رات ڈھلنے لگی ہے سینوں میں۔۔۔آگ سلگاؤ آبگینوں میں۔۔۔ سندھو دور نیچے اپنے شور سے اپنے بہنے کا احساس دلا رہا ہے

رات ڈھلنے لگی ہے سینوں میں۔۔۔آگ سلگاؤ آبگینوں میں۔۔۔ سندھو دور نیچے اپنے شور ...
رات ڈھلنے لگی ہے سینوں میں۔۔۔آگ سلگاؤ آبگینوں میں۔۔۔ سندھو دور نیچے اپنے شور سے اپنے بہنے کا احساس دلا رہا ہے

  

 مصنف:شہزاد احمد حمید
 قسط:36
 میں نے جیپ سے اتر کر کمر سیدھی کی ہے جبکہ سندھو دور نیچے اپنے شور سے اپنے بہنے کا احساس دلا رہا ہے۔
 جیپ پھر سڑک پر رواں ہے۔پہلے ہی موڑ نے بتا دیا کہ آنے والا راستہ کتنا دشوار ہو گا۔ فور بائی فور سے یہ موڑ مڑا تو اللہ یاد آ گیا۔ تنگ راستے پر کلیجہ منہ کو آتا محسوس ہوا ہے۔ نواز نظریں سڑک پر جمائے، سٹیرنگ مضبوطی سے تھامے جیپ کے گئیر تیزی سے اپ ڈاؤن کر رہا ہے۔ پہلی چڑھائی کے بعد لمبی ڈھلوان آئی ہے۔ ایسی ڈھلوان پر گاڑی ہمیشہ ڈاؤن گئیر میں ہی چلانی چاہیے، کلچ دبائے بغیر کنٹرول بہتر ہوتا ہے۔ ساتھ ہی یو ٹرن کی چڑھائی شروع ہو گئی ہے۔ اب کی بار ٹانگوں سے جان نکلتی محسوس ہوئی ہے۔ تقریباً آدھ کلو میٹر لمبی چڑھائی کی جانب  گھومتا یہ موڑ مڑے تو سڑک سیدھی ہوئی اور ہمارے ساتھ ساتھ جیپ کا سا نس بھی سیدھا ہوا ہے۔ نواز کہنے لگا؛ جناب! پہلا مرحلہ بخیریت گزر آئے ہیں بس ایک تنگ موڑ اور خطرناک اترائی باقی ہے۔“ سڑک کنارے بہتے پانی کے قریب اُس نے جیپ روکی، بونٹ اٹھایا اور بھاپ کی طرح دھواں اڑاتے گرم انجن کو یخ پانی سے ٹھنڈا کرنے لگا ہے۔ایک دوسری جیپ کا ڈرائیور پہلے سے ہی ایسے کام میں مصروف ہے لیکن وہ واپس لیہہ کی جانب جا رہا ہے۔ میں بھی جیپ سے اتر آیا ہوں۔ ہوا ٹھنڈی لیکن دھوپ کافی تیز ہے۔ گرم دھوپ میں ٹھنڈے جسم نے جھرجھری لی اور پھر سے توانا ہو گیا ہے۔ یخ ہوا اور پانی کے دو ہی ڈبوں نے جیپ کے انجن کا درجہ حرارت صفر ڈگری کر دیا ہے۔نواز اس کام سے فارغ ہوا تو خود کو گرم کرنے کے لئے جیپ  سے چائے کا تھرموس نکال لایا ہے اور گرم گرم چائے کپ میں انڈیل کر چسکیاں لینے لگا ہے۔ میں نے بھی اپنا کپ کشمیری چائے سے بھر ا تاکہ جسم کے آر پار ہوتی ٹھنڈ کو کچھ تو کم کر پاؤں۔چائے کے گرم کپ نے ٹھنڈ کم اور توانائی بڑھا دی ہے۔ سامنے سے گزرتے بھیڑ بکریوں کے بڑے ریوڑ نے صاف ماحول کو گرد آلود اور تعفن زدہ کر دیا ہے۔ ریوڑ گزرا توہم بھی چل دئیے۔استادجوش نے کہا تھا؛
رات ڈھلنے لگی ہے سینوں میں          آگ سلگاؤ آبگینوں میں 
نہ ہی رات ہے البتہ ٹھنڈ کافی ہے۔ ہمارے روبرودوپہر ہونے لگی ہے۔ سورج نصف النہار پر ہے۔سڑک کنارے بہتے چشمے سے ہم نے وضو کرکے ظہر کی قصر نماز ادا کی ہے۔ اتنے ٹھنڈے پانی سے جو بھی وضو کر کے نماز ادا کر ے گا جنت کا ہی حق دار ہو گا کہ نماز ادا کرنے کے گھنٹہ بھر بعد تک ہاتھ اور پاؤں دوبارہ گرم نہ ہوپائے ہیں۔ ویسے جنت اور اس کے صلے میں ملنے والے انعامات کی خاطر یہ سودا ہر گز مہنگا نہیں ہے۔مجھے چاچا غلام رسول نے بتایا تھا کہ راستے میں ”لیماین“(lamayum) رک کرلنچ ضرور کرنا۔وہاں اسی نام کا ہوٹل ہے تم اس کے تندوری دیسی چکن اور تندوری مچھلی کا ذائقہ زندگی بھر بھول نہ پاؤ گے۔ ہم بھی”لیماین ان“ چلے آئے ہیں۔ بھوک بھی بہت لگی ہے اور ہم نے انہی دو چیزوں کا آ ڈر دیا ہے۔ میں لان میں بچھی چارپائی پر لیٹ کر آسمان کے شفاف نیلے رنگ کو دیکھتے دیکھتے ہی نیند کی وادی میں اتر گیا ہوں۔ نواز بھی آنکھیں موندے لیٹا ہے۔ بیرے نے آکر اٹھا یا:”کھانا تیار ہے جناب۔“ یقین کریں کھانا اتنا لذیز تھا کہ پلیٹ میں ایک نوالہ بھی نہ بچا ہے۔ ہم دونوں سب چٹ کر گئے ہیں۔ ایسا تندوری چکن اور مچھلی زندگی میں پہلے کبھی نہیں کھائی تھی۔ حیرانگی اس بات پر تھی اتنے لذیز کھانے کابل بھی مناسب ہی تھا۔بیشک ہندوستان میں کھانا سستا ہے۔ ایسا کھانا اگر پاکستان میں کھایا جائے تو بل کئی ہزار روپے تو ضرور ہو گا۔ پیٹ کی پوجا سے فارغ ہوئے۔ کشمیری چائے کا لطف لے کر یہاں سے روانہ ہوئے تو دوپہر ڈھلنے کو ہے۔   
 ہوا ابھی بھی کافی خنک ہے۔ سڑک سے بہت نیچے میرا دوست(عظیم دریائے سندھ) بہہ رہا ہے۔ شور مچاتا، چٹانوں سے ٹکراتا ہے۔ یہ سنسان جگہ ہے۔ میرا گھنٹے بھرکا سفر ابھی بھی باقی ہے۔ راستہ تنگ اور سڑک بالکل نازک سی لڑکی کی کمر کی طرح دبلی ہے۔میرے سامنے سڑک پہلے بلندی اور پھر لمبے نشیب میں اتررہی ہے۔ وہی منظر، وہی نظارے۔ فرق یہ ہے کہ اب پہاڑوں کا ننگا پن گھاس اور سبزے نے چھپا لیا ہے۔نواز نے نصرت فتح علی خاں مرحوم کی گائی قوالیوں کی ٹیپ چلا دی ہے۔ فنکار سبھی کے سانجھے ہوتے ہیں۔ ”نظر بھی نہ آئے جو وہی خدا وہی خدا ہے۔“ بے شک ہم کائنات کے رب کو ایسی ہی نشانیوں سے پہچانتے ہیں۔
اس روٹ پر کارگل سے بٹالک چون (54) کلو میٹر ہے۔راستے میں دارد یا بورکس کہلانے والے چار آریائی گاؤں ”گارکون(garkon)، دیہہ(dah)ہانو(hanu) اور دارچک(darchik) سندھو کے کنارے آباد ہیں۔بورکس تبتی لفظ ہے جس کے معنی ہیں ”اونچے پہاڑوں کے لوگ۔“یہ سارا راستہ سندھو کے ساتھ ساتھ ہی ہے۔  (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)

مزید :

ادب وثقافت -