الطاف حسین کے گھر کی تلاشی مکمل ، مزید رقم و دستاویزات برآمد، ٹیلی فون بھی قبضے میں لے لیا
لندن (بیورورپورٹ) متحدہ قومی موومنٹ کے سربراہ الطاف حسین کی گرفتاری کے بعد ان کے گھر کا سرچ آپریشن مکمل کرلیا گیا ہے جس کے بعد چھ اہلکاروں کو تعینات کردیاگیا، یہ آپریشن 19گھنٹے تک جاری رہا جس میں تقریبا 40سے زائد فرانزک ماہرین تلاشی لیتے رہے اس تلاشی کے دوران معلوم ہوا ہے کہ انہیں گھر سے مزید رقم اور دیگر اہم دستاویزات موصول ہوئی ہیں جو انہوں نے اپنے قبضہ میں لے لی ہیں جبکہ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ میٹرو پولیٹن پولیس نے گھر میں موجود الطاف حسین کا لیپ ٹاپ ‘ آئی پیڈ ‘ اور دیگر سامان بھی اپنے قبضہ میں لے لیا ہے اور اس کی تفصیل پولیس نے الطاف حسین کے ذاتی وکیل کو جمع کرا دی ہے تلاشی کے دوران ذرائع نے بتایا ہے کہ پولیس نے گھر کا کونا کھدرا تک اکھاڑ کر اپنی مکمل تسلی کی ہے یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پولیس اس وقت تک کسی بھی ملزم سے تفتیش نہیں کر سکتی جب تک وہ اپنے آپ کو مکمل طور پر فٹ قرار نہیں دیتا متعلقہ سارجنٹ سوال و جواب کی نشست سے قبل ملزم سے مکمل طور پر فٹ ہونے کا سوال کرتا ہے اور اگر وہ کسی قسم کے نفسیاتی دباﺅ یا جسمانی مرض کا شکار ہو تو وہ پولیس کو بتانے کا پابند ہے اگر معمولی نوعیت کا مسئلہ ہو تو پولیس اسٹیشن میں ہی ڈاکٹر کو طلب کر لیا جاتا ہے جو ابتدائی طبی معائنے کے بعد یہ سر ٹیفکیٹ دینے کا پابند ہے کہ ملزم سچ بول رہا ہے یا جھوٹ ‘ اس سلسلہ میں بیرسٹر امجد ملک نے بتایا کہ چونکہ الطاف حسین کی سابقہ میڈیکل ہسٹری موجود ہے جس کی وجہ سے انہیں ہسپتال میں طبی معائنے کیلئے داخل کرایا گیا ہے ہسپتال میں ملزم کے گزرے ہوئے لمحات اور دن پولیس کی طرف سے چوبیس گھنٹے حراست میں رکھنے پر اثر انداز نہیں ہوتے اگر اسکے باوجود ملزم بیماری اور نفسیاتی مرض کا بہانہ بنا کر بیان دینے سے انکار ی ہو تو پولیس اسے بیان ریکارڈ کیے بغیر چارج کر لیتی ہے اور اسکی فائل متعلقہ مجسٹریٹ کو بجھوا دی جاتی ہے متعلقہ مجسٹریٹ کی عدالت میں ملزم کو پیش کیا جانا ضروری ہوتا ہے اس وقت ملزم کے وکیل ضمانت کی درخواست دائر کر دیتے ہیں مجسٹریٹ اگر ضروری سمجھے اور معاملہ سنگین نوعیت کا نہ ہو تو وہ اسی وقت ملزم کو بیل پر رہا کر دیتا ہے بعد ازاں اس کیس میں مزید پیش رفت کے لیے عدالت بجھوا دی جاتی ہے پولیس کی طر ف سے چھاپوں کے تسلسل اور انکی رہائشگاہ سے بڑی رقم برآمد ہونے کی وجہ سے الطاف حسین گرفتاری عمل میں لائی گئی، منی لانڈرنگ ثابت ہونے پر انتہائی حد تک مجرم کے حالات کے تحت ہی ججز جاتے ہیں جن میں مطلوبہ رقم، مجرم کا چال چلن اور جرائم کے ریکارڈ شامل ہوتے ہیںپاکستان کی ایک بڑی سیاسی پارٹی کے سربراہ ہونے کے ناطے حکومت پاکستان نے انہیں تمام قونصلر خدمات فراہم کئے جانے کے احکامات کئے ہیں یہاں کے قانون کے مطابق، میڈیکل، وکیل اور مترجم کی سہولت انکا حق ہے اور پولیس یقینی طور پر انکی فراہمی میں کوئی کوتاہی نہیں برتے گی برطانیہ میں کمیونٹی کے جج بیرسٹر صبغت اللہ قادری نے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ برطانیہ میں 2002 میں منی لانڈرنگ کو سیریس کرائم کی صف میں شامل کرکے اسکا نفاذ کیا گیا جسکے تحت بینکوں کو اس امر کا پابند کیا گیا کہ اگرکوئی فرد پانچ ہزار پاﺅنڈز سے زائد رقم جمع کرانے آئے تو اس سے پوچھا جائے کہ اس نے وہ رقم کہاں سے حاصل کی اور اطمینان بخش جواب نہ ملنے پر پولیس کو اطلاع کی جائے انہوں نے واضع کیا کہ منی لانڈرنگ کے کیس میں بار ثبوت عام کیسز کی طرح پولیس پر نہیں ہے بلکہ جس سے رقم برآمد ہو اس کا فرض بنتا ہے کہ وہ ثابت کرے وہ رقم قانونی طریقے سے حاصل کی گئی انہوں نے کہا لگتا ہے کہ اس کیس میں ٹھوس ثبوت پیش نہیں کئے جا سکے جس کی بنا پر پولیس ملزم کو گرفتار کرنے پر مجبور ہوئی ایسے کیسز میں زیادہ سے زیادہ 14 سال قید کی سزا ہوسکتی ہے مگرملزمان استنثی کا فائدہ بھی حاصل کر لیتے ہیں جن میں وہ موقف اختیار کرتے ہیں کہ انہوں نے غلط کام کسی انتہائی مجبوری کے عالم میں کیا یا انکے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا ایسی صورت میں سزا میں کچھ کمی واقع ہو سکتی ہے الطاف حسین چونکہ ایک سیاستدان ہیں اور ایک فکر و سوچ کیلئے رول ماڈل کا درجہ رکھتے ہیں ایسی صورت میں قانون زیادہ چھوٹ نہیں دیتا پانچ لاکھ پاﺅنڈز کے منی لانڈرنگ الزام کے ثابت ہونے پر ہر صورت میں آٹھ سے دس سال قید کی سزا لازمی امر ہوجاتی ہے۔