یو ٹرن یا اباوٹ ٹرن
کیسے لوگ ہیں ،یہ بھی کوئی موقع ہاتھ سے جانے ہی نہیں دیتے،پی ٹی آئی کے فیصلہ ساز اور پھر ان کے نقاد۔وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ،ہم اپنی وضع کیوں بدلیں۔تحریک انصاف بھی کیا جماعت ہے؟ اس وقت تو اس کا بول بالا ہے،دھڑا دھڑ الیکٹیبلز اس کا رخ کر رہے ہیں اور اس کے باہر اور اندر،دوست دشمن ہر کوئی اس کے متعلق فیصلہ ساز بنا پھرتا ہے۔ میاں محمود الرشید کچھ کہتے ہیں ، فواد چودھری کچھ اور سو عمران خان کیا کرے۔اسے سب کی سننی پڑتی ہے مگر یہ بات خوش آئیند تو ہے کہ وہ سب کی سنتا ہے۔ورنہ ہماری سیاسی جماعتیں بات جمہوریت کی کرتی ہیں مگر سنتی کسی کی نہیں۔
گئے وقتوں میں مجید نظامی مرحوم کہا کرتے تھے بینظیر کسی کی سنتی نہیں اور نواز شریف سمجھتے نہیں۔ وہ ٹھیک کہتے تھے ، (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی ایسی جماعتیں ہیں جہاں کسی کارکن یا لیڈر کی کوئی سنی ہی نہیں جاتی ، پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں کے مصداق وہاں ہر کوئی میاں نواز شریف اور آجکل تو انکی صاحبزادی مریم نواز کے فیصلوں کی طرف ہی دیکھ رہا ہوتا ہے۔ خالصہ جی نے جو کہہ دیا سو کہہ دیا ،اپنے تئیں کام کرنے والے اور اپنا مختلف نکتہ نظر رکھنے والے میاں شہباز شریف بھی آخرکار وہی بیانیہ اپناتے ہیں جو بڑے بھائی کا ہے۔اسی طرح آصف زرداری تو بلاول کی نہیں سنتے کسی دوسرے لیڈر یا کارکن کی کیا سنیں گے،ہاں وہ اپنی بہن فریال بی بی کی بات بہت سنتے ہیں،ادھی کا اشارہ ہی کافی ہوتا ہے ،اسی سے ان کا فائدہ ہو جاتا ہے۔
پچھلے دنوں میں نے تحریک انصاف کے بار بار بدلتے ہوئے ان فیصلوں پر کافی تنقید کی تو تحریک کے سینکڑوں حامیوں نے مجھے فون کر کے بعض وضاحتیں بھی دیں۔ان کی بہت ساری باتیں درست بھی تھیں۔سیاسی جماعتوں کی بڑی مجبوریاں بھی ہوتی ہیں۔بحرحال آج کل ہر کوئی پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان کے حوالے سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ یہ یوٹرن لے لیتے ہیں اور اپنے فیصلے بدل لیتے ہیں۔عمران خان کہتے ہیں کہ دیر آید درست آید، اگر کوئی غلطی ہوجائے او راس کو ٹھیک کرلیا جائے تو اس میں کسی قسم کی کوئی قباحت نہیں ہوتی۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ پاکستان تحریک انصاف کا خاصہ ہے کہ وہ اپنی کسی بھی غلطی کا ادراک ہوتے ہی اپنے غلط فیصلے کی تصحیح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ با ت یہ نہیں کہ تحریک انصاف کے فیصلے غلط ہوتے ہیں دراصل حقیقت یہ ہے کہ ابھی یہ جماعت اقتدار کے ایوانوں میں نوآموز ہے ۔پاکستان کے ایک چھوٹے صوبے پر پہلی دفعہ حکومت کرنے کے علاوہ ان کے پاس کوئی تجربہ نہیں ہے۔ان حالات میں پی ٹی آئی کا نگران وزیراعلیٰ کے لیے اپنا ہی دیا گیا ناصر محمود کھوسہ کا نام سنی سنائی باتوں پر واپس لے لینا انکی غلطی ہے مگر دوسری طرف فاروق بندیال کو پارٹی سے نکالنے کا فیصلہ بہت اچھی بات ہے۔ فاروق بندیال کا ماضی ان کے لئے قابل ستائیش تو نہیں ہے مگر سوچنے والی بات ہے کہ یہی بندیال مریم بی بی کو چادر پہنائیں تو ٹھیک اور عمران خان سے پی ٹی آئی کا جھنڈا پہنیں تو غلط۔ ہو سکتا ہے کہ تحریک انصاف سے لوگوں کو اچھے کی امیدیں کچھ زیادہ ہیں۔
پی ٹی آئی کے حوالے سے اہم او رخوش آئند بات تو یہ بھی ہے کہ پانچ سال تک کے پی کے میں حکومت کرنے کے باوجود آج بھی کوئی شخص پی ٹی آئی کی قیادت اور خاص کر عمران خان کی ذات پرانگلی نہیں اٹھا سکا کہ انہوں نے کوئی کرپشن کی ہے اور یہ پاکستا ن کی سیاست میں پہلی دفعہ دیکھنے کو مل رہا ہے اور اس حد تک عمران خان نے اپنا وعدہ سچ کردکھایا ہے۔چاہے مخالفین احتساب کمیشن اور دیگر معاملات پر یا گورننس کے ایشورز پر پی ٹی آئی پر جتنے بھی الزامات لگائیں لیں عمران خان نے ثابت کیا ہے کہ وہ نہ تو کسی اتحادی سے اس عرصے میں بلیک میل ہوئے نہ ہی انہوں نے کسی کی کرپشن پر کوئی کمپرومائز کیا۔کرپشن،دو نمبری اور بلیک میلنگ کی سیاست کے حوالے سے انہوں نے ٹرن ضرور لیا ہے بلکہ اباوٹ ٹرن لیا ہے۔
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔