آج اکثر نیگرو رہنما اس بات کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ مسلمانوں کی عالمی تشہیر سراسر سفید فاموں کے میڈیا اور دیگر ذرائع کی مرہون منت ہے

 آج اکثر نیگرو رہنما اس بات کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ مسلمانوں کی عالمی ...
 آج اکثر نیگرو رہنما اس بات کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ مسلمانوں کی عالمی تشہیر سراسر سفید فاموں کے میڈیا اور دیگر ذرائع کی مرہون منت ہے

  

مصنف: میلکم ایکس(آپ بیتی)
ترجمہ:عمران الحق چوہان 
قسط:104
 نیویارک واپس پہنچ کر میں نے ایک سکینڈ ہینڈ کیمرہ خریدا اور کافی فلمیں بنانے کے بعد میں اس قابل ہوگیا کہ قابل استعمال تصویریں کھینچ سکوں۔ مجھے جب بھی موقع ملتا میں ”قوم اسلام“ کے متعلق دلچسپ خبریں اکٹھی کرتا رہتا، ہر ماہ ایک روز کے لیے میں خود کو کمرے میں بند کر لیتا۔ اپنا مواد اور تصاویر اکٹھی کرکے پرنٹر کے پاس لے جاتا۔ میں نے اپنے اخبار کا نام ”فرمان محمد (Muhammad Speaks) رکھا جسے مسلمان برادران کچی بستیوں کی سڑکوں پر فروخت کرتے۔ میں نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ جب Hierarchy میں حسد پیدا ہو جائے گاتو میرے قائم کردہ اخبار میں ہی میرے متعلق کچھ نہیں چھاپہ جائے گا۔
خیر”قوم اسلام“ کی تشہیر ابھی ابتدائی سطح پر ہی تھی جب ایلیا محمد نے مجھے تین ہفتہ کے دورے پر افریقہ بھیجا۔ ہماری قلیل تعداد کے باوجود کچھ افریقی اور ایشیائی شخصیات نے ایلیا محمد کو پیغام بھیجا تھا کہ وہ ان کی امریکی سیاہ فام لوگوں کی بیداری اور بہتری کی کوششوں کو پسند کرتے ہیں۔ بعض اوقات یہ پیغامات میرے توسط ہی سے بھیجے جاتے تھے کیونکہ میں ایلیا محمد کے خصوصی ایلچی کے طور پر مصر، عرب، سوڈان، نائجیریا اور گھانا جا چکا تھا۔
 آج اکثر نیگرو راہنما اس بات کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ مسلمانوں کی عالمی تشہیر سراسر سفید فاموں کے پریس، ریڈیو، ٹیلی ویژن اور دیگر ذرائع کی مرہون منت ہے، مجھے ان سے ذرہ بھر اختلاف نہیں ہے وہ بالکل ٹھیک کہتے ہیں۔”قوم اسلام“ میں کسی کے فرشتوں کو بھی خبرنہیں تھی کہ کیا ہونے والا ہے۔
1959ء میں ٹیلی ویژن پر پروگرام چلایا گیا جس کا نام تھا”نفرت کی پیداوار۔ نفرت“ اس کے ٹائیٹل میں چونکا دینے والے مناظر بڑی عمدگی کے ساتھ ایڈٹ کرکے چلائے گئے تھے جس میں ایلیا محمد میں اور دیگر خطاب کرتے۔۔۔ قوی جثے اور سنجیدہ چہروں والے سیاہ فام یعنی ہمارے ”ثمر اسلام۔“ سفید سکارف اور سفید عبائیں پہنے ہر عمر کی مسلمان بہنیں۔۔۔ ہمارے ریستورانوں اور دوسرے شعبوں کے مسلمان۔۔۔ ہماری مساجد میں آتے جاتے مسلمان اور دیگر سیاہ فام دکھائے گئے تھے۔
 ایک ایک جملہ حیرانی کی شدت بڑھانے کے لیے ایڈٹ کیا گیا تھا۔ یہی پروڈیوسر کی آرزو تھی۔ میرے خیال میں جب پروگرام چلایا گیا تو لوگ اس کے آگے سے ہل نہیں سکے۔ اس سے بالکل اسی طرح کا خوف پیدا ہوا جس طرح کا خوف 1930 میں آرسن ویلز کے پروگرام نے پورے امریکہ میں دوڑا دیا تھا۔ اس نے ریڈیو پروگرام میں یہ ظاہر کیا تھا جیسے مریخ والوں نے واقعی زمین پر حملہ کر دیا ہے۔
 ہمارے پروگرام کے بعد کسی نے کھڑکی سے چھلانگ تو نہیں لگائی لیکن نیویارک سٹی میں ردعمل کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ میری ذاتی رائے میں اس ردعمل کا ذمہ دار پروگرام کا عنوان ”نفرت…… نفرت“ تھا۔
 لاکھوں لوگ، سیاہ و سفید کہہ رہے تھے”تم نے دیکھی؟۔۔۔ تم نے سنی؟ سفید فاموں سے نفرت کی تبلیغ۔“
سیاہ فاموں کی حد تک یہ بھی سفید فاموں کے روائتی مزاج کی خصوصیت ہے کہ وہ اپنے آپ سے اتنی محبت کرتا ہے کہ جب اسے علم ہوتا ہے کہ اس کا شکار اس کی جعلی عظمت و شکوہ کے متعلق اس کی ذاتی رائے سے اتقاق نہیں کرتا تو وہ بدک جاتا ہے۔ امریکہ میں صدیوں سے یہ بات درست تھی کہ شکار شدہ استحصال شدہ اور تشدد سہنے والے سیاہ فام انکل ٹامنگ کرتے اور ”جی آقا“ کہہ کر بھیک مانگتے اور دانت نکالتے رہیں۔ لیکن اب حالات اور تھے۔ سب سے پہلے سفید اخبار والے فیچر رائٹر اور کالم نویس آئے اور انہوں نے ”ہوشیار“……”نفرت کے پیغامبر“……”نسلوں کے مابین اچھے تعلقات کے لیے خطرہ۔۔۔“”سیاہ علیٰحدگی پسند“……”سیاہ حاکمیت پرست“۔۔۔ اور اس طرح کے عنوانات سے لکھا۔ ابھی روزناموں کی روشنائی خشک نہیں ہوئی تھی کہ قومی ہفتہ وار رسالے چیخنے لگے”نفرت کے معلم“”تشدد کی متلاشی“۔۔۔”سیاہ فام نسل پرست“۔۔۔”سیاہ فام فاشسٹ“۔۔۔”عیسائیت دشمن“۔۔۔”کمیونزم سے متاثر ہونے کا امکان“ وغیرہ وغیرہ۔
 یہ سب کچھ شیطان اعظم کے پریسوں سے نکلا اور انسانی تاریخ کا حصہ بن گیا اس کے بعد مشتعل سفید فام نے اپنی اگلی چال چلی۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -