مہاجروں نے اپنی اچھی تعلیم کو پاکستان آ کر اور بہتر کیا،اس لیے ان کو ملازمت کی تلاش میں زیادہ بھٹکنا نہیں پڑتا تھا

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:127
مہاجروں نے اپنی اچھی تعلیم کو پاکستان آ کر اور بہتر کیا،اس لیے ان کو ملازمت کی تلاش میں زیادہ بھٹکنا نہیں پڑتا تھا۔ ویسے بھی ملازمتیں تھوڑی بہت تگ و دو کے بعد مل ہی جایا کرتی تھیں۔
نسبتاً کم پڑھے لکھے لوگ دفتروں میں متوسط یا نچلے درجے کی نوکری کرتے مثلاً کلرک یا سیلز مین وغیرہ۔ اکثر شعبہ تعلیم میں آ کر پرائمری سکول کے اساتذہ بن جاتے تھے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد اونچے درجے کی ملازمتیں اختیار کر لیتے یا بینکوں وغیرہ میں چلے جاتے۔ اکثر لوگ اپنے اعلیٰ تجربے کی بدولت کالج اور یونیورسٹی میں تدریس کے فرائض سنبھال لیتے تھے۔اسی طرح کاروبار میں ترقی کرنے والے اپنا بہترین کاروبارچلا کرنہ صرف اپنے لیے بلکہ اور بھی کئی لوگوں کے لیے عزت کی روٹی کمانے کا وسیلہ بن جاتے تھے۔
پیچھے سے جولوگ اپنا چلتا ہوا کاروبار چھوڑ کر آئے تو انہوں نے یہاں وہی کام نئے سرے لیکن کم سرمائے سے شروع کر دئیے۔ جیسے کہ ایمپریس مارکیٹ یا کسی اور مرکزی علاقے میں پرچون فروشی، قصاب کی دکان یا برنس روڈ پر کھانے پینے کے ہوٹل وغیرہ بنا لیے۔ اس کے علاوہ کاریگر لوگوں نے چھوٹے چھوٹے ورکشاپ بنا کے ان میں چھوٹی اور عام استعمال کی چیزیں تیار کرنے کے کام کا آغاز کیا۔ غرض ہر وہ بندہ جو اپنی محنت کی کمائی کھانا چاہتا تھا اس کو بہرحال کسی نہ کسی طرح رزق حلال مل ہی جاتا تھا۔بے شک اللہ کی ذات بہت مہربان ہے اور سب کو رزق عطا کرنے والی ہے۔
اس وقت کے مہاجروں نے اپنے آپ کو پوری طرح نئے ماحول میں مدغم کر لیا تھا اور دوسری قومیتوں کے ساتھ شیر و شکر ہوگئے۔ ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا لگا رہتا تھا، اور ان کی خوشی غمی میں باقاعدگی سے شریک ہوتے تھے۔ زبان کا فرق کبھی آڑے نہیں آیا تھا۔ بعض دفعہ تو ایسا ہوتا کہ ایک دوسرے کی زبان نہ سمجھتے ہوئے بھی وہ آپس میں دکھ سکھ کی سانجھ کر لیتے تھے۔
1955ء تک تقریباً سب ہی لوگ اپنے اپنے حالات اور استطاعت کے مطابق محلّوں میں آباد ہو گئے تھے۔ زندگی ایک بارپھر نئی ڈگر پر چل نکلی تھی جہاں ہر کوئی اپنے اچھے مستقبل کی آس اور امید پر دلجمعی کے ساتھ کام میں جتا رہتا۔
دکھوں اور مالی پریشانیوں کے بادل چھٹنے شروع ہوئے تو ہجرت کا غم آہستہ آہستہ ختم ہوا اور جب مستقل سکونت کے مسائل بطریق احسن حل ہو گئے تو لوگوں نے ایک اچھے معاشرے کی بنیاد ڈالی۔اس کے بعد بہت عظیم لوگ منظر عام پر آئے جن میں بڑے اونچے پائے کے شاعر، قلم کار، تربیت کار، فنکار اوراساتذہ کرام شامل تھے جنہوں نے آنے والی نسلوں کو علم اور اخلاق کے زیور سے آراستہ کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ وہ آپس میں بھائی چارے سے رہنے کی نہ صرف تلقین کرتے تھے بلکہ خود بھی اس پر عمل کرتے۔کم ازکم اس وقت تک قومیت کی بنیاد پر کسی قسم کا کوئی تعصب معاشرے میں موجود نہیں تھا۔ایک دوسرے کے رسم و رواج یا زبان کو لے کر ہلکی پھلکی شرارتیں اور جملے بازی تو ضرور چلتی تھی لیکن اس میں کسی کی تضحیک کا پہلو نہیں ہوتا تھا۔
مہاجروں کی اپنی دل فریب اور دلچسپ ثقافت تھی جو وہ اپنے ساتھ لے کر آئے تھے۔ شروع میں یہ مالی دشواریوں، ہجرت کے کرب، مختلف نوعیت کی ذہنی مشکلات اور مستقبل کے خدشات کے سبب کھل کر سامنے نہ آسکی۔ تاہم جیسے جیسے حالات موزوں ہوتے گئے وہ روزمرہ کی پریشانیوں سے باہر نکل آئے، سکھ کا سانس لیا اور پھر جی بھر کے اپنی ست رنگی تہذیب و تمدن کے رنگ خوب بکھیرے۔یہ ان کی زندگی کا بہترین دور تھا۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)