اقتدار کے لئے بے صبری

اقتدار کے لئے بے صبری
اقتدار کے لئے بے صبری

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہماری آج کی اپوزیشن کل کی بے مثال حکمران تھی۔ اس بے صبری کا ذکر کروں گا جو کل کی حکمران اور آج کی اپوزیشن جماعت حصول اقتدار کے لئے کر رہی ہے۔ آج کی اپوزیشن کو سب سے بڑا اعتراض یا حکومت پر الزام ہے کہ وہ 2018ء کے الیکشن میں دھاندلی کر کے اقتدار میں آئی ہے۔ ویسے تو ہماری جمہوریت دھاندلی سے شروع ہوتی ہے اور دھاندلی پر ختم ہوجاتی ہے۔ بڑی حیران کن اور شرم کی بات ہے کہ جو لوگ 10-15 سالوں میں سائیکل سے پجارو اور لینڈکروزروں اور شاہی محلات تک پہنچ گئے ہیں۔ وہ بھی عمران خان پر کرپشن اور اقربا پروری کا الزام لگارہے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ عمران خان کی حکومت میں بھی اکثر نمائندوں اور وزیروں مشیروں کی سابقہ حکومتوں میں شامل حضرات کی ہے۔ لیکن کیا انسان، بندہ یا نمائندہ اپنے اچھے حکمران لیڈر کے ساتھ اپنا کردار بدل نہیں سکتا۔ سابقہ حکومت کی دھاندلی کے خلاف عمران خان آواز اٹھانے والا واحد لیڈر تھا۔ جس نے اکیلے ہی احتجاج کیا بے چارہ عمران خان اس مبینہ دھاندلی کے خلاف ملک کے ایک کونے سے لیکر دوسرے کونے تک چلا، سابق حکمران اسکو دیوانے کا شور کہتے رہے اور عمران خان کے خلاف خصوصی لوگ جو سرکاری خرچے پر زندگی گزارتے تھے۔ وہ سب سے زیادہ عمران خان کے خلاف ہیں جن کا مقصد اسلام کے نام پر اسلام آباد ہوتا تھا۔ وہ اب سب سے زیادہ ملک اور عوام کے خیرخواہ بن رہے ہیں سابقہ حکومت نے جب آئینی مدت پوری کر لی تو اس کامیابی اور کارگزاری کا پل باندھتے رہے اور کہتے رہے کہ یہ واحد جماعت ہے جس نے آئینی مدت پوری کی ہے اصولاً اور اخلاقاً اور جمہوری قدروں کے مطابق آج کی اپوزیشن کا فرض ہے کہ موجودہ حکومت کو اطمینان اور سکون سے پانچ سال پورے کرنے دے لیکن جیلوں میں بیٹھ کر بھی حکومت کے خلاف سازشیں کی جارہی ہیں۔ اپوزیشن کو خصوصاً نوار شریف اور شہباز شریف خاندان کوملک کی اعلیٰ عدالتیں انصاف فراہم کر رہی ہیں۔
ہماری اپوزیشن نے شاید متفقہ یا علیحدہ علیحدہ اپنے اپنے مفاد کے لئے فیصلہ کر لیا ہے کہ عمران خان کو حکومت کی آئینی مدت پوری نہیں کرنے دینی، ایک شہزادے تو کہہ رہے ہیں کہ بس اب بہت ہوچکا اب مزید صبر نہیں ہوگا اب کچھ بھی کرنے کے لئے تیار ہوں اس طرح کے نعرے اور باتیں سن کر سمجھ آئی ہے کہ اقتدار کے لئے وہ کچھ بھی کرنے کے لئے تیار ہیں بلاول بھٹو زرداری ماشاء اللہ بہت اچھا نوجوان لگتا ہے۔ ناناجی کے قاتلوں اور دشمنوں سے پہلے اپنی والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو تلاش کریں آخر کب تک جھوٹی باتیں عوام سنیں گے۔ محترمہ ایک عظیم لیڈر تھیں بلاول کو اپنی والدہ کے دشمنوں کو تلاش کرنا ہوگا ان کا نام لیکر اقتدار میں آنے والوں کا پتہ کرنا ہوگا ور ان کے خاص ساتھی شہنشاہ کو مروانے والوں کاپتہ کرنا ہوگا، اس کے بعد پاکستانی عوام اسکی بات پر یقین کریں گے یہ باتیں لکھنا حالات کا تقاضا ہے عوام کی ضرورت ہے۔ پاکستانی عوام کی خواہش ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو سامنے لایا جائے۔ لیکن جو لوگ اپنی 5 سال کی حکومت میں اپنے لیڈر کے قاتلوں کو نہیں پکڑ سکے اب وہ عمران خان سے کیا مطالبہ کر رہے ہیں۔ پاکستانی عوام کی یاد دہانی کے لئے جس جس نے بھی خداداد مملکت پاکستان کو نقصان پہنچایا اس کا حشر سبق آموز ہوا ہے۔ اور آنے والے وقتوں میں بھی ان شاء اللہ ملک کے دشمنون کے ساتھ سبق آموز کہانیاں لکھی جائیں گی۔ عمران خان پر عوام کا اعتماد پختہ ہوگیا ہے۔ اس لئے عوام مہنگائی جیسی صورت حال کو خوش دلی سے قبول کر رہے ہیں عمران خان کے مخالف خاص بھی برف سے زیادہ ٹھنڈے ہو گئے ہیں مسئلہ کسی جماعت کی حمایت کا نہیں بلکہ اس ملک میں ایسی حکومت کا قیام ہے جس کا پہلا اور آخری مقصد عوام کے مسائل کا حل ہو، بد قسمتی سے ایک بھی حکومت ایسی نہیں آئی جو اس شرط پر پوری اتر سکے اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام کے مسائل کے انبار لگ گئے ہر آنے والی حکومت نے مسائل میں اضافہ کیا وجہ یہ ہے کہ کسی حکومت کو اپنے طبقاتی کردار کی وجہ سے یہ توفیق ہی نہیں ہوئی کہ وہ اپنی خصوصی مصروفیت کو چھوڑ کر عوام کے مسائل پر توجہ دے مثال کے طور پر ملک میں 10-15 سال سے بجلی کی سخت قلت ہے لیکن اس طرف توجہ نہیں دی گئی اپنے حمایتیوں کو فائدہ دینے کے لئے ملک کا نقصان کیا گیا کسی ملک میں ایسا ہوا ہو کہ 10 سال سے زیادہ عرصے تک عوام بجلی کی کمی کا شکار رہے ہوں اور اس سے عوام کو نجات نہ دلائی گئی ہو پاکستان غالباً اس خطے کا واحد ملک ہے جہاں اتنے طویل عرصے سے بجلی کی قلت کا سامنا ہے حکومت کو اقتدار سنبھالے ابھی ساڑھے 9ماہ ہوئے ہیں اور زیادہ سنجیدہ مسائل حکومت کے سامنے ہیں لیکن بجلی کے مسئلے کو ترجیح دے کر اس پر تیزی سے کام کیا جانا چاہئے حکومت کو اقتدار سے ہٹانا اپوزیشن کی پہلی ترجیح بن جائے تو عوام کے مسائل کے حل پر غور کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت کو اتنا وقت ملا ہے کہ وہ ملک کے اہم مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرے۔

مزید :

رائے -کالم -