فلمی، ا دبی شخصیات کے سکینڈلز ۔ ۔ ۔ انیسویں قسط

فلمی، ا دبی شخصیات کے سکینڈلز ۔ ۔ ۔ انیسویں قسط
فلمی، ا دبی شخصیات کے سکینڈلز ۔ ۔ ۔ انیسویں قسط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ساقی کی ایک خوبی یہ تھی کہ وہ کئی زبانیں بالکل اصل تلفظ اور لب و لہجے کے ساتھ بول سکتے تھے۔ امریکنوں کے اندازمیں شانے ہلا ہلا کر انگریزی بولتے اور اس میں انگریزی کے علاوہ اپنے خود ساختہ بے معنی فقرے بھی شامل کر لیتے اور سننے والا حیران ہو کر ان کو دیکھتا رہ جاتا۔ وہ کم از کم ہفت زبان تو ضرور تھے۔ فارسی‘ پشتو، سندھی اور پنجابی کے علاوہ فرنچ بھی بولا کرتے تھے۔ خدا جانے وہ فرنچ ہی تھی یا ان کی کوئی خود ساختہ زبان تھی مگر لب و لہجہ خالص فرنچ ہی تھا۔

فلمی، ا دبی شخصیات کے سکینڈلز ۔ ۔ ۔ اٹھارہویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ساقی صاحب لکشمی چوک میں مل جاتے اور اسٹوڈیو جانے کا ارادہ ہوتا تو پوچھتے ’’آفاقی صاحب ! اسٹوڈیو چلنا ہے ؟‘‘
پروگرام ہوتا تو ہم فوراً تیار ہو جاتے ہیں۔ وہ اپنی چمچماتی ہوئی کار میں ہمیں بٹھاتے اور کار کسی پیٹرول پمپ کے سامنے لے جاکر روک دیتے۔
’’یار بہت کڑکی ہے‘ آدھا گیلن پیٹرول تو ڈلوا دو۔‘‘
آدھا گیلن کا مطلب تھا چودہ آنے۔
ہم شکایت کرتے ’’بڑے افسوس کی بات ہے۔ اس بہانے ہم سے کرایہ وصول کرو گے ؟‘‘
’’ایمان سے جیب میں ایک پیسہ بھی نہیں ہے۔ یار کبھی کبھی دوستوں کی مدد بھی کر دیا کرتے ہیں۔ اﷲ اجر دیتا ہے۔‘‘
بعد میں جب ہمارے اور ان کے حالات بہتر ہو گئے تو ہم دونوں پرانے دنوں کی باتیں یاد کر کے ہنسا کرتے تھے۔ ساقی اس زمانے میں ہمیں اسٹوڈیو لے جانے اور وہاں سے واپس لانے کا سب سے معقول ذریعہ تھے۔ اس زمانے میں فلمیں ہی کتنی بنا کرتی تھیں اور ساقی تو بالکل بیکار ہی تھے۔ گھر سے منگا کر خرچہ کرتے تھے۔
ان ہی دنوں ہم ایک بار الحمرا آرٹ کونسل گئے تو وہاں ایک نوجوان کو غزل گاتے سن کر بہت جی خوش ہوا۔ بعد میں مسعود اشعر نے ان سے ملاقات کرائی۔ ان کا نام خلیل احمد تھا۔ بہت اچھے اور دلچسپ آدمی تھے اور ان دنوں مسعود اشعر کے ساتھ ہی رہا کرتے تھے۔ خلیل احمد کو گلو کار بننے کا شوق تھا۔ ویسے کسی انگریزی کمپنی میں ملازم تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ فلم ’’گلنار‘‘ کے لئے میڈم نور جہاں کے ساتھ ایک ڈوئیٹ بھی گا چکے ہیں جو کہ ایک نئے گلوکار کے لئے بہت بڑا اعزاز تھا۔ خلیل احمد کی آواز میں مٹھاس اور سریلا پن تھا مگر وہ گلوکار نہ بن سکے۔ کچھ عرصے بعد موسیقار بن گئے ہماری پہلی فلم ’’کنیز‘‘ کے موسیقار بھی خلیل احمد ہی تھے۔
خلیل احمد اور مسعود اشعر کی دعوت پر ہم ان کے گھر بھی گئے۔ یہ مکان اور فلیٹ کی ملی جلی شکل تھی۔ میکلوڈ روڈ پر ایک مکان کی دوسری منزل پر چند کمرے تھے جن میں یہ رہا کرتے تھے۔ ان کے برابر والے کمرے میں ایک چھوٹے قد کے گول مٹول نوجوان‘ ایک سنجیدہ مزاج خان صاحب کے ساتھ رہتے تھے۔ گول مٹول‘ نوجوان کا نام قمر زیدی تھا۔ یہ گلنار میں امتیاز علی تاج صاحب کے اسسٹنٹ تھے۔ ہم یہ سن کر بہت مرعوب ہوئے۔ وہ ہمیں ’’گلنار‘‘ کے قصے سناتے رہے۔
قمر زیدی بہت ہنسنے ہنسانے والے آدمی تھے۔ لطیفے تو سناتے ہی تھے مگر نقلیں اتارنے میں بھی انہیں مہارت حاصل تھی۔ ہر اداکار کی وہ ایسی نقل اتارتے کہ نقشہ کھینچ کر رکھ دیتے۔ ’’گلنار‘‘ کے ہدایت کار امتیاز علی تاج تھے۔ شوکت تھانوی پہلی بار کسی فلم میں اداکاری بھی کر رہے تھے۔ ببوبیگم اپنے زمانے کی بہت نامور اور دولت مند ہیروئن تھیں۔ سنا ہے کہ وہ اپنے جوتوں میں ہیرے لگواتی تھیں۔
یہ وہی ببو بیگم ہیں جن سے ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے والد سر شاہ نواز بھٹو نے شادی بھی کی تھی۔ کچھ لوگ کہتے ہیں یہ باقاعدہ شادی نہیں تھی لیکن کافی عرصے تک ببو بیگم ان کے نام سے منسوب رہیں اور ان کا تذکرہ بڑے پیار اور احترام سے کیا کرتی تھیں۔ بھٹو صاحب برسراقتدار آئے تو انہوں نے ببو بیگم کو مالی امداد اور زمین بھی دی تھی۔ ببو بیگم اپنی جوانی میں تو حشر سامانیاں کرتی ہی تھیں مگر جب ہم نے انہیں دیکھا تو ادھیڑ عمر ہو چکی تھیں۔ جسم فربہ ہو گیا تھا‘ رنگ سانولا تھا مگر نقش و نگار بہت تیکھے اور دلکش تھے۔ وہ بے اولاد تھیں اور زندگی کے آخری سال انہوں نے اپنے جاننے والوں کے گھروں میں کاٹے۔ اگلے وقتوں میں لاکھوں کمائے اور لاکھوں ہی لٹائے۔ کہتے ہیں کلکتہ یا بمبئی کی کسی دکان میں جاتی تھیں تو ساری دکان خرید لیتی تھیں۔ اس شاہانہ اصراف کا نتیجہ یہ ہوا کہ بڑھاپے کے لئے کچھ بھی بچا کر نہ رکھا۔ آخر وقت تک معاش کے لئے فلموں میں کام کرتی رہیں۔ جس کسی کے گھر رہتیں اسے اپنے اخراجات کی رقم دینے کی کوشش کرتیں۔ اگر پیسے پاس نہ ہوتے تو گھر کے کام اور دیکھ بھال کر کے اس احسان کو اتارنے کی کوشش کرتیں۔ بڑی وضع دار اور خود دار خاتون تھیں۔ کسی پر بوجھ بننا انہوں نے کبھی پسند نہیں کیا۔ بہت کسمپرسی کے عالم میں ان کا انتقال ہوا۔
ببو بیگم کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ ہر وقت ہنستی ہنساتی رہتی تھیں۔ کیا مجال جو کبھی غمگین یا سنجیدہ نظر آجائیں۔ حاضر جوابی اور فقرہ بازی میں ان کا مقابلہ کرنا آسان نہیں تھا۔ کسی پر بھی فقرہ کسنے سے باز نہیں رہتی تھیں۔ سبھی ان کا لحاظ اور احترام کرتے تھے۔
ہماری اس وقت تک ببو بیگم سے ملاقات نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی ’’گلنار‘‘ کی شوٹنگ دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ قمر زیدی نے ’’گلنار‘‘ کے سیٹ کا ایسا دلچسپ اور بھر پور نقشہ کھینچا کہ ہنستے ہنستے ہم سب کا برا حال ہو گیا اور خود ہمیں بھی ’’گلنار‘‘ کی شوٹنگ پر جانے کا اشتیاق پیدا ہو گیا ’’گلنار‘‘ کی شوٹنگ عموماً رات کے وقت ہوا کرتی تھی اور رات کے وقت اسٹوڈیو جانا ہمارے بس میں نہ تھا مگر قمر زیدی کی باتوں نے ہمیں مجبور کر دیا کہ ’’گلنار‘‘ کے سیٹ پر ضرور جائیں۔ قمر زیدی نے بھی ہماری مدد کی اور کہا کہ وہ ہمیں لے جانے اور لانے کے لئے گاڑی کا بندوبست کرا دیں گے۔
قمر زیدی کے بارے میں اتنا بتا دیں کہ یہ وہی قمر زیدی ہیں جنہوں نے کراچی جا کر بیرون ملک پاکستان کی پہلی فلم ’’رشتہ ہے پیار کا ‘‘ بنائی تھی۔ اس فلم میں وحید مراد اور زیبا مرکزی کرداروں میں تھے۔ یورپ کے کئی شہروں میں اس فلم کی شوٹنگ ہوئی تھی۔ اتنے عرصے بیرون ملک ساتھ رہنے کی بنا پر یہ افواہیں بھی گرم ہونے لگی تھیں کہ زیبا اور وحید مراد کی شادی ہونے والی ہے مگر یہ محض افواہ اور قیاس آرائی ہی رہی۔
قمر زیدی نے فلم ’’سالگرہ ‘‘ بھی بنائی جس کے تمام گانے آج بھی ہٹ ہیں۔ گیت کار شیون رضوی ہندوستان سے نئے نئے آئے تھے۔ ان کے لکھے ہوئے نغموں کی دھنیں موسیقار ناشاد نے بنائی تھیں اور ایسی کہ وہ امر ہو گئے مثلاً
لے آئی پھر کہاں پر قسمت ہمیں کہا ں سے
یہ توو ہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے
شیون رضوی صاحب بہت اعلیٰ پائے کے نغمہ نگار تھے۔ بعد میں فلم ساز اور ہدایت کار بن گئے تو ’’میری زندگی ہے نغمہ‘‘ جیسی ہٹ فلم بنائی۔
قمر زیدی بہت ہنسوڑ اور لطیفہ باز بلکہ لطیفہ ساز تھے۔ ہم سب ان سے کہا کرتے تھے کہ بھائی تم کس چکر میں پڑگئے ہو۔ ہدایت کاری کا خیال چھوڑ و اور کامیڈین بن جاؤ تو خوب کماؤ گے۔ پاکستان کے گوپ کہلاؤ گے۔ مگر زیدی نے ہمت نہ ہاری اور آخر کار ہدایت کار بن کر ہی دم لیا۔ قسمت نے پہلی فلم ہی سپر ہٹ بنوا دی۔ ان کی آخری فلم ’’پالکی‘‘ تھی۔ اس کے فلم ساز کراچی کے تھے مگر یہ لاہور میں بنی تھی۔ محمد علی‘ ندیم‘ زیبا اور روحی بانو اس فلم کے اہم اداکار تھے۔ یہ فلم کافی عرصے میں تیار ہوئی اور زیادہ کامیاب نہ ہو سکی۔ قمر زیدی ادھیڑ عمری سے پہلے ہی وفات پا گئے۔ آخر عمر میں ہنسنا ہنسانا بھول گئے تھے۔ غم روز گار نے انہیں ایک مختلف آدمی بنا دیا تھا۔
میکلوڈ روڈ کے مذکورہ بالا فلیٹ میں کئی شاعروں ادیبوں اور فلم کے امیدواروں کا آنا جانا تھا مگر یونس راہی دوستوں کے حلقے میں شامل تھے۔ آگے چل کر وہ بھی مصنف اور ہدایت کار بنے۔ خاموش مگر دلچسپ آدمی تھے۔ انہوں نے بھی زیادہ عمر نہیں پائی۔ اکثر مالی پریشانیوں میں مبتلا رہتے تھے۔ جس کی وجہ دو شادیاں تھیں۔ انہوں نے ایک ابھرتی ہوئی ایکٹریس سے دوسری شادی کر لی تھی اور اس کے بعد بے سکون اور مالی اعتبار سے پریشان ہی رہے۔
اس فلیٹ کی ایک اور تاریخی اہمیت بھی تھی۔ فلیٹ کے اوپر جانے کی سیڑھیوں سے پہلے تھوڑی سی کھلی جگہ تھی۔ کسی زمانے میں برصغیر کے نامور گلو کار محمد رفیع اس جگہ بیٹھ کر لوگوں کو گانا سنایا کرتے تھے۔ اس وقت انہیں گلوکار بننے کا شوق تھا مگر امکان کوئی نہیں نظر آتا تھا۔ قسمت مہربان ہوئی تو بمبئی پہنچ گئے اور فلمی دنیا کے بہت بڑے گلو کار بن گئے۔ ہم لوگ مذاق میں خلیل احمد سے کہا کرتے تھے کہ بھائی تم بھی نیچے سیڑھیوں میں بیٹھ کر گایا کرو۔ اس طرح تم بھی رفیع کی طرح بڑے گلوکار بن جاؤ گے۔ مگر خلیل احمد تعلیم یافتہ اور نخرے والے آدمی تھے۔ وہ تو فرمائش پر بھی کسی کو گانا نہیں سناتے تھے‘ دوستوں کی محفل کی بات اور ہے۔

جاری ہے۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

(علی سفیان آفاقی ایک لیجنڈ صحافی اور کہانی نویس کی حیثیت میں منفرد شہرہ اور مقام رکھتے تھے ۔انہوں نے فلم پروڈیوسر کی حیثیت سے بھی ساٹھ سے زائد مقبول ترین فلمیں بنائیں اور کئی نئے چہروں کو ہیرو اور ہیروئن بنا کر انہیں صف اوّل میں لاکھڑا کیا۔ پاکستان کی فلمی صنعت میں ان کا احترام محض انکی قابلیت کا مرہون منت نہ تھا بلکہ وہ شرافت اور کردار کا نمونہ تھے۔انہیں اپنے عہد کے نامور ادباء اور صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور بہت سے قلمکار انکی تربیت سے اعلا مقام تک پہنچے ۔علی سفیان آفاقی غیر معمولی طور انتھک اور خوش مزاج انسان تھے ۔انکا حافظہ بلا کا تھا۔انہوں نے متعدد ممالک کے سفرنامے لکھ کر رپوتاژ کی انوکھی طرح ڈالی ۔آفاقی صاحب نے اپنی زندگی میں سرگزشت ڈائجسٹ میں کم و بیش پندرہ سال تک فلمی الف لیلہ کے عنوان سے عہد ساز شخصیات کی زندگی کے بھیدوں کو آشکار کیا تھا ۔اس اعتبار سے یہ دنیا کی طویل ترین ہڈ بیتی اور جگ بیتی ہے ۔اس داستان کی خوبی یہ ہے کہ اس میں کہانی سے کہانیاں جنم لیتیں اور ہمارے سامنے اُس دور کی تصویرکشی کرتی ہیں۔ روزنامہ پاکستان آن لائن انکے قلمی اثاثے کو یہاں محفوظ کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہے)