”مسیحاتھا، نہ رہا“

 ”مسیحاتھا، نہ رہا“
 ”مسیحاتھا، نہ رہا“

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 ڈاکٹر مصطفی نے ہمیں تجویز کیاکہ حاجی صاحب کو ڈائلسز کے لئے ذہنی طور پر تیار کریں۔ ڈائلسز کا سنتے ہی حاجی صاحب کہنے لگے”مجھے ایک دفعہ ڈاکٹر ارشاد کے پاس لے چلیں۔ خواہ آپ اس کو میری آخری خواہش سمجھیں،ضِد یا منت سمجھیں،مگر مجھے ایک بار ڈاکٹر ارشاد کے پاس ضرور لے چلیں“۔حاجی سکندر علی جن کی عمر اسی سال سے زیادہ تھی، اُن کے گردے صحیح طرح کام نہیں کر رہے تھے اور گردوں کی خام فعلی کی سطح پانچ سے تجاوز کر چکی تھی۔اُن کا جسم چہرے سے لے کر پاؤں تک سوج چکاتھا۔وہ علاج کی غرض سے الائیڈ ہسپتال میں اپنے نواسے ڈاکٹر مصطفی، جو وارڈ کے انچارج بھی تھے،کی نگرانی میں زیرِ علاج تھے۔ڈاکٹر مصطفی اور اُن کے ہم پیشہ کئی ایف سی پی ایس ماہرین ان کو ترجیحی مریض کے طور پردیکھ رہے تھے۔
ڈاکٹر ارشاد نے پچاس کی دہائی کے اختتام پر وکٹوریہ ہسپتال بہاولپور سے ایل ایس ایم ایف کی ڈگری حاصل کی۔اس کی ڈگری کے حامل ڈاکٹروں کو مضافاتی ابتدائی طبی مراکز میں تعین کیا جاتاتھا اور شہروں میں اُنہیں تعیناتی کا استحاق حاصل نہ تھا۔تاہم یہ لوگ جہاں بھی جاتے اپنی قابلیت کی بنیاد پر ابتدائی سرجری اورتجویز ادویات سے اپنی دھاک بٹھاتے۔خدا معلوم،گورنمنٹ نے اس پروگرام کو اتنا جلد ختم کیوں کر دیا۔ڈاکٹر ارشاد نے ساٹھ کی دہائی میں قصبہ بھوآنہ، ضلع جھنگ(حال چنیوٹ)میں سرکاری ابتدائی طبی مرکز سے ملازمت کا آغاز کیا۔تب بھوآنہ اور اس کے اطراف میں چالیس سے پچاس کلومیٹر کے احاطہ میں ”ایل ایس ایم ایف“ سے بڑی ڈگری رکھنے والا کوئی معالج موجود نہ تھا۔ دیہاتوں میں مقامی طور پر کچھ اطباء جڑی بوٹیوں سے مریضوں کا علاج کرتے تھے۔جو مریض اُن  کے علاج سے ٹھیک نہ ہو پاتا،لوگ اس کو چارپائی پر ڈال کر ڈاکٹر ارشاد کے پاس لے آتے۔


چند سال سرکاری ابتدائی طبی مرکز میں خدمات سرانجام دینے کے بعد ڈاکٹر ارشاد نے ملازمت سے استعفیٰ دے دیا اور اپنی حویلی میں بیٹھ کر مریضوں کا علاج مہیا کرنا شروع کر دیا۔نہ وہ مشورہ فیس لیتے، نہ دوائیوں کے زیادہ پیسے۔ تاہم ایک دن سے زیادہ کی دوائی کبھی نہ دیتے۔اگر کوئی مریض ایکسرے یا الٹراساؤنڈ کرانے کامشورہ مانگتا تو ناراض ہوئے بغیر اتنا کہتے ”میں نے جو دیکھنا تھا دیکھ لیا،آپ بھلے اپنی تسلی کے لیے کرا لیں“،مگر مرض کی جو تشخیص ڈاکٹر ارشاد کر چکے ہوتے،ا یکسرے اور الٹراساؤنڈ کی رپورٹ میں وہی کچھ سامنے آتا۔لوگوں میں یہ مشہور ہو گیا کہ ڈاکٹر ارشاد تو کالی زبان والا ہے، یعنی جس کو وہ لاعلاج قرار دے،وہ پھر کبھی نہیں بچتا۔مریض کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر یا نبض پر ہاتھ رکھ کر مرض کی تہہ تک پہنچ جانا اُن پر ختم تھا۔


تیس مئی 2022ء کو جب ڈاکٹر ارشاد کے انتقال کی خبر چلی تو علاقہ میں کہرام مچ گیا۔عمرلگ بھگ سو سال کے قریب ہونے کے باوجود اپنی صحت کی فکر سے بے خبر، رات بھر مریضوں کو دیکھتے۔نہ عالیشان محل بنائے اورنہ زیادہ جائیدادوں کے پیچھے دوڑے۔جس حویلی میں مطب کا آغاز کیا،آخری وقت تک وہیں مریض دیکھتے رہے۔ڈاکٹر صاحب کے بارے میں جب ان کے مریض اپنی آپ بیتیاں بیان کرتے توڈاکٹر صاحب کے مافوق الفطرت  ہونے کا شبہ ہوتا۔ان کے ہر مریض کے پاس کوئی نہ کوئی آنکھوں دیکھا،انوکھاتشخیصی واقعہ ضرور ملتا۔مثلاً انتظار میں بیٹھے کسی مریض سے کہتے،”جاؤ واش روم سے ہو کے آؤ، تمہاری کرسی پر کوئی نہیں بیٹھتا“۔ایک بار ایک مریض سردرد کی دیرینہ شکایت لے کر اُن کے پاس آیا۔ڈاکٹر صاحب نے پوچھا،”درد سر کے کس حصہ میں ہوتی ہے؟“ مریض نے بتایا،”چوٹی پر“۔ڈاکٹر صاحب نے پوچھا: ”کام کیا کرتے ہو؟“ مریض نے کہا،”میں درختوں کی کٹائی کا کام کرتا ہوں“۔ڈاکٹر صاحب نے پوچھا،”کچھ عرصہ قبل تم نے کہیں خاردار جھاڑیاں تو نہیں کاٹیں؟“۔مریض نے ہاں میں سر ہلایا۔ڈاکٹر صاحب نے مریض کو سر کی چوٹی پر سے بال صاف کرا کر تین دن لگاتارملائی میں نمک ملا کرچوٹی پر پٹی باندھنے کا مشورہ دیا۔جب مریض چوتھے دن ڈاکٹر صاحب کے پاس آیا تو انہوں نے اطراف سے چوٹی کو ہلکا ہلکا دبایا۔یکدم ایک کاٹنا باہر کو اُبھرا۔ڈاکٹر صاحب نے چمٹی سے اُس کو باہر نکالا اور مریض کو سردرد سے ہمیشہ کے لئے نجات مل گئی۔


ڈاکٹر مصطفی نے اپنے نانا کو لاکھ سمجھانے کی کوشش کی کہ جو سہولت انہیں سرکاری ہسپتال میں حاصل ہے، وہ ڈاکٹر ارشاد تو کیا انہیں کہیں بھی حاصل نہیں ہو سکتی۔مگر حاجی صاحب تھے کہ رَٹ لگائے ہوئے تھے۔ ”مجھے ایک بار ڈاکٹر ارشادکے پاس لے چلو“۔ڈاکٹر مصطفی نے ناراضگی اور غصے کے ساتھ یہ کہہ کر جانے کی اجازت دے دی کہ دوبارہ اس ہسپتال کا رخ نہ کرنا۔ہم ڈاکٹر مصطفی کی ناراضگی مول لیتے ہوئے،حاجی صاحب کو ہسپتال سے گھر لے آئے۔رات کے گیارہ بجے فیصل آباد سے بھوآنہ ڈاکٹر ارشاد کے پاس پہنچے۔ نامعلوم،حاجی صاحب کتنے سال پہلے ڈاکٹر ارشاد کے پاس کسی مرض کے علاج کے لئے آئے تھے۔ڈاکٹر صاحب نے حاجی صاحب کی نبض پر ہاتھ رکھا اور جھٹ سے بولے، ”کیا بات ہے، اس بار آپ نے آنے میں تاخیر کر دی۔پہلے تو جلدی آجاتے تھے“۔بلا تعلق اور بلا گہری جان پہچان کے ڈاکٹر صاحب کا مریض سے یوں مخاطب ہونا حاضرین کے لئے اچنبے کی بات تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے معائنہ کرنے کے بعد بتایا کہ تیز بخارسے گردوں سے زیادہ حاجی صاحب کا دِل متاثرہو چکا تھا۔انہوں نے دس بارہ دن لگاتار آنے کا مشورہ دیا۔ دس دن کے مسلسل علاج کے بعد حاجی صاحب کے تمام بدن سے سوجن اُتر چکی تھی۔ گردوں کی خام فعلی درست ہو چکی تھی اور دل معمول کے مطابق کام کر رہا تھا۔ دسویں دن ڈاکٹر صاحب نے حاجی صاحب کو مکمل صحت یاب ہونے پر مبارک باد دی اور مزید آنے سے روک دیا۔
آج تین سال گزرجانے کے بعد بھی حاجی سکندرعلی کونہ دل کی کوئی تکلیف اور نہ ہی گردوں کاکوئی عارضہ ہے۔نماز پڑھتے،روزے رکھتے اور اپنی معاشرتی ضروریات پوری کرتے بھرپور زندگی گزار رہے ہیں۔ ڈاکٹر ارشاد جیسے مسیحاشاید دیومالائی کہانیوں کا حصہ ہوں، مگر ہم نے اُن کو اپنی آنکھوں سے مسیحائی کرتے دیکھا ہے۔

مزید :

رائے -کالم -