مردہ سفید ہاتھی کی مہنگی زندگی

مردہ سفید ہاتھی کی مہنگی زندگی
مردہ سفید ہاتھی کی مہنگی زندگی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اب کوئی انہونی بھی پی آئی اے کو نہیں بچا سکتی۔ لاکھوں پاکستانیوں پر ، جن کو قومی ائیر لائن پر سفر کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے، اب یہ حقیقت آشکار ہو چکی ہے کہ یہ ائیر لائن اپنے پست ترین ممکنہ معیار کے ساتھ دراصل ڈراﺅنے بھوتوں کا مسکن بن چکی ہے۔ لاچار عوام ان مسائل کو برداشت کرنے کے سوا کیا کر سکتے ہیں؟ وہ جان چکے ہیں کہ اس ریاست میں تبدیلی ممکن نہیںہے، کم از کم ان کے لئے کسی بہتری کی ہرگز کوئی امید نہیں۔ وزارت ِ دفاع و مالی امور کا ائیر لائن کے معاملات میںبہت عمل دخل ہوتا ہے، چنانچہ وہ” دخل“ دیتے رہتے ہیں۔ ان کے علاوہ سول ایوی ایشن اتھارٹی بھی، جو ہمارے ہاں نہ سول ہے اور نہ ہی اس کو ایوی ایشن کی ابجد کا علم ہے، اپنی بساط کے مطابق ائیر لائن کو لائن میںلگائے رکھتی ہے۔ اس برگ ِ خشک کی چوٹی پر تیز نوکیلے پنجوں والی حکومت براجمان ہے اور اس کی نظر اپنی مفتوحہ ریاست (ریاستی اداروں ) پرہے۔ اس میںکوئی شک نہیں کہ حکومت ِ پاکستان ہر چیز قانون کی کتاب کے مطابق کرتی ہے ، یہ اور بات ہے کہ یہ کتاب ان کے اپنے مفاد کی قلم سے تحریر کردہ ہے اور اس میں قانون نامی کوئی چیز نہیںہے۔ اس نے نہایت سنگدلی سے ائیر لائن،جس کو طبی نقطہءنظر سے مرحومین میں شمار کیا جا سکتا ہے، پر پنجے گاڑے ہوئے ہیں کہ خون کا کوئی قطرہ دکھائی دے تو اُسے بھی خیرو عافیت سے چوس لیا جائے۔ ہزاروں غیر قانونی بھرتیاں پہلے ہی پی آئی اے کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک چکی ہیں اب اس کے گرد اتنی کیلیں پیوست ہیں کہ لکڑی نظر ہی نہیں آتی ، لیکن حکومت ہزاروں نئی کیلوں کو ”اکاموڈیٹ “ کرنے کا عہد کئے ہوئے ہے۔ یہ ایک افسوس ناک، بلکہ خوفناک صورت ِ حال ہے، لیکن اس سے کسی کے آرام میںخلل نہیںپڑتا، کسی کی راتیں بے چینی کے عالم میں نہیں گزرتیں۔ عوامی خدمت کی پگڑی سر پر باندھے ہمارے سیاسی نمائندے اورافسران بڑی شان و شوکت سے اس مرحومہ کی بے کفن نعش کو ادھر اُدھر گھسیٹے پھر تے ہیں۔ اس سفاکی کے سامنے وہ وحشت ناک دشت ، جہاں ہر پاگل کتا دوسرے ذی فہم کتے کا بیری ہوتاہے، زیادہ ”انسانی “ رویوں کا مظہر نظر آتاہے۔ پی آئی اے کی خرابی کی مثال اگر کہیں اور تلاش کی جاسکتی ہے تو پاکستان کرکٹ ٹیم ہے۔یہ کہنا مشکل ہے کہ ان دونوں میں سے کون زیادہ گراوٹ کا شکار ہے، تاہم کرکٹ ٹیم کے بارے میں ایک بات برملا کہی جا سکتی ہے کہ یہ اپنی اتھاہ گہرائیوں پر ہے اور اس سے زیادہ خرابی ممکن ہی نہیں، لیکن پی آئی اے کے سامنے ”ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں“ ذرا انتخابات ہوجانے دیں....لوگ تلخ مذاق کے طور پر پی آئی اے کو ”پلیز انفارم اﷲ“ کا مخفف بتاتے ہیں۔ یہ پاک دھرتی ہر خوش خبری سے پاک ہو چکی ہے۔ اب پی آئی اے کی جان بچانے کے لئے حکومت اس کو خون کی ایک اور بوتل لگانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس ضمن میں قومی ائیر لائن کو سو بلین روپے کی ڈرپ لگانے کا بزنس پلان بن چکا ہے ، تاہم ذرا دل پر ہاتھ رکھیں، جان بلب مریضہ کا علاج پانچ سال بعد شروع ہو گا کہ جلدی کا کام اچھے لوگوں کو زیب نہیںدیتا۔ ویسے کچھ خبر ہے کہ یہ بزنس پلان ہے کیا ؟ جتنی سرعت سے اسے منظور کیا گیا ہے اور جتنے عقربی نام اس میں شامل ہیں، اس سے خیر کی خبر نہیں آتی ۔ شاید یہ اس لئے کیا گیا ہے کہ اب حکومت صرف چند ہفتوںکی مہمان رہ گئی ہے۔ جاتے جاتے اس نے ایسے ادارے ، جس کو اس کی اپنی بداعمالیوںنے تباہ کر دیا ہے اور یہ 141 بلین روپوںکے خسارے میںجارہا ہے، کے لئے امدای رقم کا اعلان کر دیا ہے۔ اس میں شفافیت کا پہلو عنقا نظر آتا ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ رقم آئے گی کہاںسے ؟ظاہر ہے کہ اس کے لئے مزید قرضہ لینا پڑے گا۔ موجودہ حکمرانوں کو،جو پہلے والے حکمرانوں سے کم خود غرض نہیںہیں، مزید قرضے لے کر ہڑپ کرنے میںکوئی تامل نہیںہو گا۔ یہ رقم بھی پہلے اربوں رپوں کی طرح ”حقداروں “ کی جیب میں چلی جائے گی۔ ملک کا حال یہ ہے کہ اس لوٹ کھسوٹ کی وجہ سے ہر پیدا ہونے والا بچہ (اور ان کی تعداد کم نہیں ) بھاری قرض تلے دباہوتا ہے، لیکن یہ بات کسی کے لئے تشویش ناک بات نہیںہے۔ شاید سوچ یہ ہے کہ بچوں کو آنکھ کھولتے ہی معیشت کا پتہ ہونا چاہیے۔ ہمارے ہاں نہایت عمدہ لباس زیب تن کئے، جیسے کوئی فیشن شو ہو رہا ہو، رہبر و رہنما ہماری جیبوںسے نہایت مہارت سے رقم نکلوا کر اپنی جیبیں بھرتے جارہے ہیں۔ ہمارے ہاں اس لوٹ مار کا نام ہی جمہوریت ہے۔ کابینہ کی اس کمیٹی کو ،جس نے پی آئی اے کے لئے سو بلین روپوں کا پلان منظور کیا ہے، شرم آنی چاہیے۔ نئے وفاقی وزیر برائے مالی امور، اُن کے پہلو میں بیٹھے سیکریٹری برائے دفاع اور پی آئی اے کے چیئر مین، جو ایک ریٹائرڈ جنرل ہیں۔ایک پی آئی اے کے ایم ڈی، جن کو لفظ ایوی ایشن کا مطلب آتاہو تو بڑی بات ہو گی اور ہر بات پر باس کی چمچہ گیری کرنے والے ایک ”سی ایف او“ پر مشتمل کمیٹی نے اس منصوبے ، جو منصوبہ نہیں مک مکا تھا، کی منظوری دی۔ مَیں ایوی ایشن کا ماہر نہیںہوں اور نہ ایک مختصر کالم پی آئی اے کی ہمالیہ آسا خرابیوںکو اپنے دامن میں سمو سکتا ہے، چنانچہ سب خرابیوں کا ذکر ممکن نہیںہے ، تاہم پی آئی اے میں ملازمت کرنے والوں کو ایک حقیقت کا علم ہے کہ اس ادارے میں صرف اُسے ہی اہمیت حاصل ہے جس کی کسی سیاسی جماعت یاطاقتور گروہ سے وابستگی ہے۔ انہی وابستگیوںنے اس لاجواب سروس کو ”تاریخی مرتبہ“ دے کر ڈینوسار کاہم عصر بنا دیا ہے’این سعادت بجز سیاست نیست“۔ پی آئی اے قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والا ادارہ بن چکا ہے، پھر بھی اس کے ملازمین ، جن کی تعداد ہوشربا حد تک ضرورت سے زیادہ ہے، کی تنخواہوں میں چالیس فیصد اضافہ کس معاشی منطق کے مطابق ہے؟ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے.... اس حکومت کی کارکردگی اس بات کی مظہر ہے، جب کوئی مفاد وابستہ ہو تو یہ فیصلہ نہایت سرعت سے کرتی ہے، وگرنہ اس سے سوئی میں دھاگہ بھی نہیں ڈالا جاتا۔ پی آئی اے کے فضائی روٹس کا چناﺅ کرتے ہوئے ادارے کی بجائے اپنے مفاد کا خیال رکھا جاتا ہے۔ شکاگو جانے والی فضائی سروس، جس پر پی آئی اے کو پندرہ ماہ میں چھ سو پچاس ملین روپے کا خسارا ہوا،تین مرتبہ بند اور پھر شروع کی گئی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ پائلٹ عام طور پر ایسے شہروں کا انتخاب مناسب سمجھتے ہیں، جہاں اُن کے عزیزو اقارب رہائش پذیر ہوں۔ وہ ائرلائن سے رہائش کا بھاری معاوضہ لے کر اُن کے ہاں رہ سکتے ہیں۔ پی آئی اے، دیگر فضائی کمپنیوںکے برعکس جب چاہے کسی بھی روٹ کو معطل کر سکتی ہے اور جس روٹ کو چاہے کھول سکتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پان کی دکان ہے جہاں مرضی کا مسالہ ڈالا جاتا ہےپی آئی اے ایسے تو نہیں ”اُڑی “۔  اب مجوزہ بزنس پلان کے تحت پی آئی اے کے لئے 777 طیاروں کی جگہ چھوٹے 320-330 طیارے حاصل کرنے کا پروگرام بنایا گیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ بین الاقوامی مارکیٹ میں اپنی خدمات کا معیار خود ہی کم کررہے ہیں۔ اب تک اس کے بہت سے طیارے گراﺅنڈ ہو چکے ہیں، اگر اس کے اطوار درست نہ کئے گئے تو مزید طیارے، یا جو بھی نئے حاصل کئے جائیںگے، اسی انجام سے دوچار ہوں گے۔ کچھ عرصہ پہلے مَیں نے ایک فلم دیکھی کہ جاپان کی فضائی کمپنی کے سی ای او نے اپنے ادارے کو مالی بحران سے نکالنے کے لئے غیر معمولی اقدامات اٹھائے۔ اُس نے سب سے پہلے مہنگی گاڑی ادارے کو واپس کردی اور ٹرین، بس یا موٹر سائیکل پر سفر کرنا شروع کر دیا، جبکہ اُس کی ڈیسک بھی عام کارکنوںکے ساتھ بڑے سے ہال میں تھی۔ وہ کھانا لینے کے لئے اپنے سٹاف کے ساتھ لائن میں کھڑا ہوتا۔ کیا آپ اس مقروض ملک کے رئیسوںسے ایسی سادگی کی توقع کر سکتے ہیں؟پی آئی اے کے ایک سابق چیئر مین نے اپنے کراچی آفس میں نہایت مہنگی لفٹ لگوائی، کیونکہ صرف دس قدمی سیڑھیاں چڑھنے میں ان کی توہین ہوتی تھی۔ یہ وہی صاحب تھے جو اپنی تنخواہ غیر ملکی کرنسی میں ایڈوانس میںلیتے تھے۔ اب وہ اپنی رقم سمیت جاچکا ہے اور ہم بے بسی سے ہاتھ مل رہے ہیں۔ کئی سال پہلے ملکہ برطانیہ نے، جو کامن ویلتھ کی سربراہ ہیں، آسڑیلیا جاتے ہوئے عام کمرشل فلائٹ میں سفر کیا، جبکہ ہمارے نیک دل صدر نے پی آئی اے کے پہلے سے ہی ”خالی ہاتھ “ فضائی بیڑے سے اپنے اور اپنے عزیز و اقارب کے لئے جہاز چن لیا۔ ایک مرتبہ جب اُ ن کا جہاز کسی ملک میں خراب ہو ا تو کیا وہ کسی کمرشل پرواز سے واپس آئے ؟ ہر گز نہیں، یہ اسلامی جمہوریہ ہے ۔ اُن کو لانے کے لئے پی آئی اے کا ایک اورطیارہ گیا۔ پاکستان نے یہ فضائی کمپنی کیوں پالی ہوئی ہے ؟ بظاہر ایسا کوئی بین الاقوامی یا اخلاقی قانون نہیں ہے، جس کی رو سے ہر ملک کو کوئی نہ کوئی فضائی کمپنی رکھنا لازمی ہو۔ہم اس سفیدہاتھی کو دفنا کیوں نہیں دیتے تاکہ ہمارے نقصانات کچھ تو کم ہوں ؟ جب کوئی مجھے یہ بتاتا ہے کہ ” ہم نے دنیا کی اٹھائیس فضائی کمپنیوں کو اڑنا سکھایا“ تو جی چاہتا ہے کہ اُس کو زندہ تحریک طالبان پاکستان کے حوالے کر دوں اور اُس کا نام”ڈرون “ بتاﺅں۔     ٭
نوٹ! اس کالم کے جملہ حقوق بحق رائٹ ویژن میڈیا سنڈیکیٹ پاکستان محفوظ ہیں۔ اس کی کسی بھی صورت میں ری پروڈکشن کی اجازت نہیں ہے۔

مزید :

کالم -