کچھ ذکر کوئٹہ کی لوکل بسوں کا
میری اس تحریر کا مقصد یہ بتانا ہے کہ ہم بلوچ جتنا اپنی ثقافت،اپنی آن اور اپنے لوگوں سے پیار کرتے ہیں اْس سے کہیں زیادہ ہمارے دلوں میں اپنے پاک وطن کی محبت موجود ہے۔بلوچ پڑھے لکھے اور با شعور ہیں۔چند مفاد پرستوں کی وجہ سے بلوچوں کو دنیا کے سامنے جس طرح پیش کیا جاتا ہے ویسا کچھ نہیں ہے۔
بلوچستان کی دو چیزیں بہت مشہور ہے ایک مچھ جیل اور دوسرا کوئٹہ کی لوکل بس ۔دونوں میں کچھ بھی فرق نہیں ۔مچھ جیل میں بے مہار قیدی رکھے جاتے ہیں اور لوکل بس میں بے مہار لوگ ۔
اللہ ہمارے ملک کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور دشمنوں کے تمام ناپاک عزائم ناکام بنائیں۔اور ہمارے بھٹکے ہوئے بھائیوں کو راہ راست پر لائے جنہوں نے کوئٹہ کو خون میں نہلایا دیا ہے۔ کوئٹہ میں سب سے زیادہ دھماکے ان بسوں پہ ہوئے ہیں۔ کوئٹہکی لوکل بس سفر کیلئے بہت اچھی ہے مگر ہر روز ان لوکل بسوں میں موبائیل چوری عام ہے حتیٰ کہ میرے ماموں کا موبائیل بھی انہی بس میں ایک لڑکی نے چرا لیا تھا مگر جلدی میں موبائیل کا سوئچ آف کرنا بھول گئی اوربے چاری پکڑی گئی اور پھر کیا تھا۔ لڑکی اتنی رو رہی تھی جیسے اس کے والد کا انتقال ہو گیا ہو۔ ہم نے ماموں کو کہا چلو معاف کر دیتے ہیں۔ اس مرتبہ تھانے لے جائیں گے تو پولیس اس کا کیا حشر کرے گی ،یہ کوئی نہیں جانتا ۔ پھر اس کو معاف کر دیا اور ہم اس بس پہ آگے سفر کرنے لگے مگردونوں ہاتھوں سے جیب کو پکڑے ہوئے سفر ختم کیا۔ اس روز کے بعد آج تک ماموں نے لوکل بس کا سہارا لینا چھوڑ دیا اور آج تک لوکل بس سے توبہ توبہ کر رہے ہیں۔
جس طرح کو ئی نیا مجرم جرم سے قبل دس مرتبہ سوچتا ہے اور پندرہ دفعہ ہچکچاتا ہے،کوئٹہ کا ہر شہری کسی بھی پبلک بس میں سفر کرنے سے پہلے اسی کیفیت سے گزرتا ہے۔پبلک بسوں میں سفر کرنے سے پہلے شہریوں کو بہت سے سوالات پر سنجیدگی سے غور کرنا پڑتا ہے۔اتنا غور اگر سی ایس ایس کے امتحانی سوالات پر کیا جائے تو وہ بھی حل ہوجائیں گے۔
مثال کے طور پر ’’کیا بس میں چڑھنے سے پہلے ہم جتنے خوشحال تھے ،بس سے اترنے کے بعد بھی وہ مالداری برقر ار رہے گی؟ اگر نہیں تو آپ کی جیب کٹ چکی ہے۔
جس شریفانہ حلیئے اور بْشرے کے ساتھ بس میں سوار ہورہے ہیں کیا اترتے وقت بھی شائستگی کی کوئی جھلک پائی جائیگی؟ اس کا مطلب صاف ہے واپسی پہ آپ کے گھر والے بھی آپ کو نہ پہچان پائیں گے ۔
کیا اس لوکل سفر کے بعد کوئی اور سفر بھی نصیب ہوگا؟
لٹکتے ہوئے گر گئے تو صرف ٹانگیں ٹوٹیں گی یا ٹرک کے نیچے آکر سیدھے مردہ خانے شفٹ ہونگے؟ اور تو اور کوئٹہ میں مردے خانے کی بھی لمبی فیس ہے توبہ توبہ۔
سلنڈر دھماکے میں ناقابل شناخت ہونے پر جسم کے کس حصے سے ڈی این اے ٹیسٹ لیا جائیگا؟
پھر اِدھر کی لاش اُدھر اور اُدھر کی دریا کے پار چلی جاتی ہے۔ کوئٹہ کی لوکل بس کی ایک ایسی خاصیت وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں وہ ہے میوزک۔
بس میں میوزک کے ذریعے جو تشدد ہوگا،اس سے صرف قوت سماعت متاثر ہوگی یا ایمان بھی؟ اکثر لوگوں کے دونوں ہو جاتے ہیں
کوئٹہ کی بسوں میں عام بات ہے تیز میوزک۔
اوور ٹیک کرتے ہوئے اگر بس الٹ گئی تو جسم کی کتنی ہڈیاں ناکارہ ہونگی یہ کوئی نہیں جانتا ۔
کوئٹہ شہر میں600 سے زائد لوکل بسیں چلتی ہے جن میں70 فیصد لوکل بسوں کے ڈرائیور براہیوی بولتے ہیں اور 30فیصد پشتو بولتے بھی اور سمجھتے ہیں۔ ان کا رویہ عجیب ہے، آپ ان کو دیکھتے ہی رہ جائیں گے کہ ایسے لوگ بھی دنیا میں ہیں۔لوکل بسوں پر روزانہ چوریاں عام ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ چور بھی ان بس والوں نے پال رکھے ہوتے ہیں۔
کوئٹہ کی اہم شاہراہوں پر لوکل بسیں چلتی نہیں بلکہ دوڑتی ہیں جس کی وجہ کئی حادثات رو نما ہو چکے ہیں اور کئی لوگ چھتوں سے گر چکے ہیں۔
اکثر بسوں کی کھڑکیاں تک نہیں ہوتیں جس کی وجہ سے سردیوں میں لوگ بہت تنگ ہوتے ہیں اور کھڑکی والی بسوں کو ڈھونڈاجاتا ہے ۔ حکومت نے انہی پرانی اور ناکارہ بسوں کی مرمت کا پابند مالکان کو کیا تھا جس پر انہوں نے من وعن عمل کیا مگر اس کے باوجود محکمہ آر ٹی اے نے ان کی130 بسوں کی روٹ پرمٹ بھی منسوخ کر کے ان کے روٹ بند کر دئیے تھے جس کی وجہ سے ان کو مالی معاشی مشکلات کا سامنا کر نا پڑامگروزیروں کی سفارشات لے کر وہ ان بسوں کو دوبارہ روٹ پر لے آئے۔
لوکل بس والے من بھایا کرایہ وصول کرتے ہیں۔ ضلعی انتظامیہ اور لوکل بس ایسوسی ایشن کے ٹرانسپورٹروں کے درمیان ڈپٹی کمشنر آفس میں ایک فیصلہ کیا گیا تھا کہ اسٹوڈنٹس کیلئے 10 روپیہ کرایہ اور عام آدمی کیلئے 20 روپیہ کرایہ رکھاجائے گا جس پہ تاحال عمل درآمدنہیں کیا گیا۔
کوئٹہ شہر سے تمام بس اڈوں کو ہزار گنجی کوئٹہ شہر سے باہر منتقل کیا گیا ہے۔حکومت بلوچستان نے محکمہ کیو ڈی اے کو ہدایات جاری کر دی تھی کہ ہزار گنجی میں ٹرانسپورٹروں اور عوام کو سہولیات فراہم کرنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے جائیں۔ جو آج تک نہیں اٹھائے گئے جس سے وہاں بھی تاجر مشکلات کا شکار ہیں۔
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔