پی ایس ایل فائنل،زلزلوں کے خوف سے گھربنانا نہیں چھوڑتے۔۔۔!!

پی ایس ایل فائنل،زلزلوں کے خوف سے گھربنانا نہیں چھوڑتے۔۔۔!!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


(تجزیہ:کامران چوہان)
پاکستان سپرلیگ کے فائنل کالاہورمیں کرانے کے حکومتی فیصلے کی مخالفت میں سیاسی قائدین کے بیانات کے بعدیہ موضوع اس وقت ہر طرف موضوع بحث ہے۔کچھ سیاسی قائدین نے ملک میں سیکورٹی خدشات کوبنیادبناکر فائنل کے لاہورمیں انعقادکی مخالفت کرکے کئی سوالات اٹھادیئے ۔ سیاسی رہنماپی ایس ایل فائنل کومحض حکومتی ضدگردانتے ہوئے اسے غلط فیصلہ قراردے رہے ہیں۔گوکہ ملک میں سیکورٹی خدشات ہیں گذشتہ دنوں ملک کے مختلف شہروں بالخصوص لاہورکوامن دشمنوں نے نشانہ بنایامگر اس ساری صورتحال پر قابوپانااور امن وامان کا قیام حکومت سمیت ان سیاسی جماعتوں کی ذمہ داریوں میں شامل ہیں جن کی جماعتیں صوبوں میں برسراقتدارہیں۔ اقتدارکی مسند پر براجمان شخصیات کوسیکورٹی خدشات کا رونازیب نہیں دیتاہے۔ان کی جانب سے سیکورٹی خدشات کاواویلا درحقیقت سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے سواکچھ نہیں ہے۔ 2009میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر لاہورمیں حملے کے بعد سے انٹرنیشنل کرکٹ کے دروازے پاکستان کیلئے بندہوگئے۔دنیا بھر کی ٹیموں نے پاکستان میں کسی بھی کرکٹ ایونٹ میں شرکت سے معذرت کرلی۔جس کے بعدپاکستانی حکومت اوربالخصوص پاکستان کرکٹ بورڈ نے ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کیلئے کئی جتن کئے ۔ملک میں کرکٹ کی بحالی کی سرتوڑکوششیں بھی کارگرثابت نہ ہوسکیں۔پاکستان کرکٹ بورڈ 9سال کی طویل جدوجہد کے بعدسوائے ایک زمبابوے کی کمزور ٹیم کے علاوہ کسی بھی غیرملکی ٹیم کو پاکستان آنے پرآمادہ نہیں کرسکا ۔پاکستان میں کرکٹ کی ایک نئی جہت کا اضافہ اس وقت ہوا جب گزشتہ سال پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل)کا آغاز ہوا ۔پی ایس ایل ون کے تمام میچز دبئی اور شارجہ میں کھیلے گئے اور یہ ایونٹ بھرپور کامیابی سے ہمکنار ہوا ۔2016میں اس بات کی کوشش کی گئی تھی کہ لیگ کا کم از کم فائنل میچ پاکستان میں ہوسکے لیکن یہ کوششیں باور ثابت نہ ہوسکیں ۔2017میں جب پی ایس ایل ٹو کا آغاز ہوا تو اس وقت ہی منتظمین نے اس بات کا فیصلہ کرلیا تھا کہ اس مرتبہ اس لیگ کا فائنل ہر صورت پاکستان میں ہی کرایا جائے گا ۔لیکن ملک دشمنوں کو یہ فیصلہ ایک آنکھ نہ بھایا اور انہوں نے اس فائنل کو رکوانے کے لیے ملک بھر بالخصوص لاہورکواپنا ٹارگٹ بنایا اوردہشتگردی کے واقعات رونماہوئے۔ ان سانحوں کے بعدبھی وزیراعظم اورپی سی بی نے ہمت نہیں ہاری اورپی ایس ایل کافائنل لاہورمیں کرانے کاباضابطہ اعلان کردیا گیا جبکہ سیکورٹی خدشات کو دورکرنے کیلئے آرمی سے بھی مددطلب کی گئی ہے ۔وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی فائنل دیکھنے کے لیے قذافی اسٹیڈیم لاہور میں موجود ہوں گے جس سے اس ایونٹ کو بین الاقوامی پذیرائی ملے گی ۔اس ساری صورتحال کے بعد کچھ حلقوں بالخصوص کچھ سیاسی رہنماؤں کی پی ایس ایل کافائنل لاہورمیں کرانے کی مخالفت سمجھ سے بالاتر ہے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان رہنماؤں نے فائنل پاکستان میں کرانے کی مخالفت کرنے سے قبل یہ کیوں نہیں سوچا کہ اقتصادی تعاون تنظیم کے 13ویں سربراہ اجلاس میں شرکت کے لئے ترکی،ایران،آذربائیجان،قازقستان،کرغزستان،تاجکستان،ترکمانستان اورازبکستان کے سربراہان مملکت علاوہ چین کے خصوصی نمائندے پاکستان میںآئے ۔ان تمام سربراہان مملکت اور سفیروں نے کسی خدشے کا اظہارنہیں کیا اور نہ ہی سیکورٹی کو بنیادبناکرپاکستان آمدکاارادہ ترک کیاتو آخر کیوں پاکستان میں رہنے والے افراد بالخصوص کچھ سیاستدان پاکستان میں پی ایس ایل کے فائنل کے انعقاد پرتحفظات کا اظہارکررہے ہیں؟۔جب متعددممالک کے سربراہان آپ کے قانون نافذکرنے والے اداروں پر اعتماد کرکے پاکستان آسکتے ہیں تو کیافائنل کی مخالفت کرنے والوں کے بیانات اپنے اداروں پر عدم اعتمادکے مترادف نہیں سمجھے جائیں گے؟۔یہ وقت ہرگز سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کا نہیں بلکہ ملک کی ساکھ اور وقارکوبلندکرنے کا ہے۔ مشکل وقت میں بڑے فیصلے کرنے پڑتے ہیں ۔حضور! زلزلوں کے خوف سے گھر بنانے نہیں چھوڑے جاسکتے ۔بالکل اسی طرح دہشتگردی کے خوف سے ملک میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی کی کوششیں ترک کرنا کہاں کی دانشمندی ہے ؟ اس وقت تمام سیاسی رہنماؤں کو چاہیے کہ اپنے نظریاتی وسیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دہشتگردوں اورملک دشمن قوتوں کے خلاف اپنے ملک کی ساکھ کو بچانے کیلئے ’’ون پوائنٹ ایجنڈے‘‘ پر متحدہوکر پی ایس ایل کے فائنل کے پرامن انعقاد میں اپنا کرداراداکریں اور دہشتگردوں اورملک دشمنوں کو پیغام دیں کہ پاکستان میں امن وامان کے قیام کیلئے پوری متحدہے۔اس وقت پاکستانی قوم خواہشمند ہے کہ 5مارچ کو قذافی اسٹینڈیم میں تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کراپنے اتحاد کا مظاہرہ کریں اور سبز ہلالی پرچم اتنی آب و تاب سے لہرائے کہ پوری دنیاجان لے کہ’’ ہم زندہ قوم ‘‘ہیں ۔