پابلو نرودا کی شاعری (3)

پابلو نرودا کی شاعری (3)
 پابلو نرودا کی شاعری (3)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ان نظموں میں عام آدمی کی زندگی اور معمولی اشیاء کو خراج پیش کیا گیا ہے۔ ان میں روٹی ٹماٹر جنگل عناصر موسموں اور لباس کا ذکر ملتا ہے۔ اس کی شاعری کا موضوع دستکار، کارکن، ملاح، بھٹہ مزدور، ترکھان اور نانبائی ہیں۔ ان نظموں میں محنت کی عظمت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ نرودا کی مثالی ریاست کا خام مال وہی لوگ ہیں، جن کے درمیان اس نے زندگی گزاری ہے۔۔۔’’کانتو جنرل‘‘ کی زبان و بیان کی طرح ان نظموں کا طرز بیان بھی اسے ہم عصر شعراء سے ممتاز کرتا ہے۔جہاں دوسرے شعرا قحط لفظی کا شکار ہوتے ہیں۔ وہاں نرودا قوت گویائی کے جوہر دکھاتا ہے۔ اس کے نزدیک الفاظ محض وسیلہ اظہار ہی نہیں، بلکہ ماضی کے ساتھ تبادلہ خیال بھی ہیں۔ اس سے بڑھ کر وہ الفاظ کو حیات آفرین بنانے کا بھی قائل ہے۔
معانی سے بھرپور الفاظ
حیات آفرین ہوتے ہیں
ہرچیز کو زندگی عطا ہوتی ہے
سچ کی آواز، طاقت کی آواز
نفی اورموت کی آواز
جب الفاظ میں روح پھونکی جاتی ہے
تو ان میں طاقت آجاتی ہے
اس عمل میں خوبصورتی کا کوندا لپکتا ہے
لفظ آئینے کی مانند ہوتے ہیں۔ یہ لفظ ہی ہیں جو خون میں جوش پیدا کرتے ہیں۔ یہ لفظوں ہی کی جادوگری ہے کہ دنیا والے شعوری طور پر چیزوں کے ناموں کو چیزوں سے جدا نہیں کر سکتے۔ اگرچہ نرودا کے نزدیک شاعری ایک سماجی عمل ہے، لیکن وہ اس عمل کو محدود نہیں کرتا۔ وہ اپنے ذاتی تجربات کو اپنی شاعری کا ایک اہم جزو بناتا ہے۔۔۔ایک دور میں وہ اپنی شاعری کا موضوع دیومالائی کہانیوں کو بناتا ہے، جس میں تخیلاتی مافوق الفطرت جانوروں کا ذکر کرتا ہے، اس کی مثال اس کی مشہور نظم ہے، جس میں جل پری شرابیوں کی محفل میں آتی ہے۔ ایک اور نظم میں ملاح اور دیوہیکل آکٹوپس کی لڑائی کا قصہ بیان کیا گیا ہے۔
نرودا 1952ء میں دوبارہ رومانی شاعری کی طرف رجوع کرتا ہے۔ نیپلز سے شائع ہونے والے اس مجموعے کا بظاہر مخاطب روساریوڈی لاسرڈا ہے، لیکن حقیقت میں یہ نظمیں ماٹل یورشیا کے لئے لکھی گئیں، جس سے 1955ء میں نرودا نے شادی کر لی۔ بعد میں اسی خاتون کے نام 1959ء میں ’’محبت کی سو نظمیں‘‘ لکھی گئیں۔۔۔شادی کے بعد نرودا کی شاعری میں ایک اہم تبدیلی آئی اور اس نے فطرت سمندر اور اپنے گھر ازلانیگرا کے بارے میں زیادہ شدت سے لکھنا شروع کیا۔ دنیا میں گھومنے پھرنے کے بعد سیاح اب تھک چکا تھا۔ اب وہ سکون کی خاطر فطرت کے ساتھ مکمل طور پر ہم آغوش ہونا چاہتا تھا۔ 1961ء میں چلی کے پتھروں پر اس کی نظمیں چھپیں۔ 1966ء میں اس کے دو مجموعے شائع ہوئے ایک مجموعے میں چلی کے پرندوں کے متعلق نظمیں شامل تھیں اور دوسرے میں اس کے گھر کے متعلق۔ یہ شاعری بھی پیغمبرانہ شاعری ہے، جس میں فطرت کے سربستہ رازوں کو آشکارا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ وہ چلی کے پتھروں میں بھی ایسی رعنائیاں ڈھونڈ لیتا ہے، جس سے ایک عام آدمی ناآشنا ہوتا ہے۔ وہ اس انکشاف پر حیرانی کا اظہار کرتا ہے۔ وہ اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ وہ چیزوں کے نام لینا پسند نہیں کرتا، بلکہ ان کو آپس میں گڈمڈ کرنا چاہتا ہے۔
جب تک دنیا کی تمام روشنی
سمندر کی طرح ایک نہیں ہو جاتی
ایک فیاضی، وسیع اکائی کی مانند
ایک خستہ، زندہ خوشبو کی طرح
(بہت سارے نام)
میں نے سمندر کی طرح
تمام روشنیوں کو اپنے اندر سمو لیا
جب زمین کے سربستہ راز مجھ پہ منکشف ہو گئے
تو میری روح پُرسکون ہو گئی
(قیلولہ ختم ہوتا ہے)
نرودا کی شاعری میں شاعر ایک ملاح کی مانند ہے جو حالات کی نیا کو وقت کے دھاروں کے مطابق چلانے پر قدرت رکھتا ہے۔ 1967ء میں شائع ہونے والی ’’سمندر کی نظمیں‘‘ ملاح اور کشتی کی تمثیلوں سے مزین ہیں ان نظموں میں اس کی آوارہ گردی سیاسی ابتلا اور ذاتی خوشیوں کے تاثرات نمایاں ہیں۔۔۔عنفوانِ شباب میں ’’محبت کی بیس نظمیں‘‘ لکھنے والا اور بُعد میں ’’کانتو جنرل‘‘ جیسے سنجیدہ شاہکار کا خالق اب ایک باوقار موت کی باتیں کرنے لگتا ہے۔
میرے محبوب
اب وقت آ پہنچا ہے
کہ اداس گلابوں کی پتیوں کو ریزہ ریزہ کر دیا جائے
ستاروں کو بجھا کر
ان کی راکھ زمین میں دفن کر دی جائے
صبح دم ہوتے ہی
جاگنے والوں کے ساتھ
اس ساحل سمندر پر اترا جائے
جس کا کوئی کنارا نہ ہو
یا پھر سونے والوں کے ساتھ
محو خواب رہا جائے
(سمندر کا گیت مرتا ہے)
نرودا کی شاعری کے بے شمار روپ ہیں۔ اس کی شاعری کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرنا ایک مشکل کام ہے اس کا فن اس کی زندگی کی طرح مختلف مراحل سے گزرا اور بالآخر اسے ادب کے افق پر ایک درخشندہ ستارے کی طرح رہتی دنیا تک روشن کر گیا۔ 1970ء کے انتخابات کے بعد ایک بار پھر اسے ازلانیگرا کو خیرباد کہنا پڑا۔ اس دفعہ اسے پیرس میں چلی کے سفیر کی حیثیت سے تعینات کیا گیا۔1971ء میں پیرس میں ہی اسے نوبل انعام سے نوازا گیا۔ سارتر کے برخلاف اس نے نوبل انعام کو اس لئے قبول کیا کہ شاعر عوام کا نمائندہ ہوتا ہے اور شاعر کی حوصلہ افزائی عوام کی حوصلہ افزائی کے مترادف ہے۔1972ء میں اس کے دو مجموعے منظر عام پر آئے ’’چار فرانسیسی نظمیں‘‘ اور ’’بے ثمر زمین‘‘۔۔۔ نوبل انعام حاصل کرنے کے بعد جب نرودا واپس ’’ازلانیگرا‘‘ لوٹا تو وہ ایک بیمار شخص تھا۔ اسے آرام اور سکون کی ضرورت تھی۔ بدقسمتی سے یہ دور چلی میں خانہ جنگی کا دور تھا۔ 1973ء میں دیئے گئے ایک انٹرویو میں نرودا نے چلی کی حالتِ زار کا نقشہ یوں کھینچا ہے: ’’ہم ایک ایسی جنگ لڑ رہے ہیں، جس کا ابھی اعلان نہیں ہوا۔ چلی ایک خاموش دیت نام ہے، جہاں گولیوں اور بموں کے بغیر تباہی پھیلائی جا رہی ہے‘‘۔
11ستمبر 1973ء کو جب وہ ازلانیگرا میں موت و حیات کی جنگ لڑ رہا تھا۔ بری اور بحری فوج نے بغاوت کر دی لا مونیڈا محل پر بمباری کی گئی ،جس کے نتیجہ میں الینڈی ہلاک ہوا۔ نرودا شائد اپنی پچاس سالہ جدوجہد کو اپنی آنکھوں کے سامنے تاخت و تاراج ہوتے ہوئے دیکھنے کے لئے زندہ تھا۔ 23ستمبر1973ء کو زندگی کی جنگ لڑنے والا یہ مرد آہن بالآخر اپنی زندگی کی بازی ہار کے امر ہو گیا، اس کی موت کے ساتھ ہی ہنگاموں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا، اس کی میت کو ایک اجتماعی جلوس کی شکل میں فوجی حکومت کے خلاف سارے شہر میں پھرایا گیا۔ سنتیاگو میں اس کے گھر کو کتابوں سمیت جلا کر راکھ کا ڈھیر کر دیا گیا۔ اس کی آخری نظمیں مستقبل میں پیش آنے والے واقعات پر طنز کے نشتر لئے ہوئے ہیں۔
1973ء کے ابتدائی دنوں میں اس کی نظموں کا مجموعہ ’’نِکسن کی انگیخت‘‘ اور ’’جشنِ انقلابِ چلی‘‘ شائع ہوئے۔ ان نظموں میں قدیم کلاسیکی اور رومانوی شعرا کی طرح گیت کی صنف سخن کو استعمال کیا گیا ہے۔ نروداکی شاعری میں اس مجموعے کی اپنی ایک ادبی حیثیت ہے، کیونکہ ان نظموں میں قوائدو اور وٹ مین جیسے شعراء کے حوالہ جات کے علاوہ سولہویں صدی عیسوی کے چلی کے پہلے رزمیہ شاعر ایلونسوڈی ارسیلا کا ذکر بھی ملتا ہے۔ ان نظموں میں شاعر ظلم و وحشت کو روکنے کے لئے شاعری کو بطور ڈھال پیش کرتا ہے۔ نرودا نے اپنے مرنے سے پہلے ’’جگنو‘‘ نامی نظم تخلیق کی ،جسے وہ ایک ’’یادگار کتبہ‘‘ کے نام سے موسوم کرتا ہے۔ اس نظم کی چند سطریں ملاحظہ ہوں:
آج وہ ایک گھنے جنگل میں
دشمن کی آوازیں سن کر
بھاگا جا رہا ہے
دشمن سے نہیں اپنے آپ سے دور
اس انبوہ کثیر کے شور سے دور
جو ہمیشہ اس کے گرد
ایک کورس کی مانند نغمہ سرارہا
زندگی کے معانی سے دور
خاموشی کے اس پرسکون لہجے میں
لہروں کی مدھر لے
مجھے سچائی سے ہم کنار کرتی ہے
اب میں کیا کہوں؟
سب کچھ تو ہو چکا
جنگل کی تمام راہیں مسدود ہیں
سورج پنکھڑیوں کے بند منہ کھول رہا ہے
چاند ایک سفید پکے ہوئے پھل کی مانند نظر آ رہا ہے
اور انسان اپنی تقریر کے آگے سرنگوں ہے
(ختم شد)

مزید :

کالم -