2015-16ء کا بجٹ کیسا ہونا چاہئے!

2015-16ء کا بجٹ کیسا ہونا چاہئے!
2015-16ء کا بجٹ کیسا ہونا چاہئے!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

وزیر خزانہ اسحق ڈار 5جون کو 2015-16کا بجٹ پیش کریں گے ،یہ بجٹ کیسا ہونا چاہئے ،ہماری ترجیحات کیا ہونی چاہئیں اور مستقبل میں ہمیں اپنی معیشت کو اپنے قدموں پر کھڑا کرنے اور خود انحصاری کی منزل پر پہنچنے کے لئے قومی سطح پر کن اقدامات کی ضرورت ہے؟ ۔ان سوالوں کا جواب ہر پاکستانی جاننا چاہتا ہے ، اس لئے ہمارے لئے لازم ہے کہ ہم اپنے معاشی پس منظر کوسامنے رکھتے ہوئے ۔(الف)مجموعی قومی پیداوار میں سالانہ اضافے کا ہدف کم از کم7فیصد رکھیں (ب)۔ اس ہدف کو پورا کرنے کے لئے زرعی اور صنعتی سیکٹرزمیں سالانہ بڑھوتری بھی اِسی ہدف کے مطابق ہو۔ (ج)ملکی ریونیو میں کم ازکم ڈیڑھ کھرب روپے کا سالانہ اضافہ کرناہوگاتاکہ ہمیں خسارہ پورا کرنے کے لیے قرض نہ لینے پڑیں۔(د)غیر ضروری درآمدات کو کم کرکے برآمدات کو بڑھانا ہوگاتاکہ بین الاقوامی تجارت میں ہمارا خسارہ کم ہوسکے۔
ان مقاصد کے حصول کے لئے ہمیں سب سے پہلے طرز حکمرانی بدلناہوگا۔ خاندانی ،وراثتی اور ذاتی وفاداری کی بنیاد پر حق حکمرانی کی بجائے عوام کے حقیقی نمائندوں کے ذریعے سے مشاورتی بنیاد پر میرٹ کے مطابق فیصلے کرنے ہوں گے۔ میرٹ کی حکمرانی کے بغیر عدل قائم نہیں ہوسکتا۔ 2015-16ء کے بجٹ میں ہمیں ہرحال میں خودانحصاری کی طرف آناپڑے گا۔ اس سا ل بھی ریونیوکا بہت بڑاحصہ سود اور اصل زر کی قسطوں کی واپسی میں گیا ۔ ٹیکسیشن پالیسی کو اگر مالیاتی ہتھیار کے طور پر استعمال کیاجائے تو اہل ثروت لوگوں سے مالی وسائل معاشی لحاظ سے کم نصیب لوگوں کی طرف منتقل کئے جاسکتے ہیں، مگر موجودہ پالیسی جس کے تحت ڈائریکٹ ٹیکسز کا بھی 88فیصد ووہولڈنگ ٹیکس کے ذریعہ سے جمع کیا جاتاہے اور صرف 12فیصد حصہ اسسمنٹ/ انفورسمنٹ کے ذریعہ سے وصول کیاجاتاہے اور اس کے ساتھ سیلز ٹیکس ،کسٹم ڈیوٹی اور ایکسائز ڈیوٹی ،پہلے سے موجود ان ڈائریکٹ ٹیکسز بھی نافذ رہیں،تو صاف ظاہر ہے کہ حکومت معاشی طور پر خوشحال لوگوں سے مالی وسائل لے کر معاشی لحاظ سے کم نصیب طبقے کی تکالیف کے ازالہ میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔ معاشی طور پر خوشحال طبقے کے تعین میں ضروری اعداد و شمار اور کوائف حکومتی اداروں کے پاس موجود ہیں۔ مثلاً بیرون مُلک سفر ،اعلیٰ مہنگے اداروں میں بچوں کی تعلیم ،اعلیٰ مہنگے ہسپتالوں میں علاج ،بجلی گیس اور ٹیلی فون مع موبائل فونزکے بل اور مختلف کلبوں کے بل کے متعلق ڈیٹا موجود ہے۔ بڑے شہروں کے پوش علاقوں میں عالی شان محل ،سب کو نظرآتے ہیں اور ان کے بنانے کے لئے وسائل کاتعین کرنا کوئی جوئے شیر لانانہیں ۔


یہی وہ واحد روڈ میپ ہے، جس کے ذریعے سے ہم نہ صرف اپنے وسائل سے بہت حد تک اپنی ضروریات پوری کرسکتے ہیں،بلکہ معاشی طور پر کم نصیب لوگوں کی فلاح و بہبود کی ذمہ داری بھی ادا کرسکتے ہیں۔اسی طرح سے ہر قسم کی آمدنی ،جو طے شدہ حد مثلاً چھ لاکھ روپے سالانہ ، سے زیاد ہ ہو ،وہ ٹیکس نیٹ میں لائی جائے۔ووہولڈنگ ٹیکس کی بجائے انفورسمنٹ / اسسمنٹ /آڈٹ کاطریقہ اختیار کیاجائے۔ ٹیکس ادا کرنے والوں کی مکمل آگاہی کا انتظام کیاجائے۔ تمام قواعد و ضوابط سادہ اور عام فہم بنائے جائیں اور شکایت کی صورت میں موثر دادرسی اور احتساب کانظام قائم کیا جائے۔ 1996ء میں VATکے طریقہ کار پر سیلز ٹیکس کانظام لایاگیاتھا،جس کا بنیادی مقصد معیشت کو دستاویزی شکل میں لانا تھانہ کہ ریونیوبڑھانے کے لئے استعمال کرناتھا۔آہستہ آہستہ معیشت کے دستاویزی شکل اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ ریونیو کے لئے انحصار انکم ٹیکس پر کیا جاناتھا۔ لیکن اس سکیم کو کامیاب نہیں ہونے دیا گیا۔ جب تک معیشت دستاویزی شکل اختیار نہیں کرتی اس وقت تک ڈائریکٹ ٹیکسز عدل و انصاف کے ساتھ جمع نہیں کئے جاسکتے اور جب تک اِن ڈائریکٹ ٹیکسز پر انحصار رہے گا۔ ٹیکسیشن کا نظام عادلانہ نہیں ہوسکے گا۔ ہماری تجویز ہے کہ بغیر کسی چھوٹ کے اندرون مُلک ہر قسم کی سپلائی پر اور ہر درآمد پر 5فیصد سیلز ٹیکس لگایا جائے۔ تھائی لینڈ اورسنگا پور میں اس وقت سیلز ٹیکس کا ریٹ 7فیصد ہے،انڈونیشیا میں 10فیصد ہے اور سری لنکا میں 12فیصد ہے۔


ہمیں توانائی کے بحران کو فوری طور پر حل کرناہوگا۔ اس وقت لائن لاسزاور چوری کی وجہ سے ایک طرف گردشی قرضوں میں اضافہ ہوتا رہتاہے، اور دوسری طرف عام لوگوں کو لوڈشیڈنگ کا عذاب بھگتنا پڑتاہے۔ اس کی وجہ سے صنعتی اور زرعی پیداوار بری طرح سے متاثر ہو رہی ہے۔ اس وقت ہمارا بجلی کی تقسیم اور ترسیل کا نظام بمشکل 70فیصداستعداد کار پر کام کررہاہے۔ پرانی لائنیں ،ناکارہ کنڈکٹر زاور اس پر مزید برآں کرپشن اور چوری ۔ ماہرین کے مطابق یہ معاملات بہترگورننس کے ذریعے سے حل کیے جاسکتے ہیں اگر حکومت میں پولیٹیکل وِل (Political Will)ہو تو بہت زیادہ سرمایہ لگائے بغیرصرف لائن لاسزاور چوری کو کنٹرول کرکے اور موجودہ سسٹم کی استعداد کا ر بڑھا کر تقریباً 2000میگا واٹ سے زیادہ بجلی سسٹم کو میسر آجائے گی۔اِسی طرح سے نئے بجلی کے منصوبو ں کے لئے بجٹ کا کم ازکم 15فیصد مختص کیاجائے اور سب سے اولین ترجیح پن بجلی پیدا کرنے پر دی جائے ،دوسری ترجیح کوئلہ اورسولر اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے پر توجہ دی جائے ۔ یہ سارے ذرائع مقامی طور پر میسر ہیں۔
زراعت کا سیکٹر (بالخصوص فصلیں) تقریباً گزشتہ سال سے شدید بحران کا شکار ہے۔ لائیوسٹاک کی حالت بھی اچھی نہیں ہے۔ زراعت کے سیکٹر میں 87فیصد تک تعداد چھوٹے کسانوں کی ہے، جن کے پاس نہ تو پس انداز کی ہوئی آمدنی ہوتی ہے اور نہ ہی اپنی پیداوار کو سٹور کرنے کی صلاحیت ۔پیشتر اس کے کہ موجودہ بحران اس طبقے کو ملیا میٹ کردے۔حکومت تمام اہم زرعی اشیاء کی سپورٹ پرائس مقرر کرے او ر اس قیمت پر منڈی میں فروخت کو یقینی بنائے۔ جیساکہ انڈیا میں ہے ۔ علاوہ ازیں زرعی مداخل(کھاد،زرعی ادویات ،زرعی مشینری) پر عائد سیلز ٹیکس ختم کرے ۔زرعی ٹیوب ویلوں پر فلیٹ ریٹ سے بل وصول کئے جائیں۔ کسانوں کو زرعی قرضے بلاسود دلوائے جائیں ،اس ضمن میں جماعت اسلامی حکومت کو سٹیٹ بینک سے منظور شدہ طریقہ کار کے مطابق ماڈل بناکر دینے کے لئے تیارہے۔ اور سہولت کار کارول نبھانے کے لئے اپنی خدمات پیش کرتی ہے۔زرعی تحقیق پر زیادہ سے زیادہ فنڈزلگائے جائیں تاکہ جدید ٹیکنالوجی استعمال کرکے اوسط پیداوا بڑھائی جائے او ر اضافی پیداوار کو ایکسپورٹ کیاجائے۔ حکومت کسانوں کی نمائندہ تنظیموں کے ساتھ مشاورت سے زرعی آمدنی پر ٹیکس لگانے کامعامہ طے کرے۔سٹاک مارکیٹ ،رئیل اسٹیٹ ،تعمیرات کی صنعت ،اور ڈویلپرزکو ٹیکس نیٹ میں لایاجائے۔


بجٹ 2015-16ء میں مدنظر رکھنے کے لئے ایک اور بہت اہم پہلو نجکاری کا ہے۔ حکومت نے 2013ء میں آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کرتے وقت 30جون 2014ء تک 534ملین ڈالر نجکاری کے ذریعے سے حاصل کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی اور اس حوالے سے آئندہ سال میں عمل درآمد کا عندیہ دیاجارہاہے۔ بہت اہم بات یہ ہے کہ 1991ء سے لے کر 2011ء تک 167ٹرانزیکشنز ہوئیں، جن کے ذریعے سے 467.421بلین روپے حاصل ہوئے، جس کا 67فیصد وفاقی حکومت کو ملا ،26فیصد متعلقہ اداروں کے شیئر ہولڈرز کو ملا ،5فیصد ملازمین کے گولڈن ہینڈ شیک میں خرچ ہوااور 2فیصد نجکاری کے اخراجات پر خرچ ہوا۔ نجکاری کرنے والوں پر مختلف قسم کے الزامات لگے، جن اداروں کی نجکاری ہوئی اس سے نہ تو مجموعی قومی پیداوار میں اضافہ ہوااور نہ ہی قر ض ادا ہوسکے۔ نئی نجکاری کا عمل شروع کرنے سے پہلے سابقہ نجکاری کے نتائج کا غیر جانبدارانہ تجزیہ ایک قومی کمیشن کے ذریعے سے کروالیاجائے آئندہ نجکاری کا عمل سیاسی جماعتوں کی مشاورت کے ساتھ کیا جائے اور وہ ادارے جو ریاست کی ضرورت ہیں ان کی ہرگز نجکاری نہ کی جائے البتہ ایسے اداروں کو منافع بخش بنانے کے لئے حکمت عملی اپنائی جائے ۔


جب تک انسانی وسائل کی ترقی پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی ملکی معیشت ماہر افراد کی خدمت سے ہمیشہ محروم رہے گی ۔ اس وقت تعلیم پر جی ڈی پی کا 2فیصد سے بھی کم اور صحت پر اس سے بھی کم خرچ انسانی وسائل کی ترقی میں حائل ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ 2015-16ء کے بجٹ میں ان دونوں سیکٹرز کے لئے جی ڈی پی کا 4سے 6فیصد ، فی سیکٹر،حصہ رکھاجائے ۔سارے مُلک میں یکساں نظام تعلیم اور وہ بھی اپنی قومی زبان میں یقینی بنایا جائے۔ مُلک بھر میں بڑی تعداد میں ٹیکنیکل سکول ،کھولے جائیں ، جہاں آٹو موبائل ،بجلی والیکٹرانکس وغیرہ کی تعلیم دی جائے اور یہاں کے فارغ التحصیل طلباء کو اپنا کاروبار شروع کرنے کے لئے بلاسود قرضے دیئے جائیں۔سرکاری ملازمین کی تنخواہیں 15فیصد بڑھائی جائیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ مزدوروں کے لئے کم ازکم 15000روپے ماہانہ تنخواہ مقرر کی جائے، مخصوص اداروں کے ملازمین کو مخصوص الاؤنسز کی بجائے تمام سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات کو یکساں کر دیا جائے۔ اسی کے ساتھ میڈیکل اور کنوینس الاؤنس میں 200فیصد اضافہ کیا جائے۔ پنشن اور کمیوٹیشن کا پرانا فارمولا 50فیصد ،50فیصد بحال کیا جائے۔ سرکاری ملازمین کے موواوور اور سلیکشنز گریڈکی سکیم بحال کی جائے۔


مُلک میں سودی نظام کا خاتمہ کیاجائے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے غیر سودی نظام کے نفاذ کے لئے تفصیلی ہدایات اور طریقہ کار جاری کئے ہوئے ہیں۔ حکومت کم ازکم وہاں سے اس کارخیر کاآغاز کردے تاکہ ہم مجموعی طور پر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نا فرمانی سے بچ سکیں۔ایک اور اہم مسئلہ این ایف سی ایوارڈ کا ہے۔ حکومت نے این ایف سی کمیشن تشکیل دے دیا ہے۔ ساتویں این ایف سی ایوارڈ میں وفاق اور صوبوں کے درمیان محاصل کی تقسیم کا جو فارمولا طے پایاتھا ۔کم ازکم اس کو ہر حال میں برقرار رکھاجائے اور وفاق پنجاب کے ساتھ مل کر ساتویں این ایف سی ایوارڈ سے پہلے والی پوزیشن کو بحال کروانے کے لئے کوئی نیاکھیل نہ کھیلے۔ صوبوں کے سرپلس کو وفاق کی طرف موڑنے کی ماضی کی سب کوششیں آئندہ کے لئے ختم ہونی چاہئیں۔ پاکستان چین اقتصادی راہداری کامنصوبہ بہت اہم ہے۔متذکرہ بالا تجاویز پر اگر حقیقی معنوں میں عمل ہوجائے تو آئندہ بجٹ میں ہم نہ صرف آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ذلت سے بچ جائیں گے، بلکہ قوم خود انحصاری اور حقیقی آزادی کی منزل کے راستے پر بھی گامزن ہوجائے گی۔ *

مزید :

کالم -