پاک افغان تعلقات
وزیراعظم نواز شریف نے امید ظاہر کی ہے کہ افغانستان میں امن مذاکرات جلد کامیاب ہوں گے ۔نواز شریف نے سوموار کو وزیراعظم ہاؤس میں افغان سفیر جانان موسیٰ زئی کے ساتھ ملاقات کے دوران پاکستان میں امن کوافغانستان میں امن سے مشروط قرار دیا۔افغان سفیر نے نواز شریف کے ’امن بقائے باہمی ویژن ‘کی تعریف کی اور افغان صدر کی جانب سے نیک تمنائیں بھی پہنچائیں۔ پاکستان اور افغانستان دوطرفہ اہم فیصلوں پر عملدرآمدکے لئے فوکل پرسنز مقرر کریں گے، جس کی پاکستان نے منظوری دے دی ہے اور کابل بھی جلد ہی اس کا فیصلہ کر لے گا۔ وزیراعظم نواز شریف نے افغان سفیر سے افغانستان میں برفانی تو دے گرنے سے جانی و مالی نقصان پر افسوس کا اظہار بھی کیا اور ان کو یقین دلایا کہ اس مشکل گھڑی میں پاکستان ان کے ساتھ کھڑا ہے اور افغانستان کی ترقی و پائیدار استحکام کے لئے تعاون جاری رکھے گا۔ وزیراعظم نے اس بات پر اطمینان کا اظہار بھی کیا کہ پاکستان افغانستان مشترکہ بزنس کونسل کا اجلاس آئندہ چند ہفتوں میں ہو گا، جس میں دونوں ممالک میں کاروبار کی بہتری کے لئے بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو ترغیب دی جا سکے گی۔ وزیراعظم نے پاکستان اور افغانستان میں سیکیورٹی اور دفاعی شعبے میں تعاون کے فروغ کو تسلی بخش قرار دیا ، انہوں نے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات بہتر بنانے میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے کردار کو بھی سراہا اور کہا کہ دونوں ملکوں کے مابین اہم معاملات کو سلجھانے میں آرمی چیف کے دورے مددگار ثابت ہوئے۔
جنرل راحیل شریف کے دوروں سے وزیراعظم نواز شریف بھی مطمئن اور خوش ہیں، ان کو کسی قسم کی کوئی پریشانی لا حق نہیں ہے، لیکن ان کے اس اطمینان نے فوج اور حکومت کے درمیان تناؤ کی پیش گوئیاں کرنے والوں کو ضرور بے سکون کیا ہو گا، جن حلقوں کو یہ غلط فہمی لاحق ہو گئی تھی کہ فوج اور حکومت دو مخالف سمت میں کھڑے ہیں ، ان کی بھی کافی حد تک تسلی ہو جانی چاہئے،ان شر پسند عناصر کو واضح پیغام مل گیا ہے کہ پاک فوج اور حکومت یک آواز ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ ہیں اور مل جل کر تمام اقدامات کر رہے ہیں، بلکہ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ فوج اور حکومت ایک ہی جسدِ خاکی کے دو اعضا ہیں، جن کی حرکت وبرکت ہی سے زندگی رواں دواں ہے۔آرمی چیف ملکی تحفظ کو در پیش مسائل سے نمٹنے کے لئے سرگرم ہیں ،اس سے قبل وزیراعظم کے اعتماد کے ساتھ ہی انہوں نے امریکہ ،برطانیہ، چین اور کابل کے دورے کئے تھے جس سے فائدہ مُلک ہی کو پہنچ رہا ہے، بین الاقوامی رائے عامہ پاکستان کے حق میں ہموار ہو رہی ہے اور پاکستان کی کاوشوں کو سراہا جا رہا ہے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے ابھی چند روز قبل بھی افغانستان کا دورہ کیا تھا جس میں انہوں نے افغان صدر اشرف غنی کو یقین دلایا تھا کہ ان کا دشمن پاکستان کا دشمن ہے، جس کا انہوں نے بہت خیر مقدم کیا تھا۔ دونوں رہنماؤں نے ایک دوسرے کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ساتھ رہنے کی یقین دہانی بھی کرائی اور ایک بار پھر عہد کیا تھا کہ ایک دوسرے کے خلاف اپنی سر زمین استعمال نہیں ہو نے دیں گے۔
حکومت اور فوج کی مشترکہ کوششوں سے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات بہتر ہو رہے ہیں، بداعتمادی کے بادل چھٹ رہے ہیں ، بد گمانی کم ہو رہی ہے ۔ ویسے بھی افغانستان اور پاکستان کا معاملہ بہت ہی مختلف ہے، دونوں ہمسایہ ممالک جغرافیائی اور ثقافتی لحاظ سے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور مسلمان ہونے کے ناطے بھائی بھی ہیں۔ پشتون قبیلے دونوں اطراف میں بستے ہیں۔ان دونوں ممالک کے درمیان جو خصوصی تعلق ہے اس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی، بلکہ ان دونوں ممالک کی مماثلت کے پیش نظر ہی رچرڈ ہالبروک نے انہیں ’ایفپاک‘ کا نام دیا تھا۔دونوں ممالک بھی اس اہمیت کو سمجھتے ہیں اور اب دو طرفہ تعلقات کی بہتری کے لئے کوشاں ہیں ،وہ ماضی کی غلطیاں دہرانا نہیں چاہتے۔
اب تو بھارت بھی یہ بات سمجھ رہا ہے کہ خطے میں ترقی و استحکام کے خواب کو مل جل کر ہی شرمندۂ تعبیر کیا جا سکتا ہے۔اسی لئے تو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی جو پہلے اپنی بات پر ڈٹے ہوئے تھے ، وہ بھی لچک کا مظاہرہ کرنے پر مجبور ہوئے، پاکستانی وزیراعظم کو فون کیا اور سیکریٹری خارجہ کو پاکستان بھیجنے کی خبر بھی سنائی۔اسی کے نتیجے میں بھارتی سیکرٹری خارجہ جے شنکر پاکستان کے دو روزہ دورے پر ہیں اور امید کی جا رہی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان باہمی تعلقات کا نیا باب کھل ہی جائے گا، کشمیر سمیت تمام معاملات پر بات بھی ہو گی،ہو سکتا ہے آنے والے دنوں میں مثبت پیش قدمی بھی ہو اور دونوں ممالک کے درمیان تلخی کم ہو جائے۔اس خطے میں بسنے والے ممالک نے آپس میں جنگیں کر کے دیکھ لیا، ایک دوسرے کے خلاف تن من کی بازی لگا کر بھی دیکھ لیا ، اب یہ سمجھ لینا بھی ضروری ہے کہ تمام تر مسائل کا حل مذاکرات ہی میں پوشیدہ ہے۔افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی خبریں بھی گرم ہیں۔ ایسے میں پاکستان، افغانستان اور بھارت کو بھی خطے میں امن و سکون کی خاطر ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر آگے بڑھنا ہے، ایک دوسرے سے لڑ جھگڑ کر معاشی و اقتصادی ترقی کے خواب کوئی عقل وخرد سے بیگانہ ہی دیکھ سکتا ہے۔