رمضان المبارک اور خود ساختہ مہنگائی
اسلامی مہینوں میں رمضان المبارک کا مہینہ مسلمانوں کے لئے خاص رحمتوں اور برکتوں والا مہینہ ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان اس ماہ مقدس کے فیوض و برکات سے زیادہ سے زیادہ اور پوری طرح استفادہ کرتے ہیں ۔
ارشاد ہوا کہ ’’تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں، جس طرح تم سے پہلی امتوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم متقی اور پرہیز گار بن سکو‘‘۔ خیر اب متقی اور پرہیز گار بننے کے لئے ضروری ہے کہ ہماری عبادات ، معاملات اوررویوں میں مثبت تبدیلی آئے، لیکن بد قسمتی سے ہم نے اس کے لئے اپنے الگ الگ پیمانے بنا رکھے ہیں،جہاں تک عبادات کی بات ہے تو اس ماہِ کریم کے شروع ہوتے ہی مساجد نمازیوں سے بھری بھری دکھائی دینے لگتی ہیں اور مسلمان بھائیوں کا خشوع و خضوع نقطہ عروج پر ہوتاہے،جو یقیناً دلی طمانیت کا باعث بنتا ہے ۔
خواہش ہے کہ یہ جوش و خروش پورا سال جاری رہنا چاہئے ، جہاں تک عام زندگی کے معاملات کی بات ہے تو افسوس کہ اس با برکت مہینے میں بھی ہمارے اندر کوئی واضح تبدیلی رونما نہیں ہوتی،جس پر بحیثیت مجموعی ہم سب کو فکر مند ہونے کی ضرورت ہے۔
ایک دوسرے کے ساتھ ہمارے معاملات اس حد تک قابلِ رحم ہیں کہ بس اللہ معاف کرے ،حسد،کینہ ، بغض، چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائی جھگڑے، الغرض شاید ہی کوئی معاشرتی برائی ہو جوہمارے معاشرے میں بدرجہ اتم نہ پائی جاتی ہو، لیکن آج کے اس کالم میں ہم صرف نا جائز منافع خوری اور خود ساختہ مہنگائی پر بات کریں گے۔قارئین محترم!آپ اچھی طرح جانتے ہیں ہمارے یہاں ماہ صیام کی آمد کے ساتھ ہی گراں فروشوں کی تو گویا چاندی ہو جاتی ہے۔
یہ حضرات کمر کس لیتے ہیں کہ اس ایک مہینے میں ہی کیسے سال بھر کا منافع اکٹھا کیاجائے۔ ایک طرف تو اسلامی نقطہ نظر سے ذخیرہ اندوزی کو ممنوع قرار دیا گیا ہے، لیکن دوسری طرف بڑے بڑے تاجر حضرات (سارے نہیں) کھانے پینے کی اشیاء تک جان بوجھ کرا سٹاک کرلیتے ہیں، جس کی وجہ سے انہیں تو خاطر خواہ نفع حاصل ہو جاتا ہے، لیکن عوام پر مہنگائی کا ایک اور بم گرتا ہے ۔
یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عوام سے جو کروڑوں روپے ناجائز طریقے سے نکالے جاتے ہیں روز محشر اس کا جواب دہ کون ہو گا؟ اب ان بڑے کاروباری حضرات کے نقش قدم پر چلتے ہوئے چھوٹے دکاندار بھی عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے سے نہیں چوکتے،جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ ایک ہی شہر میں دو مختلف دکانوں پر آپ کو ایک ہی چیز مختلف نرخوں پر ملے گی ۔ ریٹ کا یہ فرق ہر شہر میں دیکھنے کو ملتا ہے۔
مطلب جس کا جتنا زور چل گیا اس نے اتنا ہی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لیا اور خود ساختہ مہنگائی کی اصل اور بنیادی وجہ بھی یہی ہے۔ حکومتی اور انتظامی اداروں کی طر ف سے بعض اوقات دکانداروں کو ہزاروں روپے جرمانے کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، لیکن انتظامیہ کے وہاں سے جانے کے تھوڑی دیر بعد ہی اشیاء پہلے سے بھی زیادہ مہنگی کردی جاتی ہیں ۔
بعض دکانداروں سے تو یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ جرمانہ ہو گیا ہے تو کوئی بات نہیں ہم نے بھی اپنا نقصان عوام سے ہی پورا کرنا ہے۔ خیر اس خود ساختہ مہنگائی پر کچھ دکاندار حضرات نے بتایا کہ ریٹ بڑی منڈیوں کے لحاظ سے نکلتے ہیں،جبکہ انہیں چھوٹی منڈیوں سے چیزیں مہنگے داموں ملتی ہیں۔
اس کے علاوہ شہر ی منڈیوں سے دور درازکے علاقے کے لوگوں کا موقف ہے کہ انہیں کرایوں کی مد میں کافی رقم دینا پڑتی ہے وہ بھی تو پورا کرنا ہوتی ہے، جہاں تک منڈیوں کے ریٹ کی بات ہے تو ایسے مناسب ریٹ نکالے جائیں کہ نقصان کسی کا بھی نہ ہو اور شہر کی منڈیوں سے دور تاجر حضرات بلاشبہ اپنا منافع پورا کریں، لیکن ناجائز منافع ہرگز نہیں۔
اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ بازار میں سبزی اور فروٹ لینے والے روزہ داروں کی کھال، جس حد تک ممکن ہو اتاری جاتی ہے، خاص طور پر فروٹ تو اس قدر مہنگا ہو چکا ہے کہ عام آدمی تو بیچارہ خریداری کا سوچ بھی نہیں سکتا ، بات صرف اشیاء کو مہنگا کرنے تک ہی محدود نہیں، بلکہ ناپ تول میں ڈنڈی مارنا، دونمبر اشیاء فروخت کرنا،اور اپنی پسند کا ریٹ لگا نا بھی معمول کا حصہ بن چکے ہیں۔
اس سب کے لئے لاء اینڈ آرڈر بھی ضروری ہے، جس پر عملدرآمد کی پوری کوشش بھی کی جاتی ہے، لیکن سب سے اہم بات کہ اپنے اندر کی انسا نیت کو جگایا جائے ۔اگر ہمارے تاجر اور دکاندار حضرات اس مہینے میں ناجائز منافع خوری چھوڑ کر صرف جائز منافع پر ہی اکتفا کرلیں تو امید ہے کہ نہ وہ کنگال ہوں گے اور نہ ہی ان کی آمدن پر کچھ خاص فر ق پڑے گا۔
البتہ ان کے دوسرے مسلمان بھائی تھوڑا سُکھ کا سانس ضرور لیں گے۔حکومت کی طرف سے اسی مہنگائی کے پیش نظر سستے رمضان بازاروں کا جراء کیا جاتا ہے، جو نہایت خوش آئند بات ہے ۔ ان رمضان بازاروں میں اشیائے خور و نوش کافی سستی مل جاتی ہیں، لیکن یہ رمضان بازار ملک بھر میں جگہ جگہ نہیں لگا ئے جاسکتے اور چھوٹی چھوٹی اشیائے صرف خریدنے کے لئے دور دراز کے علاقوں کے لوگ بھی روزانہ رمضان بازاروں کا رُخ نہیں کرسکتے،جو لوگ ان رمضان بازاروں سے مستفید ہورہے ہیں وہ تو ٹھیک ہیں اور جو وہاں تک نہیں پہنچ پاتے تو ہماری تاجروں سے گزارش ہے کہ وہ اپنے طور پر اگر چیزیں تھوڑی سستی کردیں تو کوئی خاص حرج نہیں، کیونکہ انسان دوست اور ایماندار تاجر حضرات کے لئے اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بڑا اجر و ثواب ہے یاد رہے کہ رمضان المبارک میں کئی غیر مسلم ممالک میں مسلمانوں کے لئے اشیائے خور ونوش کی قیمتوں میں پندرہ سے بیس فیصد کمی کر دی جاتی ہے، لیکن دوسری طرف ہمارے یہاں مہنگائی مافیا کیا کرتا ہے؟ ہمیں ضرور سوچنا ہو گا۔