پاکستان اس کے نقصانات کیسے برداشت کرے گی؟ لاہور کی میٹرو بس پہلے ہی دس ملین روپے روزانہ کے حساب سے نقصان میں جارہی ہے۔ کراچی جیسے بڑے شہر میں ہونے والے نقصانات اسی تناسب سے زیادہ ہوںگے۔ بات یہ ہے کہ ایسے منصوبوں سے حاصل ہونے والے محصولات او ر اخراجات میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ لاہور کی کینال روڈ کی توسیع اور اس مقصد کے لئے ہزاروں سرسبز درختوں کی کٹائی ، رنگ روڈ اور اب میٹرو بس، سب ناکام منصوبے ثابت ہوئے ہیں، کیونکہ انہیں استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد بہت کم ہے۔ کیا کسی نے یہ منصوبے بنانے سے پہلے ان امکانات پر غور کیا تھا یا آئندہ کیا جائے گا؟
وسیع و عریض سڑکیں بنانا حکمرانوں کی خواہش ہوتی ہیں، لیکن بہتر ہے کہ رقم اُن منصوبوں پر خرچ کی جائے جن سے زیادہ سے زیادہ افراد استفادہ کر سکیں۔ عوام کو بہتر صحت، امن و امان اور بہتر نظام ِ حکومت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک ہائی وے سفر کو تو کم کر سکتی ہے، زندگی کی دیگر مشکلات کو نہیں۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران برسنے والی سیمنٹ اور آہن کی بارش نے لاہور کی آب ہوا کو انتہائی خراب کر دیا ہے، دیگر شہروں کی بھی صورت ِ حال ایسی ہے، کیونکہ میاں شہباز شریف نے صوبے کے ہر مربع انچ پر پل یا انڈر پاس بنانے کی کامیاب کوشش کی تھی۔ کیا اس مرتبہ بھی ہمارے حکمرانوں کی یہی ترجیحات ہوں گی؟ خدارا! بلٹ ٹرین اور مزید میٹروبسوں کے منصوبے دماغ کے نہاں خانوں میں ہی رہنے دیں۔اہل ِ برطانیہ کے یہاں سے جانے کے بعد سے ہمیں ایک کلو میٹر ریلوے ٹریک بچھانے کی بھی توفیق نہیں ہوئی اور ہمارے موجودہ ریلوے ٹریک پر جب ٹرین چلے، اگر کوئی چلنے کے قابل ہو، تو ایسی مستی میں جھومتی ہوئی ہچکولے کھاتی ہوئی چلتی ہے، جیسے شمالی بحر ِ اوقیانوس کی طوفانی لہروں کے دوش پر کوئی چھوٹی سی کشتی۔ اس چلتی پھرتی ”خرابات “ پر میرا چیلنج ہے کہ آپ کسی کتاب کا مطالعہ نہیں کر سکتے۔
دوسری طرف بھارتیوںنے اپنے بے شمار مسائل کے باوجود اپنے ریلوے کے نظام کو بہتر بنایا ہے، لیکن ہم بوسیدہ چھتوں کے ساتھ مہنگے فانوس لٹکانے کے منصوبوں پر غور کر تے رہتے ہیں۔ اب جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) تیسری مدت کے لئے اقتدار سنبھال رہی ہے، اس سوچ کو بدلنا چاہیے۔ غلط پالیسیوں اور بدانتظامی کی وجہ سے پی پی پی کا سیاہ حشر ان کے سامنے ایک روشن مثال ہے، اسے دہرایا نہیں جانا چاہیے۔میاں نواز شریف کا پی ایم ہاﺅس میں نہ ٹھہرنے کا فیصلہ قابل ِ ستائش ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ کہیں اور ٹھہرنے پر قوم کا مزید روپیہ خرچ نہیں ہوجائے گا۔ اس وقت میاں نواز شریف یہ کوشش کرتے نظر آرہےں کہ وہ با صلاحیت افراد کی ایسی ٹیم تشکیل دے سکیں جو اس ملک کا خون چوسنے والی جونکوں کا قلع قمع کر سکے۔ یہ کام دشوار تو ہے، لیکن امید کا دامن ہاتھ سے چھوڑنا بھی حماقت ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہم کوئی معجزانہ کام کرتے ہوئے پانسہ پلٹ دیں اور پاکستانی خواب کو عملی جامہ پہنا سکیں، جو ہنوز شرمندئہ تعبیر نہیںہوا۔
اس مرتبہ کم از کم ایک تبدیلی تو دکھائی دے رہی ہے کہ ہمارے رہنما مسائل، جیسا کہ لوڈ شیڈنگ ، کے بارے میں سچ بول رہے ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ عوام کو جھوٹے وعدوں یا دل خوش کن نعروںسے ٹرخانے کا دورجا چکاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ لوڈ شیڈنگ بیک جنبش ِ قلم ختم نہیںہوجائے گی، تاہم اگر حکومت درست سمت میں قدم بڑھاتی دکھائی دے گی تو اسے بھی ان پاکستانیوں کے لئے ، جو تپتے ہوئے موسم میں آسمان کی طرف دیکھ کر سوال کرتے ہیں کہ الٰہی، اُن سے کون سا گناہ سرزد ہو گیا ہے، تازہ ہوا کا ایک جھونکا قرار دیا جا سکتا ہے۔ ہم نام نہاد ”پڑھے لکھے خوشحال “افراد تو جیسے تیسے بجلی کی کمی اور اشیائے ضروریات کی گرانی سے نمٹ لیتے ہیں، لیکن اس سرزمین پر رہنے والے زیادہ ترافراد اس کی استطاعت نہیں رکھتے ۔حکومت کو کوشش کرنی چاہیے کہ امیر غریب میں یہ خلیج مزید گہری نہ ہو۔ اب بھی یہ سوال اپنی جگہ پر موجود ہے کہ کیا پی ایم ایل (ن) ماضی کی دلدل، جس میں یہ دھنس گئی تھی، سے بلند ہو پائے گی یاپھر نااہل لوگوں کی پسند نا پسند کا شکار ہو جائے گی۔معجزانہ تبدیلیوں کی دعا کریں، لیکن جذبات کے گھوڑے پر سوار نہ ہوں۔ ٭