جنگ بندی: ایں خیال است و محال است و جنوں
جن دو باتوں کا ڈر تھا، وہی ہو گئیں۔ایک تو طالبان نے جنگ بندی کا اعلان کردیا اور دوسرے حکومت نے اس اعلان کا خیر مقدم بھی کردیا!
طالبان کے اس یکطرفہ اعلان میں جو تین چارباتیں بڑی غور طلب ہیں، وہ یہ ہیں:
1۔ یہ جنگ بندی صرف ایک ماہ کے لئے ہے.... یعنی یکم مارچ 2014ءسے 31مارچ 2014ءتک۔ اگلے ماہ کی یکم تاریخ کو ٹی ٹی پی کی مجلسِ شوریٰ فیصلہ کرے گی کہ تیل کی قیمتیں گھٹانی ہیں بڑھانی ہیں یا وہی رکھنی میں! گویا ان کی جنگ بندی کا انحصار بین الاقوامی تیل کی منڈی پر ہے! کس پاکستانی کو خبر نہیں کہ تیل سے کیا مراد ہے؟ اس کی قیمت کا تعین کون کون سے ممالک کرتے ہیں؟ اور ان کے تعینِ قیمت کے پیمانے کیا ہیں؟....کاش حکومت تیل دیکھتی اور اس کی دھار بھی دیکھتی!
اور ہاں اس سلسلے میں حکومت کو پنجابی زبان کا ایک روز مرہ اور استعارہ بھی یاد ہوگا جس کو عرفِ عام میں ”تیل دنیا“ کہا جاتا ہے۔اس روز مرہ کے معانی خواہ کتنے ہی رقیق، غلیظ یا قابل نفرین ہوں، طالبان کی اس یکطرفہ جنگ بندی کے مفہوم و معانی سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ مرکزی حکومت اگر پنجابی نژاد ہو کر بھی پنجابی کے اس محاورے کو نہ سمجھے تو پھر خدا اس سے سمجھے۔
ہاں ایک بات جو اس اچانک ”طالبان اعلان“ میں قابلِ اطمینان ہے ، وہ مرکزی حکومت میں بڑے بڑے پنجابی سیاسی رہنماﺅںکا بیان ہے۔ ان میں سے ایک تو ”اہلِ چکری“ ہیں جن کو طالبان کے اس چکر کی سمجھ آ چکی ہے۔انہوں نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ حکومت جوابی کارروائی کا حق محفوظ رکھتی ہے۔وزارت داخلہ کا قلمدان ایک بڑا قلمدان ہوتا ہے، اس لئے چودھری نثار علی خان صاحب نے جو کہا تھا وہی اہلِ سیالکوٹ کے خواجہ آصف صاحب نے کر دکھایا۔جب یکم مارچ کو خیبر ایجنسی میں پولیو ٹیم پر حملے میں 12ورکرز ہلاک کر دیئے گئے تو وزیر دفاع نے اس کا ترنت جواب دیا اور گن شپ کے حملے میں دیر نہیں لگائی۔ تیسرے پنجابی وزیر،اپنے پرویز رشید صاحب اہلِ لاہور ہیں، جنہوں نے کہا ہے کہ طالبان کی پیشکش کا جائزہ لیا جا رہا ہے....جیسا دیس ہوگا ہم ویسا ہی بھیس اختیار کریں گے!جزاک اللہ!!
2۔ دوسری غور طلب بات، طالبان کا یہ بیان ہے کہ انہوں نے اکابر علماءکی اپیل کا احترام کیا ہے۔سبحان اللہ! کیا اندازِ احترام ہے اور کیا خوئے دلنوازی ہے!....
ملک کے اکابر علماءنے گزشتہ چودہ پندرہ برسوں میں پہلی بار ہی تو یہ اپیل کی ہے کہ خدا کا خوف کریں۔خلقِ خدا کا خون نہ بہائیں اور اپنے ہی ہم وطنوں کے ساتھ یہ سلوک نہ کریں۔تحریک طالبان پاکستان کے مطابق گویا یہ اکابر علماءایک ڈیڑھ عشرہ سے مملکتِ خداداد میں امن و امان اور سکوت و سکون کی کیفیت کا جائزہ لیتے رہے ہیں اور اب ان پر یکدم یہ منکشف ہوا ہے کہ طالبان نے یہ کیا ”نیا شگوفہ“ چھوڑ دیا ہے۔ اس لئے انہوں نے TTPسے اپیل کی ہے جسے تحریک نے اذنِ باریابی عطا کردیا ہے۔اسلام تو سلامتی کا دن ہے ناں....اس میں خونِ ناحق بہانا(اور وہ بھی کسی ہم وطن اور ہم مذہب کا) کسی بھی صورت قابلِ قبول نہ تھا۔
ان ”اکابر علمائ“ سے طالبان کی مراد کون سے اکابر علماءہیں،ان کی کوئی تفصیل مولوی فضل اللہ ہیڈکوارٹر سے اگرچہ جاری نہیں کی گئی لیکن اہلِ وطن جانتے ہیں کہ اکابر علما کون کون سے ہیں اور ”غیر اکابر علمائ“ سے کون کون مراد ہیں۔ویسے کئی برسوں سے یہ غیر اکابر علماءدہائی دیتے چلے آ رہے تھے کہ یہ سفاکی اور یہ بربریت غیر اسلامی، غیر اخلاقی اور غیر انسانی فعل ہے۔اس لئے ”خدارا“ اس کو بند کریں۔لیکن چونکہ یہ علماءغیر اکابر علما تھے، اس لئے ان کی ایک نہ سنی گئی۔اب اکابر علما ”سامنے“ آ گئے ہیں تو طالبان نے فوری طور پر ان کی اپیل پر لبیک کہا ہے اور خونریزی روک دی ہے۔ثم جزاک اللہ!
3۔تحریک طالبان کے مختصر بیان میں تیسرا نکتہ یہ ہے کہ انہوں نے مذاکراتی کمیٹی کا احترام کیا ہے۔اکابر علماءکی اپیل کے احترام کے بعد مذاکراتی ٹیم کا احترام اس لئے لازم ٹھہرتا تھا کہ اس ٹیم کے عناصرِ اربعہ میں تین عناصر تو وہ ہیں جو طالبان کے بہی خواہ ہیں اور اس حوالے سے اہلِ پاکستان کے بھی بہی خواہ ٹھہرتے ہوں گے۔وہ طالبان کے ہم زبان بھی ہیں۔جنگ بندی کے اس اعلان پر ان حضرات کا تبصرہ بڑ امعنی خیز رہا ہے، مثلاً رستم شاہ مہمند صاحب نے فرمایا ہے کہ اب وقت ہے کہ دونوں فریق ایک دوسرے کے قیدی رہا کردیں.... رستم صاحب منجھے ہوئے سفارتکار اور بیورو کریٹ رہے ہیں۔ان کا ادّعا ہے کہ بین الاقوامی قانون یہی ہے کہ جب جنگ بندی ہو جائے تو دونوں ممالک ایک دوسرے کے جنگی قیدی رہا کردیتے ہیں۔آپ کو یاد نہیں تو ہم یاد دلائے دیتے ہیں کہ ستمبر1965ءکی پاک بھارت جنگ میں بھی ایسا ہی ہوا تھا اور پھر 1971ءکی جنگ میں بھی بھارت کو 90ہزار پاکستانی قیدی رہا کردینے پڑے تھے، لہٰذا اسی ”اصول“ ،اسی ”بین الاقوامی دستور“ اور اسی ”قاعدے“ کے عین مطابق اب طالبان اور پاکستان کو بھی ایک دوسرے کے جنگی قیدی رہا کر دینے چاہئیں، تاکہ اعتماد کی فضا بحال ہو، شکوک کے بادل چھٹ جائیں اور شبہات کی منحوس پرچھائیاں دور ہو جائیں۔اب دیکھئے اس پر حکومتِ پاکستان کا کیا ردعمل سامنے آتا ہے اور وہ ”حکومتِ طالبان“ کے کتنے قیدی رہا کرتی ہے اور اپنے کتنے چھڑواتی ہے!
مذاکراتی ٹیم کے ایک اور رکن جناب رحیم اللہ یوسف زئی کا فرمانا ہے کہ اس جنگ بندی سے تحریک طالبان پاکستان یہ جائزہ لینا چاہتی ہے کہ حکومت ان کے ساتھ بات چیت میں کتنی سنجیدہ ہے۔ان کا یہ بیان بھی سامنے آیا ہے کہ ہماری ٹیم کو بات چےت کے لئے صرف سترہ (17) دن دیئے گئے جو بالکل ناکافی تھے۔دیکھیں ناں شمالی اور جنوبی کوریا کی جنگ بندی کے بعد (1950-53ئ)مذاکراتی عمل میں تو تین سال لگ گئے تھے۔اس لئے رحیم اللہ صاحب ٹھیک ہی کہتے ہیں، ان کا کام اتنا مشکل اور پیچ در پیچ تھا کہ ان کو بھی اگر تین سال نہ سہی، تین ماہ تو دیئے جاتے۔البتہ ان تین مہینوں میں پاکستان میں کس کس کا خون بہتا یا نہ بہتا، یہ دوسری بات تھی اور اس کا کچھ بھی تعلق مذاکراتی ٹیم کے ایجنڈے سے نہ تھا۔
مذاکراتی ٹیم کے تیسرے رکن میجر عامر کا ابھی تک کوئی بیان میری نظر سے نہیں گزرا....خدا خیر کرے!
چوتھے رکن اور کوآرڈینیٹر جناب عرفان صدیقی کا بیان ہے کہ یہ جنگ بندی فریقین کے خفیہ مذاکرات کے نتیجے میں عمل میں آئی ہے۔اس لئے طالبان کی طرف سے جنگ بندی کا اعلان بڑا خوش آئند ہے....خدا کرے یہ خوش آئند رہے!
اس اعلانِ جنگ بندی کا آج چوتھا روز ہے لیکن جنگ بندی کی اس چار روزہ زندگی میں بھی طالبان کے ٹھکانوں کے خلاف چار ہیلی کاپٹر بھیجنے پڑے ہیں۔مجھ جیسے ”وہمی لوگ“ نجانے ان خطوط پر کیوں سوچتے رہتے ہیں۔
کل ایک مجلس میں میرے جیسے چند اور وہمی لوگ بھی تھے، ان سے پوچھا گیا کہ تحریک طالبان نے جو یہ اعلان کیا ہے اس میں جو کہا گیا ہے کہ اکابر علما کی اپیل، مذاکراتی ٹیم کے احترام اور اسلام اور پاکستان کے بہترین مفادمیں ایک ماہ کے لئے یکطرفہ جنگ بندی کردی گئی تو یہ بتایئے کہ اس میں پاکستان کا بہترین مفاد ہے بھی یا نہیں ہے؟ یہ بھی پوچھا گیا کہ اگر آپ کو کہا جاتا کہ اس اعلان کا مسودہ تحریر کریں تو آپ کیا لکھتے؟
وہ وہمی بزرگ فرمانے لگے کہ اگرچہ وقت یہ بتائے گا کہ طالبان کی جنگ بندی مزید کتنے دن چلتی ہے لیکن چونکہ میں نے فوج میں رہتے ہوئے ان حضرات کے ساتھ ایک مدت گزاری ہے اس لئے میں اپنے تجربے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ یہ جنگ بندی تارِ عنکبوت سے زیادہ مضبوط ثابت نہیں ہوگی۔
انہوں نے مزید کہا کہ میرے خیال کے مطابق حکومت کی طرف سے مندرجہ ذیل مطالبات آنے چاہئیں تھے اور مولانا سمیع الحق کو مدینہ جانے سے پہلے ان نکات پر بھی اعتماد میں لیا جانا چاہیے تھا، تاکہ وہ تحریک کے سرکردہ لوگوں کا عندیہ حکومت کو بتا جاتے:
٭.... تحریک طالبان کا کوئی ایسا نیا سربراہ مقرر کیا جائے جو پاکستان میں رہتا ہو، پاکستان کے آئین کا پابند ہو اور حکومت کی وفاداری کا اعلان کرے۔
٭....تحریک طالبان، فاٹا میں موجود تمام غیر ملکی باشندوں کو ایک مقررہ مدت کے اندر اندر حکومت کے حوالے کر دے۔
٭....فاٹا(یا پاکستان میں اور کسی بھی جگہ) بارود بنانے کی فیکٹریوں کی نشان دہی کی جائے۔
٭....ان ذخائر کی نشاندہی بھی کی جائے جہاں خودکش بمباروں کی جیکٹیں اور دوسرا سامانِ بم سازی تیار کرکے سٹور کیا جاتا ہے۔
٭.... ان غیر ملکی طاقتوں کی نشان دہی کی جائے جن کی مالی اور تکنیکی معاونت سے خودکش بمباری کا یہ سلسلہ چل رہا ہے اور چلتا ہی چلا جا رہا ہے!
٭....فاٹا کے تمام علاقوں کو پاکستانی افواج کی رسائی میں دیا جائے اور کسی فوجی قافلے (کانوائے) سے آئندہ کسی بھی قسم کا کوئی تعّرض نہ کیا جائے۔
٭....فاٹا کے علاقوں میں Settled Areasکی طرح تعلیمی اداروں، ہسپتالوں، زرعی اداروں اور سماجی بہبود کے اداروں کا ویسا ہی نظام قائم کیا جائے جیسا کہ دوسرے پاکستانی علاقوں میں ہے۔
٭.... فاٹا سے تمام غیر ملکی NGOsکو نکال دیا جائے۔
میرے جیسے وہمی لوگ بھی ان کی یہ باتیں سن کر طیش میں آ گئے اور جواباً ان کو ٹوک کر چپ کرانا اور کہنا پڑا :”حضرت! آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں؟.... ایسا تو قیامت تک ان علاقوں میں نہیں ہوسکتا۔ان لوگوں کی اپنی روایات ہیں۔روسی اور امریکی بھی یہی ارمان دل میں لے کر یہاں سے بے آبرو ہو کر نکل گئے تھے۔آپ کس باغ کی مولی ہیں؟ اسی قسم کے خواب دیکھنا چھوڑ دیں۔31دسمبر2014ءکے بعد دیکھنا کہ ان علاقوں میں شدت پسندی کا گراف زیادہ اونچا جاتا ہے یا کم ہوتا ہے؟“
ان صاحب نے جواب میں صرف ایک جملے میں بات ختم کردی۔کہنے لگے: ”پاکستانی ڈرونوں اور گن شپ ہیلی کاپٹروں کو صرف تین ماہ تک کھلی چھٹی دے دیں۔پھر دیکھیں کیا ہوتا ہے....روس کو امریکی سٹنگر نے نکالا اور امریکہ کو خودکش بمباروں نے نکالا۔ خودکش بمباروں کو اب صرف ڈرون اور گن شپ نکال سکتا ہے“!
میں ان کا بھاشن سنتا رہا اور مسکراتا رہا....وہمی جو تھا....آخر میں مجھ سے رہا نہ گیا اور کہا: ”سر! آپ شائد فاٹا کو یوٹوپیا سمجھ رہے ہیں۔اگر کل کلاں پولیو کے قطروں والے حادثے کی طرح کا کوئی اور حادثہ ہوگیا تو طالبان نے تو بری الذمہ ہونے کا اعلان کر دینا ہے، جیسے وہ 2مارچ کو کرچکے ہیں۔ایسے میں حکومت کیا کرے گی؟ آپ کی درج بالا شرائط کو توکبھی بھی طالبان نہیں مانیں گے اس لئے پاکستان کی اس بیماری کا کوئی اور علاج اس کے سوا کچھ اور نہیں جو کسی شاعر مشرق نے کہا تھا:
نہ فقر کے لئے موزوں ، نہ سلطنت کے لئے
وہ قوم جس نے گنوایا متاعِ تیموری