پاکستان میں تعلیم کا دُہرا معیار !
علم کسی کی میراث نہیں ،ہے ایسی حقیقت ہے، جسے ساری دنیا نے تسلیم کر لیا ہے ۔ علم انسان کو بہت کچھ سکھاتا ہے، جس سے انسان شعور کی بلندیوں کو چھولیتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں علم کے بغیر انسان ادھورا ہے ۔ سب سے پہلا علم اللہ تعالیٰ نے انسانوں میں حضرت آدم علیہ السلام کو عطا ء کیا (القرآن) : ا للہ نے آدم کو تمام چیزوں کے نام سکھائے (البقرہ: آیت 31)۔ ابتدائی زندگی میں انسان جب پتھر کے دور میں تھا تو اُس کے لاشعور اور عقل نے اُس کو نت نئی ایجادات کے بارے میں آگاہی دی اور وہ نئی سے نئی ایجادات کرنے میں مشغول ہوگیا، جس سے اُس کی زندگی میں آسانیاں پیدا ہوتی چلی گئیں۔ جیسے انسان اپنے ستر کو ڈھانپنے کے لئے درخت کے پتوں کو استعمال کرتا تھا، پھر اُس کے شعور نے اُسے آگاہی فراہم کی اور آخر کار اُس کی تحقیق کپڑوں پر آکر ختم ہوئی۔ مشہور مقولہ ہے کہ "ضرورت ایجاد کی ماں ہے" ....جیسے جیسے انسان کی ضروریات میں اضافہ ہوتا گیا، ویسے ویسے نئی سے نئی ایجادات ہوتی چلی گئیں اور یہ سلسلہ تا حال جاری ہے ۔دنیا کی تاریخ بڑے بڑے مفکروں، دانشوروں، سائنسدانوں، ادیبوں اور شعراءسے بھری پڑی ہے جنہوں نے انسانوں کی بھلائی کے لئے خدمات انجام دیں۔ وہ لوگ آج دنیا سے جا چکے ہیں ،لیکن اُن کا علم آج بھی کتابوں میں انسانی خدمات کے لئے محفوظ ہے ،جن کی بدولت وہ آج ہزاروں سال بعد بھی لوگوں کے اذہان و قلوب میں زندہ جاوید ہیں ۔ آج انسان تعلیم حاصل کرکے بڑے بڑے دعوے کرتا نظر آتا ہے اور یہ بھول جاتا ہے کہ یہ سب اُس کو اللہ کی عطاء سے ملا ہے اور بہت سے علم کے عروج کے بعد اللہ ہی کو بھول جاتے ہیں۔ بس اُن کو اپنے علم پر ناز ہوتا ہے ۔علم کی معراج پانا اور ہے، زندگی کے تلخ حقائق اور ہیں۔علم کی بھی کئی اقسام ہیں:1۔ جو ہم سکول، کالج و مدرسے سے حاصل کرتے ہیں۔2۔ جو معاشرہ ہمیں سکھاتا ہے۔3۔جو اپنی ذاتی زندگی اور تجربوں سے حاصل کرتے ہیں۔ پاکستان میں بد قسمتی سے دوہرا معیار تعلیم رائج ہے، یعنی وہ حضرات جو دولت مند ہیں، اُن کے بچے 0 لیول ، Aلیول اور دیگر انگلش پرائیوٹ سکولوں میں لاکھوں روپے خرچ کر کے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ مغربی ملکوں میں بھی یہ بچے سکولوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور جدید تعلیم سے آراستہ ہو تے ہیں، ایسی جدید تعلیم حاصل کرنے کے بارے میں غریب و متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے؟ لیکن اس تمام تر صورت حال کے باوجود غریب و متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے بچے، جو گورنمنٹ کے پیلے سکولوں میں پڑھتے ہیں اور اپنی محنت، لگن اور طویل جدوجہد کے نتیجے میں ہائیر ایجوکیشن حاصل کر نے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، لیکن اپنی فیلڈ میں ماہر ہونے کے باوجود غربت اُن کے آڑے آجاتی ہے اور اچھی نوکری کے لئے انہیں در در کی ٹھوکریں کھانا پڑتی ہیں۔ بے روزگاری سے تنگ ہمارے ملک کے ہنر مند افراد بیرون ملک منتقل ہوجاتے ہیں اور وہاں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتے ہیں، جہاں اُن کو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے، جبکہ یہاں میرٹ کو نظر انداز کردیا جاتا ہے اور سفارشی افراد کو اہم عہدوں پر بھرتی کر لیا جاتا ہے جو کہ فرسودہ نظام سے وابستہ عناصر کی مرہون منت ہے اور اس جاگیردارانہ نظام کی وجہ سے ملک پستی کی جانب گامزن ہے، جو یقیناً ہر پاکستانی کے لئے لمحہءفکریہ ہے۔ پاکستان کے استحکام کو اگر مضبوط بنانا ہے اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا معیار بلند کر نا ہے تو تعلیمی نظام میں جدت لانا ہوگی۔ آج جو ترقی یافتہ ممالک جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے سپر پاور بن کر ساری دنیا پر حکومت کر رہے ہیں، وہ علم کی بدولت ہے، لہٰذا ہمیں بھی ترقی یافتہ ملکوں میں شامل ہونے کے لئے شرح خواندگی 100فیصد کرنا ہوگی اور اس ملک سے برسوں پرانا فرسودہ، جاگیردارانہ نظام ختم کرنا ہوگا ۔اس کے بغیر ترقی کے دعوے جھوٹے اور خواب ہی ثابت ہوں گے۔ترقی کا انحصار بے شک علم ہی ہے ،لیکن علم کے ساتھ ساتھ ہمیں ایسے رہنما کی بھی ضرورت ہوتی ہے، جو ملک میں انصاف کی بالادستی کے لئے اپنا مثبت کردار ادا کرے، کیونکہ مخلص رہنما اور قیادت کے بغیر ملکی ترقی ممکن نہیں۔دنیا میں جتنے بھی ترقی ےافتہ ممالک ہیں، ان کی ترقی میں ان کی مخلص قیادت کا ہاتھ ہے ۔ پاکستان میں ایک ہی خلا ہے، جس کو گزشتہ 6عشروں سے پُر نہیں کیا جاسکا ۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ملک میں فرسودہ نظام کی اجارہ داری قائم ہے ۔ملک میں ترقی صرف اُس صورت میں ہی ممکن ہو سکتی ہے، جب مخلص قیادت اس ملک کی باگ ڈور سنبھالے اور یہ ذمہ داری اب عوام پر عائد ہوتی ہے کہ وہ جلد از جلد اس ملک میں موجود فرسودہ نظام کے حامیوں کو کیفر کردار تک پہنچائے اور ایسی قیادت کو منتخب کریں جو فرسودہ ، جاگیردارانہ نظام کے خلاف ہو۔اب عوام کا شعور بھی بیدار ہوچکا ہے اور ملک کے محب وطن عوام اس نظام سے بےزار نظر آتے ہیں ،کیونکہ اس نظام کے حامی کرپٹ سیاستدانوں نے ملکی استحکام اور وقار کو دائو پر لگادیا ہے، لہٰذا اب عوام کو اپنے دیرینہ مسائل کے حل کے لئے غریب و متوسط طبقے کی جماعت کو کامیاب بنانا ہوگا، اسی میں ملک و ملت کی کامیابی ہے۔