کنٹرول لائن کشیدگی کا حل؟
پاکستان نے کشمیر کی کنٹرول لائن پر بھارتی فوج کی اشتعال انگیزی کے خلاف بھارت کے سفارت خانے کے ڈپٹی ہائی کمشنر کو مسلسل دوسرے روز دفترِ خارجہ طلب کرکے شدید احتجاج کیا۔ ڈپٹی ہائی کمشنر جے پی سنگھ کو جمعرات کے روز بھی دفتر خارجہ میں طلب کرکے احتجاجی مراسلہ اُن کے حوالے کیا گیا تھا، جمعہ کو طلبی بھمبھر سماہنی سیکٹر پر بھارتی فوج کی جانب سے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیوں پر شدید احتجاج کیا گیا، فائرنگ سے نہالہ گاؤں کا ایک شہری شہید اور ایک بچہ زخمی ہوا تھا، مجموعی طور پر سالِ رواں کے آغاز سے اب تک 20 شہری شہید اور 71 زخمی ہو چکے ہیں۔
بھارت کی طرف سے سیزفائر کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ رکنے میں نہیں آ رہا اور سفارتی سطح پر احتجاج کا سلسلہ بھی بظاہر بے اثر ثابت ہو رہا ہے۔ بھارت میں بعض سیاسی رہنما اور فوج کے کئی کمانڈر بھی دھمکیوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور چین اور پاکستان کے ساتھ بیک وقت جنگ چھیڑنے کی باتیں کی جاتی ہیں تاہم بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں نے اپنے وزیراعظم نریندر مودی کو خبردار کیا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کے معاملے پر بند گلی میں داخل ہو چکے ہیں حالانکہ مقبوضہ کشمیر کے حالات اِس امر کے متقاضی ہیں کہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات شروع کرکے بات چیت کے ذریعہ مسئلہ حل کیا جائے تاکہ دونوں ملکوں میں تعلقات معمول کی سطح پر بحال ہو سکیں۔ دو روز قبل امریکہ نے بھی بھارت اور پاکستان کو مشورہ دیا تھا کہ وہ تعلقات معمول پر لانے کے لئے براہ راست مذاکرات کریں، لیکن ایسے بیانات تو امریکہ اور دوسرے ملک پہلے بھی دیتے رہتے ہیں۔ مودی پر ان کا کیا اثر ہوتا ہے جو اپنے کشیدگی کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں اور ’’سرجیکل سٹرائیک‘‘ کے فسانے بھی تراشتے رہتے ہیں۔
جہاں تک مذاکرات کا تعلق ہے پاکستان ان پر ہمیشہ تیار رہتا ہے، لیکن بھارت نے اِس سلسلے میں گریز پائی کا رویہ اختیار کیا ہے اور اگر کبھی مذاکرات شروع بھی ہو گئے ہیں تو اُن کا بھی کوئی خاص نتیجہ نہیں نکلا کہ ایسے مذاکرات کے دوران بھی بھارت ہمیشہ وقت گزاری کرتا ہے۔ چند روز تک اِدھر اُدھر کی بے کار باتوں کے بعد یہ سلسلہ ختم ہو جاتا ہے، اب تو طویل عرصے سے مذاکرات شروع ہی نہیں ہو سکے، البتہ کنٹرول لائن پر بھارتی اشتعال انگیزیاں بڑھتی جا رہی ہیں، فائرنگ سے بے گناہ اور معصوم شہری شہید ہو رہے ہیں اور کنٹرول لائن کے قریب واقع دیہات میں لوگوں کی زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی ہے، وہ اپنے کھیتوں میں معمول کے کام کر رہے ہوتے ہیں کہ اچانک بھارتی فائرنگ کی زد میں آ جاتے ہیں، سکول کے بچوں کی ایک وین کو بھی فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا، اِس طرح سکولوں کی عمارتوں پر بھی حملے کئے گئے۔
پاکستان نے اِن حملوں پر صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ہے تاہم بعض اوقات یہ پیمانہ لبریز بھی ہو جاتا ہے اور جوابی کارروائی بھی کرنا پڑتی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ ہائی کمشنر کو دفترِ خارجہ بلا کر احتجاجی مراسلے کب تک حوالے کئے جاتے رہیں گے اور کیا یہ سلسلہ کسی جگہ رُک بھی پائے گا؟ پاکستان کو یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں اُٹھانے کا اہتمام کرنا چاہئے تاکہ دنیا کو کنٹرول لائن کی کشیدہ صورتِ حال اور خطے کے امن پر اِس کے منفی اثرات سے آگاہ کیا جا سکے، ایسے محسوس ہوتا ہے کہ یہ حالات اگر اِسی طرح آگے بڑھتے رہے تو دونوں ملکوں کی یہ کشیدگی وسیع تر جنگ کا پیش خیمہ بن سکتی ہے جو خرمنِ امن کو بھسم کرکے رکھ دے گی، کنٹرول لائن پر اقوامِ متحدہ کے مبصرین تو عشروں سے متعین ہیں اور وہ اپنی رپورٹس بھی بھیجتے رہتے ہیں لیکن ایسے لگتا ہے کہ یہ سب کارروائیاں ایک روٹین کی مشق بن کر رہ گئی ہیں۔ عالمی ادارہ بھی اپنے فرائض سے کماحقہ عہدہ برا نہیں ہو رہا، ورنہ کچھ نہ کچھ نتیجہ تو ضرور نکلتا۔
کنٹرول لائن پر یہ صورتِ حال ہے تو مقبوضہ کشمیر میں بھی ظلم و ستم کا سلسلہ رکنے میں نہیں آ رہا۔ اس کے باوجود کشمیری عوام بلا جھجھک مظاہرے کر رہے اور دھرنے دے رہے ہیں، سری نگر کے لال چوک میں حریت قیادت کی کال پر جمعہ کے روز بھی احتجاجی مظاہرہ ہوا اور دھرنا دیا گیا۔ بھارتی فوج نے مقبوضہ کشمیر کے ضلع باندی پورہ میں ایک روز قبل نوجوان کو شہید کرکے نعش قبضہ میں کر لی تھی جسے گزشتہ روز ورثا کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ اِس کے لئے بھی دھرنا دیا گیا جس پر مظاہرین کی فوج سے جھڑپیں ہوگئیں، کیمپ کے باہر دھرنے کے شرکا تدفین کے لئے نعش حوالے کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ مقبوضہ کشمیر میں مظاہروں کا سلسلہ شدید موسم میں بھی جاری رہا۔
ایک جانب مقبوضہ کشمیر میں یہ صورتِ حال ہے اور دوسری طرف کنٹرول لائن پر جاری اشتعال انگیزیوں کی وجہ سے خطے کا امن ہر وقت داؤ پر لگا ہوا ہے، ایسے میں اقوام متحدہ کو حالات کی بہتری کے لئے کردار ادا کرنا چاہئے، جس کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ بھارت اقوام متحدہ کی نگرانی میں مذاکرات پر تیار ہو جائے اور کشمیر کا مسئلہ فریقین کے اطمینان کے مطابق حل کر لیا جائے، لیکن بھارت نے اِس سلسلے میں اقوام متحدہ کے سابق اور موجودہ سیکرٹری جنرل کی ثالثی کی تجاویز ہمیشہ مسترد کر دی ہیں۔ اِس لئے تعلقات کی بہتری کے لئے کی جانے والی تمام کوششیں اکارت جا رہی ہیں۔ اِن حالات میں سوال یہ ہے کہ اگر بھارت مذاکرات پر بھی آمادہ نہیں اور کنٹرول لائن پر جنگ بندی معاہدے کی پابندی بھی نہیں کرتا جو 2003ء میں ہوا تھا تو آخر کس طریقے سے امن کے قیام کی ابتدا کی جا سکتی ہے۔ پاکستان کی حکومت کو اِس سلسلے میں کوئی ٹھوس لائحہ عمل تیار کرکے پرجوش سفارتی مہم شروع کرنی چاہئے اور بھارت کے خطرناک عزائم سے پوری دنیا کو باخبر کرنا چاہئے۔ محض زبانی کلامی اور تحریری احتجاج کا سلسلہ آخر کب تک جاری رکھا جا سکتا ہے؟