تیری غلامی کے صدقے ہزار آزادی

 تیری غلامی کے صدقے ہزار آزادی
 تیری غلامی کے صدقے ہزار آزادی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 مصنف: جمیل اطہر قاضی
 قسط:38
اللہ میاں بھی حسن کو یہ جواب دیتے کہ جاؤ اقبال سے پوچھو! پھر اقبال کے بعد اس کے مفسرین آئیں گے۔ ساری باتوں کا پہلے ہی دن نہیں پوچھا کرتے۔ ازل سے زوال کا کیا تعلق۔
میں کہہ رہا تھا کہ حضور نقاد کو یہ تکلیف پیش آئی ہے کہ کسی جگہ تو اقبال حسن کو عارضی بتاتا ہے اور کسی جگہ کہتا ہے کہ یہ تو ہمارے مشاہدے کی بات ہے۔ یا خیال کی بات ہے حسین سمجھیں تو حسین ہے جس کو قبیح سمجھیں تو قبیح ہے۔ بعض لوگ سؤر کا نام نہیں لیتے تاکہ ان کی زبان پلید نہ ہو جائے اور اس کو ”بدر نادر“ یعنی برا جانور کہتے ہیں اور بعض لوگ اپنے چھوٹے بچوں کو محبت سے پگی کہتے ہیں جو پگ (PIG)  سے اسم تصغیر ہے اور اس طرح اقبال کہتا ہے کہ
آنکھ اگر دیکھے تو ہر قطرے میں ہے طوفانِ حُسن
نہ دیکھے تو بس قطرہ ہے
ہستی و نیستی از دیدن و نادیدن من
چہ زمان و چہ مکاں شوخیِ افکارِ من است
یعنی مجھے کوئی چیز نظر آئے تو وہ ہمت ہے نظر نہ آئے تو نیست ہے۔ مگر میں پوچھتا ہوں کہ میری نظر میں خواہ آپ کوے کی طرح خوبصورت ہوں، اس سے آپ کے حسن مطلق پر کیا اثر پڑتا ہے۔ بشرطیکہ آپ عام دنیاوی اعتبار سے حسین ہوں اور باقی رہی بات زوالِ حسن کی تو مناسب جواب یہ تھا کہ کیا کم ہے یہ شرف کہ چند سال تو حسین رہو اور ایسے ہی اگر بدشکل لوگوں نے خدا سے پوچھنا شروع کیا اور ہمیں کیوں بدشکل بنایا تو پھر سارے لوگ خوب صورت ہوتے اور خوب صورتی کی کوئی قدر نہ ہوتی۔ بات یہ ہے کہ انسان تغیر چاہتا ہے اور بعض دفعہ زیادہ حسن سے طبیعت اکتاتی ہے تو بدصورتی کی طرف بھی راغب ہو جاتا ہے مگر نہیں سنی آپ نے کہانی اس شخص کی جو ایک چیچک رو سے محبت کرتا تھا۔ کسی نے پوچھا کہ یہ کیسے پسند آیا تو اس نے کہا کہ جب وہ فٹ بال کھیلتا ہے اور اس کے ماتا کے داغوں پر پسینہ چمکتا ہے تو جیسے آسمانِ حُسن پر تارے چمک رہے ہیں۔
میں نے ابھی کہا تھا کہ ”علامہ اقبال لائل پور میں“ کے عنوان سے اخباروں میں مضمون نکل سکتے تھے کل میں نے ان کنووکیشن کے سلسلے میں یہ کہا کہ سقراط لائل پور میں ہے تو لوگ سمجھے کہ میں اپنے متعلق کہہ رہا ہوں۔ دراصل سقراط ان میں پہلے سے موجود تھا، ان کو پہلے نظر نہیں آیا۔ آج اگر علامہ اقبال لائل پور میں ہیں تو اس کا بھی نہ وہ مطلب ہے جو کل کے لوگ سمجھے تھے نہ وہ مطلب ہے جو آج کے لوگ سمجھے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ علامہ اقبال ایک مرتبہ لائل پور آئے تھے۔ ممکن ہے بزمِ اقبال کے جلسوں میں یا اگری کلچر کالج کے آموں کے پک جانے کے موقع پر اس سے پہلے یا بعد بھی آئے ہوں۔ ایک جگہ کپاس کا بھی ذکر ہے مگر میں اس موقع کا ذکر کررہا ہوں جب میں بھی ان کے ساتھ تھا بلکہ وہ میرے ساتھ تھے۔ راوی کے ادھر نواب ذوالفقار علی خاں کی موٹر کھڑی تھی۔ ہم دونوں پچھلا دروازہ کھول کر اندر بیٹھ گئے۔ ڈرائیور سمجھا کہ نواب صاحب بیٹھ گئے اور موٹر چلا دی۔ شاہدرہ تک ہم آئے تو اقبال نے کہا لائل پور چلو۔ ڈرائیور نے آواز سنی تو پیچھے دیکھا کہ نواب صاحب تو نہیں ہیں اور زور سے بریک لگا دی (وہ ڈرائیور اب میری قسمت میں آیا ہے) خیر ڈرائیور نے کہا کہ حضور! نواب صاحب پیچھے رہ گئے۔ اقبال نے کہا کہ کوئی ہرج نہیں وہ اور سردار جوگندر سنگھ ساتھ آئیں گے۔ آگے چل کر ہم نے دیکھا کہ قلعہ شیخوپورہ کے قریب سردار جوگندر سنگھ سکوٹر پر جارہے ہیں۔ ان کو ہم نے ساتھ بھیجا اور سکوٹر سڑک کے کنارے چھوڑ دی وہ سکوٹر کی سواری پر بہت مصر تھے اور کہا کہ نواب صاحب دوسری موٹر میں چلے گئے ہیں مگر میں نے ان سے شرط لگائی ہے کہ میں سکوٹر پر ان سے پہلے پہنچوں گا۔ خیر جب موٹر چلنے لگی اور سردار جوگندر سنگھ کا پسینہ سوکھنے لگا تو انہوں نے خوشی میں کہا یہ تو کیسی خاموش گاڑی ہے اتنی تیز جاتی ہے اور آواز ہی نہیں میرا سکوٹر تو بڑا دجال ہے بلکہ خرد جال ہے“ یہ ان کے اپنے الفاظ ہیں میں نے کہا یہ خاموشی کوئی موٹر پر منحصر نہیں جو بھی فضا ء میں تیز رفتار ہیں وہ خاموشی سے کام کرتے ہیں۔ اس کے اگلے ہی دن اقبال نے یہ شعر پڑھے۔
کیسے پتے کی بات جوگندر نے کل کہی
موٹر ہے ذوالفقار علی خاں کا کیا خموش
ہنگامہ آفریں نہیں اس کا خرامِ ناز
ماخذ برق تیز مثالِ ہوا خموش
میں نے کہا نہیں ہے یہ موٹر پر منحصر
ہے جادہ حیات میں ہر تیز پا خموش
یہ جو میں نے کہا ہے اس کو شاعر از نازک خیال کہتے ہیں۔ دراصل تو میں نے کہا تھا میں نے نازک طریقے سے اعتراض بھی کیا۔ انہوں نے کہا تم اور ہم ایک ہیں۔ میں خوش ہوا۔ اس بات کا گواہ سردار جوگندر سنگھ ہے اور اگر آپ نہیں مانتے تو آپ سے پہلے بھی لوگ ایمان نہیں لائے…… بہر کیف قصہ لائل پور کی سڑک سے بھی زیادہ لمبا ہوگیا ہے۔ یہاں دیر سے پہنچے سرکٹ ہاؤس میں رات کو آرام کیا۔ آرام کیا کرنا تھا۔ جب ذرا ہوا تیز چلی تو اہلِ بجلی اپنی بجلی بجلی کی طرح بند کر دیتے، تین بجے رات کو آنکھ لگی تو شہر میں لاؤڈ سپیکروں کا ایک فغان اٹھا۔ ایک نالہ برپا ہوا۔ ہم بستروں میں اٹھ بیٹھے کچھ سمجھ میں نہ آئی کہ کیوں فتنہ قیامت قبل از وقت آیا ہے۔ اقبال نے کہا کئی گھروں میں آگ لگی ہوگی۔ میں نے کہا کہیں بلوہ نہ ہو۔ جوگندر سنگھ نے کہا کہ گوردوارہ میں خیرات بانٹ رہے ہوں گے۔ ہم نے چوکیدار کو بلا کر پوچھا۔ اس نے کہا مسجدوں میں سرکاری اذانیں دی جارہی ہیں۔ سرکاری کیسے؟ کہا لاؤڈ سپیکر تو انگریزی چیز ہے نا۔ لاؤڈ سپیکروں میں سے اذانیں ہو رہی ہیں اور ساری ایک وقت میں ہو رہی ہیں۔ اس لئے غل غپاڑہ ہے۔ اذان تو اصل وہ ہوتی ہے جو اپنے گلے کی آوازپر ہو سُنا ہے حضر ت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقت میں ایک خاص مو ّذن تھا جس کی آواز سارے مدینے میں سنی جاتی تھی۔ اقبال نے ہم سے کہا کہ چوکیدار حضرت بلالؓ کا سوچ رہا ہے پھر وہ دو گھنٹے مبہوت رہے۔ اس کے بعدحضرت بلالؓ پر شعر کہے جو بانگ ِ درا کے صفحہ 78 پر ہیں۔حضرت بلالؓ ایک حبشی غلام تھے۔ اس لئے اقبال نے کہا تھا۔ 
تیری غلامی کے صدقے ہزار آزادی
( جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)

مزید :

ادب وثقافت -