2013 میں لندن فلیٹس کی ٹرانزیکشنز ہوئیں،اس وقت کے قانون کے تحت یہ منی لانڈرنگ نہیں تھی ،جسٹس منیب اختر

2013 میں لندن فلیٹس کی ٹرانزیکشنز ہوئیں،اس وقت کے قانون کے تحت یہ منی لانڈرنگ ...
2013 میں لندن فلیٹس کی ٹرانزیکشنز ہوئیں،اس وقت کے قانون کے تحت یہ منی لانڈرنگ نہیں تھی ،جسٹس منیب اختر

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)سپریم کورٹ میں سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کیخلاف درخواستوںپر سماعت کے دوران جسٹس منیب اختر نے کہاکہ آپ کا مقدمہ ٹیکس قانون،فارن ایکس چینج اورمنی لانڈرنگ کے الزامات کاہے ،کیااے آر یو نے معاملے کی تحقیقات کیں؟،اے آر یو نے ایف بی آر اور ایف آئی اے سے مدد لی،اے آر یو قواعد کے مطابق یہ مقدمہ نیب یاایف بی آر کو بھیجنے کا مجاز تھا، جسٹس منیب اختر نے کہاکہ2013 میں لندن فلیٹس کی ٹرانزیکشنز ہوئیں،اس وقت کے قانون کے تحت یہ منی لانڈرنگ نہیں تھی ۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کیخلاف صدارتی ریفرنس کے معاملے میں سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کیخلاف درخواستوںپر سماعت ہوئی،جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں لارجربنچ سماعت کررہاہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ ہم آپ کے حقائق سے لطف اندوز ہو رہے ہیں ،آپ بھی ہمارے سوالو ںکو انجوائے کرتے اور ان کی تعریف کرتے ہیں ،جسٹس مقبول باقر نے کہاکہ اے آر یو نے وحید ڈوگر کی درخواست پر لندن سے معلومات لینا شروع کردیں،جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہاکہ اے آر یو کے قواعدکے مطابق ٹیکس کے معاملات ایف بی آر کو جانے تھے ،جسٹس منصورعلی شاہ نے کہاکہ اے آر یو عام لوگوں کے بارے میں خفیہ معلومات کیسے اکٹھی کر سکتا ہے؟جسٹس منیب اختر نے کہاکہ آپ کا مقدمہ ٹیکس قانون،فارن ایکس چینج اورمنی لانڈرنگ کے الزامات کاہے ،کیااے آر یو نے معاملے کی تحقیقات کیں؟،اے آر یو نے ایف بی آر اور ایف آئی اے سے مدد لی،اے آر یو قواعد کے مطابق یہ مقدمہ نیب یاایف بی آر کو بھیجنے کا مجاز تھا۔
جسٹس مقبول باقر نے کہاکہ اس ساری کارروائی کے سنگین نتائج ہوں گے ،اے آر یو نے نتیجہ کیسے اخذکیا منی لانڈرنگ ہوئی ہے؟،جسٹس منیب اختر نے کہاکہ2013 میں لندن فلیٹس کی ٹرانزیکشنز ہوئیں،اس وقت کے قانون کے تحت یہ منی لانڈرنگ نہیں تھی ۔