کیمبرج یونیورسٹی کا سوتیلا پن

کیمبرج یونیورسٹی کا سوتیلا پن
کیمبرج یونیورسٹی کا سوتیلا پن

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

جب ایک ماہر تعلیم سے پوچھا گیا کہ نصاب کیا ہے تو اس نے کہا کہ مین کورس یعنی ایسا راستہ جس پر گھوڑا دوڑانا ہے، دوسرے الفاظ میں یہ ہم نے طے کرنا ہے کہ نوجوان کس سمت کو سوچیں جیسے گھڑ دوڑ میں گھوڑا دوڑانے والا فیصلہ کرتا ہے کہ گھوڑا کس سمت بھگانا ہے۔ دوسرے سے پوچھا گیا کہ تعلیم کیا ہے تو اس نے کہا تراش خراش گویا ہم ایک مالی کی طرح ناپسندیدہ سوچ کی شاخیں پنپنے سے پہلے ہی کاٹ دیتے ہیں اور اپنے معاشرے کی اقدار کے مطابق علم پروان چڑھاتے ہیں۔ پر کیا کریں اپنی ذہنی غلامی اور مغرب پسندی کا کہ ہم بلا سوچے سمجھے اپنا نصاب اور تعلیم کیمرج اولیول اور اے لیول کی نذر کردی۔ ہمارا غالب خیال یہی ہوتا ہے کہ ہر مہنگی چیز اعلیٰ ہے اس بات سے گورا آگاہ ہے اور وہ فی مضمون 10,000 روپے داخلہ فیس لیتا ہے اور ہر امتحان کی رجسٹریشن الگ ہے، ایک اوسط درجے کے اولیول کے سکول میں 1000 بچہ پڑھتا ہے اور ہر بچہ 9 پرچے دیتا ہے تو رجسٹریشن ملا کر کل ایک کروڑ کی خطیر رقم پونڈ میں جمع کروانا ہوتی ہے اگر کل سکولوں اور کروائی گئی فیسوں کا حساب لگایا جائے تو میرا دعویٰ ہے کہ ایسا کرنے والا ایک دفعہ پانی ضرور پئے گا بہر حال میں ایک گہرا سانس لینا تجویز کرتا ہوں۔ اتنا خرچ کرنے کے بعد دلاسا تھا کہ علم پر پیسہ خرچ ہورہاہے جو کسی بھی قوم کی ترقی کیلئے بہترین سرمایہ کاری ہے لیکن یہ کیا؟ جناب! آپ اپنے پیسے خرچ کرکے اپنی ہی نسل کو اپنے ہاتھوں اپنی اقدار،ا پنی شناخت اور اپنے مذہب سے بدظن کررہے ہیں۔ ضیاء صاحب نے مطالعہ پاکستان اور اسلامیات کو لازمی کیا تھا کہ نوجوان نسل بہتر پاکستانی اور بہتر مسلمان ہو۔ کیمبرج نے پہلے تو ہوش رُبا طویل نصاب بنایا کہ طلبہ کو ان دو مضامین سے نفرت ہوجاتی ہے پھر چبھتے ہوئے سوال پوچھے جاتے ہیں کہ آپ 1965ء کی جنگ کیوں ہارے؟ 1971ء میں بنگلہ دیش بننے کے بعد دو قومی نظریے کا کیا جواز ہے؟ یہی نہیں اسلامیات میں پوچھا گیا کہ آپ اسی طرح کیوں نماز پڑھتے ہیں؟ عملی زندگی میں ارکان اسلام سے کیا فرق پڑتا ہے؟ نتیجہ یہ ہوا کہ اب گورے کی نظر انتخاب دو قومی نظریے کی بنیاد یعنی اردو زبان پر آکر رک گئی ہے۔ چند سالوں سے جو نصاب ترتیب دیا گیا اس کا آغاز ہی منٹو کے افسانے ’کھول دو‘ سے ہوا قربان جانئے مزتبین پر کہ او لیول کے بچے کو انہوں نے پانی سے گھرا پانی‘ پچھم سے چلی پروا جیسے افسانوں کے قابل سمجھا اور ان کی نظر انتخاب منٹو کے کھول دو اور ٹوبہ ٹیک سنگھ اور آغا حشرکے ڈرامے صلہ ہوس پر ہی رکی۔


یہی نہیں ہر دو سال بعد نصاب اپنی مرضی سے بدل دیا جاتا ہے اور پاکستانیوں کو کہا جاتا ہے بچے کے لکھائی اور ہجوں کے نمبر نہ کاٹیں جبکہ انگریزی پرچے میں اس کا الٹ کیا جاتا ہے۔ نوجوان نسل کی ذہنی نشوونما کرنے کے لئے شعرء میں پروین، فراز اور مومن کی رومانوی غزلیات کو ہی بہتر سمجھا جاتا ہے۔ مخالفین کا منہ بند کروانے کے لئے اقبال کی طلوع اسلام اور شکوہ جواب شکوہ شامل نصاب کردی جاتی ہیں تاکہ اقبال کا شاہین اسے مشکل سمجھ کر چھوڑ دے۔


اس طرح اکثریت A Level میں اردو چھوڑ دیتی ہے اور کئی ادارے تو A لیول میں اردو آفر ہی نہیں کرتے، رہا مسئلہ اولیول کا تو تمام تر کوشش کے باوجود جب نوجوان نسل اردو سے بدظن نہ ہوئی اور اساتذہ جیسے تیسے ’اے‘ گریڈ دلواہی دیتے ہیں تو کیمبرج نے اساتذہ کی مخالف کے باوجود اپنا نصاب مسلط کیا اور نمونے کے پرچے میں حصہ نظم اور حصہ غزل میں چوائس دی۔ تربیت پر آئے کیمبرج کے ممتحین نے بھی یہی بتایا لیکن پرچے میں دونوں غزلیات دے دی گئیں جو کہ نمونے کے پرچے کے برعکس تھا اگر ایسا کرنا ہی تھا تو حصہ شاعری کو مزید دو حصوں میں بانٹنے کی کیا ضرورت تھی، مزید برآں اے لیول میں ہر حصے سے ہمیشہ ایک ایک سوال آتا ہے، اساتذہ اور طلبہ نے اسی پر قیاس کیا اور حصہ نظم اکثریت نے تیار کیا اور اے لیول کی طرز پر حصہ غزل چوائس میں چھوڑ دیا لیکن اب ہوگیا اُس کا الٹ۔ گورنمنٹ کے پرچے ہوتے کوئی مقامی بورڈ یا یونیورسٹی ہوتی تو پرچے کا بائیکاٹ ہوجاتا لیکن کیا کیا جائے اب کے کیمبرج جیسی سوتیلی ماں سے واسطہ پڑا ہے جو طلبہ کی اکثریت کو دانستہ فیل کرکے اردو سے خائف کرنے پر تُلی ہے اور ہمارے ہاتھ بندھے ہیں اتنا پیسہ لگا کر بھی اپنے مضمون کو اپنی مرضی سے پڑھانے سے قاصر ہیں۔ اپنی نوجوان نسل کو ایسا علم دینے پر مجبور ہیں جو ہم نہیں دینا چاہتے۔ اب کس کے در پر دستک دی جائے کیونکہ ’گورا‘ تو صرف میں ٹھیک ہوں کہنے اور سننے کا عادی ہے اسے ایک بیوقوف قوم مل گئی ہے جو اتنے پیسے جمع کروا کر اپنی نسل کو اپنا ہی دشمن بنارہی ہے اور ان کا ایجنڈا پورا کررہی ہے۔ حکومت کو اس صورتحال کا نوٹس لینا چاہیے کہ کم از کم اردو، اسلامیات، مطالعہ پاکستان کا نصاب اور درسی کتب تو ہمیں اپنی مرضی کی لگانے کا اختیار ملے اور کیمبرج اسے سند قبولیت بخشے۔ اگر کچھ نہ ہوا تو شاہد یہ ہم اسی قابل کہیں۔

مزید :

کالم -