آج کے ’’پیر‘‘ اور ماضی کے بزرگ
معاملے کی نوعیت حساس ضرور ہے،لیکن یہ تنازعہ ایک بہت بڑے سماجی مسئلے کی نشاندہی کرتا ہے جو براہِ راست عقیدت اور مسلک سے بھی متعلق ہے تاہم جب بات نکلے تو پھر اس پر رائے بھی آتی ہے اور ہم جو خود عقیدت مندوں میں سے ہیں، اس پر بات کریں تو یقیناًنیک نیتی شامل ہے۔ یوں بھی جن بزرگوں کی شفقت اور تربیت سے ہم پلے بڑھے اور آج جس بھی مقام پر ہیں، ان کی بدولت صاف گوئی ہی اولیت سمجھتے ہیں۔ ایک سے زیادہ بار انہی صفحات میں یہ عرض کر چکے ہوئے ہیں کہ جمعیت العلمائے پاکستان کے بانی صدر، جامع مسجد وزیر خان کے خطیب، مولانا دیدار علی شاہ کے بڑے صاحبزادے جید عالم علامہ ابو الحسنات سید محمد احمد قادری ہمارے بزرگ ہیں، جن کے سامنے اور جن کے گھر میں ہم کھیل کود کر بڑے ہوئے اور انہی کی تعلیمات کا اثر ہے کہ ہم وہموں اور وسوسوں سے دور رہتے اور عقیدے میں پختگی کے حامل ہو کر بھی کسی بری رسم پر چل نہیں سکتے۔علامہ ابو الحسنات وہ ہستی ہیں، جن کے عقیدت مندوں کی تعداد اَن گنت تھی اور جواب بھی ہماری طرح بقید حیات ہیں وہ بھی کم نہیں ہیں۔ یہ بزرگ جس نوعیت کے درویش تھے ان کے بارے میں بات کریں تو لوگ حیرت کرتے ہیں، علامہ ابو الحسنات نے ہمیشہ اپنے درس کے ذریعے برائیوں سے بچنے کی تلقین کی۔ وہ اول تویہی فرماتے کہ کسی بھی مسلمان سے کسی فروعی یا شرعی مسئلہ کے بارے میں سوال جواب نہیں ہوں گے۔ قبر سے ابد تک جو بھی حساب کتاب ہونا ہے وہ اس شخص کی اپنی زندگی اوراپنے اعمال کے حوالے سے ہو گا اس لئے ہر مسلمان کو اللہ اور اس کے رسولؐ کے بتائے راستے پر چلتے ہوئے اپنے اعمال کو سدھارنا چاہئے۔
اصل موضوع پر بات کرنے سے قبل یہ ذکر ضروری ہے کہ تھوڑا موازنہ ہو جائے۔ علامہ ابو الحسنات نے درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا تو ان کی رہائش اکبری منڈی کے محلہ باغیچی صمدو کے ایک مکان میں تھی اور یہ کرایہ پر لیا گیا تھا۔ حضرت کے عقیدت مندوں میں ہمارے محلے کے متمول بزرگ بابو سراج دین اور ان کا خاندان بھی تھا۔یہ بزرگ حضرت سے بے تکلف بھی تھے، ایسی ہی ایک محفل کے دوران بابو سراج نے حضرت سے کہا کہ یہ مکان بک رہا ہے، آپ کی رہائش ہے، آپ خرید لیں، علامہ ابو الحسنات کا جواب واضح تھا کہ ان کے پاس ادائیگی کے لئے رقم نہیں،بابو سراج نے دریافت کیا کہ وہ کتنا انتظام کر سکتے ہیں تو علامہ ابو الحسنات نے گھر کے زیور سمیت کچھ رقم بھی بتائی تو ان سے یہ سب لے لیا گیا اور ان عقیدت مند بزرگ نے باقی رقم خود شامل کر کے یہ مکان خرید دیا اور یہ رقم بھی علامہ ابو الحسنات نے قرض کے طور پر قبول کی جسے بابو سراج نے قرضِ حسنہ میں تبدیل کر دیا۔ بہرحال یہ مکان ان کا ہوا اور یہی ان کا ترکہ بھی تھا کہ وہ خود طبیب تھے یہیں حکمت بھی کرتے۔ اگرچہ بہت کم قیمت لیتے، اکثر لوگوں کو دوا مفت بھی دے دیتے تھے۔ علامہ ابو الحسنات کے بعد یہ سب وراثت ان کے اکلوتے صاحبزادے امین الحسنات سید خلیل احمد قادری کو ملی جو انجمن حمایت اسلام کے طبیہ کالج سے بھی فارغ التحصیل تھے ان کی بھی ساری زندگی اسی درویشی میں گزری۔ یہ سب تمہید صرف یہ ایک بات عرض کرنے کے لئے تحریر کی کہ ہزاروں عقیدت مند اور راسخ العقیدہ بزرگ اور طبیب ہونے کے باوجود دونوں باپ بیٹوں کے پاس کبھی گاڑی یا کار نہیں رہی، وہ تانگے پر سفر کر لیتے یا پھر کوئی عقیدت مند اپنی گاڑی میں لے جاتا، استفسار پر یہی کہتے کہ کار خریدنے اور رکھنے کی استطاعت نہیں ہے کہ نذرانے نہیں لیتے تھے۔
اسی حوالے سے ہم یہ بھی عرض کر چکے ہوئے ہیں کہ حضرت مجدد الف ثانی ؒ کے خانوادے کے بزرگ صدر المشائخ پیپر فضل عثمان کابلی کے ظرف کو بھی دیکھنا نصیب ہوا کہ وہ اپنے وطن(افغانستان) سے جلا وطن ہونے کے باعث پاکستان میں مقیم تھے اور علامہ ابو الحسنات کے ہاں آیا کرتے تھے یہ بزرگ اتنے کھرے اور صاف گو تھے کہ کوئی غیر شرعی حرکت قبول نہیں کرتے تھے اور صاف مُنہ پر ٹوک دیا کرتے تھے جب بھی نصیحت کرتے تو یہی کہتے کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی پیروی کرو، نیک کام کرو اور اللہ سے بخشش مانگو۔ان بزرگوں کا ذکر مثال کے لئے کیا ورنہ اصل بات تو یہ ہے کہ ان دِنوں حضرت بابا فرید گنج شکرؒ کی سجادہ نشینی کا تنازعہ پیدا ہو گیا ہے اور جو صورتِ حال سامنے آئی اس کو مفتی منیب الرحمن تک نے پسند نہیں کیا اور فرمایا کہ اگر یہ بات درست ہے کہ محترم دیوان صاحب نے اپنی بیوی کے ہوتے ہوئے ان کی بھتیجی سے نکاح کیا تو یہ حرام ہے۔ دیوان مودود اس کی تردید کرتے ہیں۔ بہرحال بعدازاں جو صورت سامنے آ رہی ہے وہ یہ کہ سب سجادہ نشینی کا جھگڑا ہے اور وہ بھی محترم کا اپنی اہلیہ اور صاحبزادے کے ساتھ ہے اس کی تحقیقات ہو رہی ہے اس لئے ہم اس پر رائے زنی نہیں کرتے کہ بالآخر کچھ نہ کچھ تو برآمد ہو گا اور جو بھی اصل حقیقت ہو وہ سامنے آ جائے گی۔
یہاں اس تنازع نے اور بھی بہت سے امور کو اُجاگر کر دیا اور پاکستان کے قریباً تمام درباروں کے حوالے یاد آنا شروع ہوا کہ ہر جگہ سجادہ نشینی کا جھگڑا ہے۔ کسی دربار کا نام لئے بغیر ہی یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہر بزرگ کی جانشینی متنازعہ بنی ہوئی ہے اور بعض متحارب فریقوں کے درمیان خونریز تصادم بھی ہوئے ہیں، اب اگر اس کے پس پردہ عوامل دیکھے جائیں تو وہ سب آمدنی سے متعلق ہیں کہ سجادہ نشینی میں پیری مریدی چلتی ہے اور عقیدت مند نذرانے دیتے ہیں۔اگرچہ بیشتر مزار اوقاف کی تحویل میں ہیں،لیکن صاحب مزار سے عقیدت ہی لوگوں کو ان سجادہ نشین حضرات کی طرف متوجہ کرتی ہے ان سب کا تعلق ایک مسلک سے ہے اگر کوئی دوسرے مسلک والا اعتراض کرے تو بات کچھ اور بن جاتی ہے،لیکن یہاں تو مفتی منیب الرحمن نے کہا ہے کہ سجادہ نشینی وراثت نہیں۔ یہ تقویٰ اور پرہیز گاری سے متعلق ہے اور صاحبِ مزار جسے دستار فضیلت دے دیں وہی تبلیغ دین کا حق دار ہوتا ہے۔ تصوف میں تو قریباً ترک دنیا نظر آتی ہے،حضرت علی ہجویریؒ ہوں، حضرت نظام الدین اولیاءؒ ، حضرت خواجہ معین چشتیؒ یا بابا فرید الدین گنج شکرؒ ان سب نے تو فقر کا راستہ اختیار کیا۔ حضرت بابا فریدؒ کے بھانجے پیران کلیر والے صابرؒ صاحب کا عمل بالکل واضح ہے کہ انہوں نے شدید اور سخت تر ریاضت کے بعد مقام حاصل کیا اور پھر تبلیغ کے لئے رڑکی (بھارت) جا کر رشد و ہدایت کا سلسلہ شروع کیا، لیکن یہاں بات ہی دوسری ہے اور ایسی ایسی حکایات اور داستانیں ہیں کہ سُن کر توبہ کرنا پڑتی ہے،ہم نے علامہ ابو الحسنات اور ان کے صاحبزادے امین الحسنات سید خلیل احمد قادری کا ذکر ایک مثال کے طور پر اِسی لئے کیا کہ اللہ پر بھروسہ ہو تو کوٹھیوں اور کاروں کی ضرورت اور حاجت نہیں ہوتی۔چہ جائیکہ لینڈ کروزر اور محل حاصل ہو جائیں۔ اللہ رحم فرمائے، صاحبان مزار کی اپنی تاریخ ہی پڑھ لی جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ ان کو جاہ دنیا نہیں تھی اور ان کی انسان دوستی نے ہی دین کے پھیلاؤ میں حصہ لیا، ہم خود ان صاحبان مزار کے قائل اور عقیدت مند ہیں،لیکن جو کچھ سجادہ نشینی کے حوالے سے ہو رہا ہے وہ تو ہمارے بزرگوں کی تعلیم کے بھی منافی ہے۔ بہتر عمل تقویٰ اور پرہیز گاری ہی ہے، جسے اختیار کرنا چاہئے۔