ایک حا د ثاتی وزیر اعظم

ایک حا د ثاتی وزیر اعظم
ایک حا د ثاتی وزیر اعظم

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


گزشتہ ماہ فروری میں لاہور کتاب میلے میں جہاں کئی اہم کتابیں ہاتھ لگیں، وہیں پر ایک ایسی کتاب کو حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہا جو 2014ء میں چھپ چکی تھی، مگر پاکستان میں اس کتاب کی چند کاپیاں ہی آسکیں اور مَیں شدید خواہش کے باوجود بھی اس کتاب کا مطالعہ نہ کر سکا۔ یہی وجہ ہے کہ لاہور کتاب میلے کے ایک اسٹال پر جیسے ہی میرے کالم نگار دوست اور کتابوں کے رسیا حسین جاوید افروز کی نظر۔۔۔The Accidental Prime Minister۔۔۔ پرپڑی تو فوراً کتاب لے کر مجھے تھماتے ہوئے کہا کہ لیجئے اس کتاب میلے نے آپ کی یہ خواہش تو پوری کر دی۔۔۔The Accidental Prime Minister۔۔۔یعنی’’ ایک حادثاتی وزیر اعظم ‘‘ بھارت کے سابق وزیراعظم من موہن سنگھ کے 2004ء سے 2008ء تک میڈیا ایڈوائزر رہنے والے سنجے بارو کی لکھی ہوئی کتاب ہے۔ اس کتاب میں بارو نے من موہن سنگھ کے دور کا انتہائی دلچسپ احوال بیان کیا ہے۔ بھارتی سیاست پر نظر رکھنے والے افراد جانتے ہیں کہ من موہن سنگھ کا دس سالہ دور بھارتی سیاست میں بہت سے اہم اتار چڑھاؤ کا شکار رہا۔ خاص طور پر من موہن سنگھ کے دوسرے دور حکومت 2009-2014ء کے دوران کرپشن کے ایسے ایسے الزامات سامنے آئے، جن کے باعث پوری دنیا میں بھارت کی جگ ہنسائی ہوتی رہی۔ 2جی اسکینڈل، کوئلہ اسکینڈل، سپکٹرم اسکینڈل اور کامن ویلتھ گیمز اسکینڈل سمیت میگا کرپشن کے کئی اسکینڈلز سامنے آئے اور من موہن سنگھ خاموشی کے ساتھ قومی دولت کی اس لوٹ مار کو دیکھتے رہے۔
من موہن سنگھ کی اپنی ذات پر تو کرپشن کا کوئی الزام نہیں لگا، مگر ان پر یہی تنقید کی جاتی تھی کہ وہ اپنی کابینہ کے کئی وزرأ کی کرپشن روکنے میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں۔ اس کتاب میں بارو نے من موہن سنگھ کو مکمل طور پر بے قصور، مگر ایک بے بس وزیر اعظم کے طور پر پیش کیا ہے، جس کے پاس اختیارات نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ بارو کے مطابق من موہن سنگھ کا پہلا پانچ سالہ دور معاشی کامیابیوں کے حوالے سے بڑا شاندار تھا۔ من موہن سنگھ کے لئے اصل مشکلات ان کی دوسری میعاد2009-2014ء کے دوران پیدا ہوئیں۔ با رو کے مطابق جب من موہن سنگھ کی حکومت پرکرپشن کے الزامات لگنا شروع ہوئے تو من موہن سنگھ نے ان الزامات پر ایکشن لینے کی بجائے میڈیا میں یہ تاثر دینا شروع کر دیا کہ ان کے وزیر بیشک کرپٹ ہیں، مگر وہ خود تو ایماندار ہیں۔ من موہن سنگھ کے اس رویے نے ان کی ساکھ کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا،کیونکہ اگرکو ئی بیوروکریٹ یا ایک وزیر یہ رویہ اپنائے کہ وہ خود تو ایماندار ہے، اسے دوسروں کی کرپشن سے کیا لینا تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے، مگر جب ملک کا وزیر اعظم اپنی ناک کے نیچے ہونے والی کرپشن پر بے حسی کا رویہ اپنائے تو یہ قابل مذمت ہوتا ہے۔ بارو کی اس کتاب سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم کے دفتر میں کیسے پرانے بیوروکریٹس اور سیاستدانوں کا گٹھ جوڑ ہر اہم پالیسی فیصلے پر اثر انداز ہورہا ہوتا ہے۔ من موہن سنگھ کے میڈیا کے مشیر کے طور پر سنجے بارو کی سب سے بڑی ذمہ داری یہی تھی کہ وزیر اعظم من موہن سنگھ کے کام کو میڈیا میں زیادہ سے زیادہ اُجاگر کیا جائے، مگر من موہن سنگھ بار بار اصرار کرتے کہ بے شک ان کے کاموں کو اُجاگر کیا جائے، مگر اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ کسی بھی حالت میں گاندھی خاندان (سونیا اور راہول)کی اہمیت ان سے کم نظر نہ آئے۔ بارو کے مطابق من موہن سنگھ کے ذہن میں یہ بات راسخ ہوچکی تھی کہ ان کا پورا سیاسی وجود سونیا گاندھی ہی کی بدولت ہے، اس لئے سونیا کو کسی بھی بات پر ناراض کرنے کا مطلب ہوتاکہ من موہن سنگھ سیاسی خود کشی کرنے جارہے ہیں۔ بارو کے مطابق من موہن سنگھ کے لئے سب سے پہلے پارٹی، پھر وزارت عظمٰی ٰاور اس کے بعد ملک کی اہمیت تھی۔

من موہن سنگھ کے اسی رویے کے باعث ان کی کابینہ کے اکثر وزرامن موہن سنگھ کی بجائے براہ راست سونیا گاندھی سے ہدایات لیا کرتیتھے، حتیٰ کہ بھارتی صدر پرناب مکھرجی بھی جب کسی غیر ملکی دورے سے واپس آتے تو آئینی تقاضے کے مطابق اپنے اس دورے سے وزیراعظم کو مطلع کرنے کی بجائے وہ سونیا گاندھی کو ہی رپورٹ کرتے۔ بارو کے مطابق من موہن سنگھ کے سامنے سابق کانگرسی وزیراعظم نرسیما راؤ کا انجام تھا۔ نرسیما راؤ اپنے دور حکومت 1991-1996ء میں سونیا گاندھی کو کسی بھی حکومتی معاملے میں مداخلت کا کوئی حق نہیں دیتے تھے، پھر سونیا گاندھی نے جب1998ء میں کانگرس کی باگ ڈور سنبھالی تو نر سیماراو کو با لکل دیوار کے ساتھ لگا دیا گیا، حتیٰ کہ نرسیماراؤ کے انتقال کے بعد ان کے خاندان کو ان کی آخری رسومات دہلی میں کرنے کی اجازت بھی نہیں دی گئی، حالانکہ ہر سابق بھارتی وزیراعظم کی آخری رسومات دہلی میں ہی ہوا کرتی ہیں۔ ناچار نرسیماراؤ کے بیٹے کو اپنے باپ کی آخری رسومات کے لئے آبائی ریاست آندھرا پردیش جانا پڑا۔ سونیا کے زیر اثر کانگرسی حکومت نے دہلی میں نرسیماراؤ کی کوئی ایک یادگار بھی نہ بننے دی۔ بارو کے مطابق من موہن سنگھ پر نرسیماراؤ کے انجام کا بہت زیادہ اثر تھا۔ بارو لکھتے ہیں کہ من موہن سنگھ کے دور حکومت میں جو بھی اچھا کام ہوتا، اس کا سارا کریڈٹ سونیا گاندھی کو ملتا اور جو کچھ خراب ہوتا، اس کا ملبہ من موہن سنگھ پر ڈال دیا جا تا۔ بارو کے مطابق من موہن سنگھ پاکستان کے سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے ساتھ معاملات کو افہام وتفہیم سے حل کرنے کی جانب بڑھ رہے تھے، مگر سونیا گاندھی کے ساتھیوں نے شعوری طور پر من موہن سنگھ کو پاکستان کے ساتھ معاملات سلجھانے سے روک دیا کہ کہیں پاکستان کے ساتھ تعلقات اچھے ہونے کا سارا کریڈٹ من موہن سنگھ کو ہی نہ مل جائے۔ من موہن سنگھ کے پہلے دور حکومت میں امریکہ کے ساتھ بھارت کا ایٹمی معاہدہ من موہن سنگھ کے لئے بھرپور سیاسی مشکلات لے کر آیا۔ من موہن سنگھ امریکہ کے ساتھ اس معاہدے کے حامی تھے،مگر ان کے کمیونسٹ اتحادیوں کے ساتھ ساتھ خود سونیا گاندھی اور راہول گاندھی بھی اس معاہدے سے زیادہ خوش نہیں تھے۔


ان کا خیال تھا کہ امریکہ کے ساتھ ایٹمی معاہدے سے مسلمان ووٹوں کے ساتھ ساتھ کانگرس کو اپنے روایتی ووٹ بینک سے بھی محروم ہونا پڑسکتا ہے،کیونکہ کانگرس کے کئی حلقے اس معاہدے کو سامراجی معاہدہ قرار دیتے تھے۔ من موہن سنگھ نے جب اس معاہدے کو منظور کروانے کے لئے مستعفی ہونے کی دھمکی دی تو ان کو معاہدے میں پیش رفت کرنے کی اجازت دی گئی، تاہم بارو کے مطابق سونیا گاندھی اپنے قریبی ساتھیوں کو یہی کہا کرتی تھیں کہ اگر2009ء کے انتخابات میں کانگرس کو شکست ہوئی تو وہ اس شکست کے لئے من موہن سنگھ کو عوام کے سامنے مورد الزام ٹھہرائیں گی کہ من موہن سنگھ نے امریکہ کو خوش کرنے کے لئے ایسا معاہدہ کیا،جس کو بھارت کے عوام نے پسند نہیں کیا۔ جب2009ء کے انتخابات میں کانگرس پھراکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی تو سونیا گاندھی نے منافقانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے امریکہ کے ساتھ بھارت کے ایٹمی معاہدے کا کریڈٹ بھی خود لینا شروع کر دیا۔ بارو کے مطابق 2009ء کے انتخابات میں کامیابی کے ساتھ ہی سونیا گاندھی نے راہول کو وزیراعظم بنانے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ سونیا کا خیال تھاکہ اب 2004ء کے مقابلے میں راہول سیاسی طور پر پختہ ہوچکے ہیں، اس لئے وزارت عظمیٰ کا بوجھ بھی سنبھال لیں گے، تاہم سونیا گاندھی کو اس وقت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جب راہول گاندھی نے اپنی ماں پر واضح کر دیا کہ ابھی وہ اتنی بڑی ذمہ داری سنبھالنے کے قابل نہیں ہیں۔ یوں قسمت ایک مرتبہ پھر من موہن سنگھ پر مہربان ہوگئی اور وہ وزیر اعظم کے عہدے پر برقرار رکھے گئے۔ایک کالم میں285 صفحات کی کتاب کے تمام اہم پہلووں کو سمو دینا کسی بھی صورت ممکن نہیں ہے، ورنہ مزید کئی دلچسپ مشاہدات کو بھی اس کالم میں شامل کر دیا جاتا، مگر بھارت اور اس خطے کے سیاسی حالات میں دلچسپی رکھنے والے حضرات کو اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ اقتدار کی غلام گردشوں تک رسائی کسی عام فرد کو حاصل نہیں ہوتی۔ ایسے میں حکمرانوں کے قریب رہنے والے افراد کے مشاہدات اور تجربات عام افراد کو اقتدار کے اس نظام کو بہتر طریقے سے سمجھنے کا موقع دیتے ہیں۔ بارو کی کتاب۔۔۔The Accidental Prime Minister ۔۔۔بھی ایسے ہی مشاہدات پر مبنی کتاب ہے۔

مزید :

کالم -