ڈاکٹر عامر لیاقت حسین آج تحریک انصاف چھوڑ دینگے ، شمولیت پر اعتراض ہوا تو عمران خان نے کہا’میڈیا کے محاذ پر ہمیں ان کی ضرورت ہے‘
تجزیہ : قدرت اللہ چودھری
ڈاکٹر عامر لیاقت حسین آج تحریک انصاف کو بھی خیر باد کہہ دیں گے جس میں وہ بقول خود اپنا گھر سمجھ کر شامل ہوئے تھے لیکن اس گھر کے کچھ لوگ اتنے ظالم ثابت ہوئے کہ انہیں یہ گھر چھوڑ ہی دینا پڑا، ابھی زیادہ عرصہ نہیں گذرا وہ بڑے طمطراق کے ساتھ تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے اگرچہ پارٹی کے اندر بہت سے لوگ ان کی شمولیت کے نہ صرف خلاف تھے بلکہ اس کے خلاف مظاہرے بھی کئے جا رہے تھے لیکن آپ جانتے ہیں تحریک کے فیصلے کپتان کرتا ہے اور کسی کی مجال نہیں کہ ان کے کسی فیصلے کے خلاف احتجاج کر سکے،
ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کی پارٹی میں شمولیت کے خلاف جب اندر سے احتجاج ہوا تو عمران خان نے حسبِ معمول ویٹو کا حق استعمال کرتے ہوئے اعلان کیا کہ کسی کو پسند ہو یا نہ ہو، وہ ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کو پارٹی میں شامل کر رہے ہیں کیونکہ میڈیا کے محاذ پر ہمیں ان کی ضرورت ہے، اس پر وہ لوگ تو خاموش ہو گئے جو عمران خان کے چشم و ابرو کے اشارے سمجھتے ہیں لیکن بعض کورذوق لوگ پھر بھی عامر لیاقت حسین پر تنقید کرتے رہے ۔
ایک ماہ پہلے اس تجزیہ نگار نے اپنی یہ رائے ریکارڈ کرا دی تھی کہ عامر لیاقت تحریک انصاف بھی چھوڑ جائیں گے اس قیاس کی بنیاد دو واقعات تھے ایک تو انہوں نے ایک ٹی وی پروگرام میں کھل کر یہ رائے دی کہ مسلم لیگ (ن) اب بھی پنجاب سے کم و بیش سو نشستیں جیت سکتی ہے اور دوسری یہ کہ ان حالات میں بھی مسلم لیگ (ن) کو ہرانا آسان نہیں، یہ الفاظ جب ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کی زبان سے نکلے تو ناظرین و سامعین تو خیر ششدر تھے ہی ،انیکر بھی حیران ہو گئے اور انہیں یہ تک کہنا پڑا کہ آپ کی وجہ سے تو میرا پروگرام ہی پھیکا پڑ گیا ہے، کیا آپ گھر سے سوچ کر آئے تھے کہ یہ جواب دینا ہے تو ڈاکٹر عامر لیاقت کو کہنا پڑا کہ بھائی مجھے اللہ کو جان دینی ہے، میں زمینی حقائق دیکھ بھال کر بات کر رہا ہوں، لگتا یوں ہے کہ تحریک انصاف کے کسی خود ساختہ ترجمان نے ڈاکٹر صاحب کی یہ رائے نوٹ کر لی تھی جو بنی گالہ تک پہنچی ہو گی تو فیصلہ ہو گیا ہو گا کہ اس شخص کو ٹکٹ نہیں دینا یہاں یہ بتا دینا ضروری ہے کہ ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کراچی کے حلقہ این اے 245 سے پارٹی ٹکٹ کے امیدوار تھے، یہ حلقہ بہادر آباد، شرف آباد وغیرہ پر مشتمل ہے بہادر آباد میں ان دنوں ایم کیو ایم کے اس دھڑے کا دفتر ہے جو خالد مقبول صدیقی کی قیادت میں کام کر رہا ہے اور ڈاکٹر فاروق ستار سے بغاوت کر چکا ہے۔
عامر لیاقت حسین جب تحریک انصاف میں شامل ہورہے تھے تو علی زیدی اور فردوس شمیم نقوی ان کی مخالفت میں پیش پیش تھے لیکن پارٹی چیئرمین کے فیصلے کے بعد انہیں سر تسلیم خم کرنا پڑا، اب جب ٹکٹوں کی تقسیم کا وقت آیا تو این اے 245کا ٹکٹ مولوی محمود کو دے دیا گیا جو ایک کامیاب کاروباری شخصیت ہیں اور کراچی میں جس عمارت کے اندر تحریک انصاف کا دفتر ہے وہ انہی کی عطیہ کی ہوئی ہے اس عمارت کو اب انصاف ہاؤس کہا جاتا ہے، اسی عمارت میں گزشتہ روز کارکنوں نے ہنگامہ کر دیا اور توڑ پھوڑ بھی کی، یہ لوگ ٹکٹوں کی تقسیم کے فیصلوں پر احتجاج کر رہے تھے، مولوی محمود پاکستان سٹاک ایکسچینج کے رکن ہیں اور چاول کے بڑے ایکسپورٹر ہیں۔
عامر لیاقت حسین اسی حلقے سے ٹکٹ مانگ رہے تھے جو انہیں نہیں دیا گیا تو انہوں نے پارٹی چھوڑنے میں کوئی تاخیر نہیں کی وہ آج اپنے اگلے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے اور امکان ہے کہ وہ پاک سر زمین پارٹی میں شامل ہو جائیں گے جس میں ایم کیو ایم کے سابقین بڑی تعداد میں شامل ہو رہے ہیں یہ واحد پارٹی ہے جو کوئی انتخاب لڑے بغیر بہت سے ارکان اسمبلی کو اپنے میں شامل کر چکی تھی اب اسمبلیوں کے خاتمہ کے بعد یہ ارکان بھی سابق ہو گئے ہیں تو یہ سوال اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ کیا اگلے انتخابات میں مہاجر ووٹ ایم کیو ایم (پاکستان) کو ملے گا یا پی ایس پی کو ،مہاجروں کے نام پر کئی عشروں تک کراچی کی سیاست کو جس انداز میں کنٹرول کیا گیا اب شاید وہ وقت لوٹ کر نہ آئے اور مہاجروں کی نمائندگی کے دعویدار گروپوں میں ووٹ تقسیم ہو جائے، جس کا ایک ذائقہ ایم کیو ایم پاکستان سینیٹ کے الیکشن میں چکھ چکی ہے جب اس کے بہت سے ووٹ بک گئے اور بعض ارکان نے تو اس واقعہ کے بعد پارٹی بھی چھوڑ دی اور پیپلزپارٹی میں شامل ہو گئے ۔
اب کاغذات نامزدگی کی وصولی آج سے شروع ہو گی تو اندازہ ہو گا کہ کون سا امیدوار کس آشیانے پر کھڑا ہے، عامر لیاقت حسین تو تحریک انصاف سے شتابی کے ساتھ تعلق منقطع کر گئے البتہ یہ سوال باقی ہے کہ کیا وہ کسی دوسری پارٹی کے ٹکٹ پر حلقہ 245سے انتخاب لڑ کے جیت سکتے ہیں؟ اس کا انحصار بھی مہاجروں کے ووٹ کی تقسیم اور عدم تقسیم پر ہے۔
عامر لیاقت