حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر28

حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر28
حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر28

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

عمرؓ کے قبولِ اسلام کا تو میں چشم دید گواہ ہوں لیکن اُن کے پہلی مرتبہ آنے اور دوسری مرتبہ آنے کے درمیان ایک گھنٹے میں کیا معجزہ رونما ہوا، اس کی تفصیل مجھے بعد میں خباّبؓ نے بتائی۔
خباّب بن ارتؓ لوہار تھے اور اپنے فولاد کی طرح سچے اور قابلِ اعتماد۔ جس وقت عمرؓ اپنی ہمشیرہ کے گھر پہنچے تو خباّبؓ وہاں پہلے سے موجود تھے۔ وہ اکثر ان میاں بیوی کو قرآن سنانے جایا کرتے تھے۔ عمرؓ دروازے پر ہی اُن کی آواز سن کر ٹھٹکے۔ عجیب و غریب قسم کے الفاظ اُن کے کانوں میں پڑے تو اُن کا ماتھا ٹھنکا۔ وہ سمجھ گئے کہ نعیم کی اطلاع ٹھیک تھی۔ جیسے ہی وہ گھر میں داخل ہوئے، خباّبؓ اُن کی آہٹ سن کر گھر میں کہیں چھپ گئے اور جاتے جاتے قرآنی آیات کا مسودہ فاطمہ بنتِ خطابؓ کو دے گئے۔ فاطمہؓ نے فوراً وہ تحریر اپنے کپڑوں میں چھپا لی اور سہم کر اپنے شوہر سعید بن زیدؓ کے پیچھے کھڑی ہو گئیں۔ عمر، سعیدؓ کی طرف بڑھے تو فاطمہؓ بیچ میں آ گئیں۔ عمر نے اس زور سے اُن کے منہ پر تھپڑ مارا کہ اُن کا چہرہ لہولہان ہو گیا۔ پھر عمر نے کہا’’ مجھے بتاؤ یہاں کیا پڑھا جا رہا تھا۔ مجھے وہ تحریر لا کر دو کہ میں خود پڑھوں، اس میں کیا لکھا ہے‘‘

حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر27 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
فاطمہ نے نہایت پر اعتماد لہجے میں کہا کہ آپ بُتوں کے پجاری ہیں۔ میں یہ تحریر ناپاک ہاتھوں میں نہیں دے سکتی۔ ہمشیرہ کے منہ سے یہ الفاظ سن کر عمر انہیں غور سے دیکھنے لگے۔ اُن کے چہرے سے اب بھی خون بہہ رہا تھا۔ وہ خاموشی سے گئے اور غسل کر کے واپس آ گئے۔ فاطمہؓ کو بھی اندازہ ہو گیا کہ اُن کے غصے کی شدت کم ہو گئی ہے۔ انہوں نے وہ تحریر اُن کے حوالے کر دی اور عمر نے آہستہ آہستہ پڑھنا شروع کر دیا۔ فاطمہؓ اور سعیدؓ کی نظریں اُن پر گڑی ہوئی تھیں۔ دونوں اُن کے چہرے سے اُن کے قلبی تاثرات پڑھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ یہ قرآنِ حکیم کی سورہ طہٰ کا ایک صفحہ تھا جو حال ہی میں نازل ہوئی تھی۔ حُسن ور مزیت کے اس مرقعے کو انہوں نے شرح و تفسیر سے ماوراء پایا۔
اللّٰہ لاَ اِلٰہَ اِلّا ھُو ط لَہُ الْاَ سمآء الْحُسنیٰ (ک 8طہٰ 20)
(وہ معبود برحق ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ اُس کے سب نام اچھے ہیں)
عمر پڑھتے جاتے تھے اور ہر لفظ کے ساتھ حیرت میں ڈوبتے جاتے تھے۔ کلامِ الٰہی کا جلال، اُس کا جمال اُن کے رگ و پے میں پیوست ہو کر شمعیں روشن کرتا جاتا تھا۔ جب اس آیت پر پہنچے۔ تو وہ سر سے پاؤں تک لرز گئے۔
اِنَّبنَی اَنَا اللّٰہ لا الہ الا اَنَا فَا عْبُدنْیِْ وَاَقِمِ الصّلٰوۃَ لِذِکِرْی ، (13ک طہٰ 20)
(بیشک میں ہی اللہ ہوں۔ میرے سوا کوئی معبود نہیں۔ تو میری عبادت کیا کرو اور میری یاد کے لئے نماز پڑھا کرو)
عمرؓ نے خود مجھے بعد میں بتایا کہ اُنہیں ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے قرآن کی شوکتِ الفاظ اور حکمتِ ابدی کا دریا انہیں تنکے کی طرح بہائے لیے جا رہا تھا۔ انہیں اپنے اندر ایک حلاوت سی سرائیت کرتی محسوس ہوئی۔ ظاہر و باطن ایک ہو گیا تو سب کو اُن کی کیفیت کا علم ہو گیا۔ خباّبؓ بھی باہر نکل آئے اور اُن سے مخاطب ہو کر کہنے لگے:
’’رسول اللہ نے کل ہی دُعا کی تھی کہ یا اللہ ابن خطاب یا ابنِ ہشام میں سے کسی ایک کے ذریعے اسلام کو تقویت پہنچا‘‘
اور پھر جس جس طرح اللہ تعالیٰ نے عمر کے ذریعے اسلام کو تقویت بخشی اس کا حال اظہر من الشمس ہے۔
ابوجہل
غلاموں اور آزاد لوگوں کی سوچ میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ آزادی اور غلامی، زندگی کے دو دھارے ہیں جو الگ الگ بہتے رہتے ہیں اور اپنے بہاؤ کی سمتیں خود متعین کرتے ہیں، ہم غلام کیا تھے، چند حشرات الارض جو آتے جاتے موسموں کے ساتھ پیدا ہوتے اور مرتے رہتے ہیں۔ ہمارا دائرہ حیات بہت محدود تھا۔ ہماری خرید، ہماری فروخت، ہماری قیمت، ہمارا آقا، ہمارے آقا کا مزاج، اپنے غلاموں سے اُس کا سلوک اور بس۔ یہی ہماری ساری کائنات تھی، یہی ہماری زندگی کا محور۔ اس کے علاوہ ہمارے اردگرد جو بھی ہوتا رہتا تھا، اُس کے ہم خاموش تماشائی تھے۔ دوسرے غلاموں سے ہمارے میل جول کے مواقع بہت کم ہوتے تھے مگر ہم جب بھی ملتے، یہی چند موضوع ہماری گفتگو کا مرکز ہوتے۔ یہ ہم غلاموں کو بھی علم تھا کہ مکی زندگی ایک انقلاب سے دوچار تھی۔ ایک طرف محمدؐ ابن عبداللہ تھے اور دوسری طرف مکے کے بڑے بڑے سردار، رئیس، تاجر۔ سارے کے سارے سانپوں اور بچھوؤں کی طرح محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی تحریک کو زک پہنچانے کے درپے تھے۔ 
ابوجہل کا معاملہ باقی مشرکین مکہ سے مختلف تھا۔ وہ خود بھی اُن سب سے مختلف تھا۔ قریش کے سرداروں کی کچھ خاندانی اور قبائلی قدریں تھیں جنہیں وہ جان سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔ ان کے علاوہ وہ عرب کی وسیع تر ثقافت کا حصہ بھی تھے۔ اور اس مناسبت سے اُن پر صحرائے عرب کی مجموعی روایات کی پاسداری کی بھی ذمے داری تھی۔ یہی نہیں، محافظِ کعبہ ہونے کی حیثیت سے قریشِ مکہ سارے عرب قبائل میں ایک مرکزی حیثیت رکھتے تھے۔ اُن کا سب قبائل سے براہِ راست واسطہ تھا۔ متولیانِ کعبہ ہونے کا اعزاز اور قبائل سے قریبی تعلق اس مر کے متقاضی تھے کہ وہ نہ صرف عربوں کی اجتماعی روایات کے علمبردار ہوں بلکہ اس ضمن میں وہ کردار پیش کریں جو مثالی اور قابلِ تقلید ہو۔ قریشِ مکہ کا خمیر انہی اجزائے ترکیبی سے اٹھا تھا۔ یہی ساری قدریں ابوجہل کو بھی وراثت میں ملی تھیں اور وہ بظاہر اُن پر عمل پیرا ہونے کا دعوے دار بھی تھا مگر اُس کی اپنی سوچ میں اپنے اجداد کے مذہب اور روایات کے تقدس کی بجائے ذاتی منفعت اور خودغرضی کا جذبہ مقدم تھا۔

یوٹیوب چینل سبسکرائب کرنے کیلئے یہاں کلک کریں
ابوجہل تمام عمر ایک خواہش کی آگ میں جلتا رہا۔ یہ اُس کی زندگی کی واحد خواہش تھی جو اُس کے ہر فکر و عمل کے پس منظر میں جھلکتی رہتی تھی۔ وہ چاہتا تھا کہ اپنے ضعیف چچا، ولید کی وفات کے بعد خاندان مخزومی کا سربراہ بن جائے۔ اس منصب کا وہ اتنی شدت سے متمنی تھا کہ اس کے لئے سب کچھ کر گزرنے کو تیار رہتا تھا۔ وہ صاحبِ ثروت تھا مگر اپنی دولت کی ایک ایک پائی اور اپنا سارا وقت اپنی ذاتی شہرت اور نیک نامی حاصل کرنے پر خرچ کرتا تھا۔ یہی اُس کی مہمان نوازی اور سخاوت کا پس منظر تھا، یہی اس کی میل ملاقات کا۔ قریش کے مذہبی عقائد کا وہ پابند ضرور تھا لیکن اُن کا تحفظ اُس کے نزدیک اتنا اہم نہیں تھا جتنا کہ اپنے تقرر اعلیٰ کے لئے فضا ہموار کرنے کا کام۔ وہ اکثر اپنے ہم منصبوں کی ضیافت کا اہتمام کیا کرتا تھا مگر مہمان نوازی کی عظیم عرب روایت کے سلسلے میں نہیں، محض اس لئے کہ قریش کے سرداروں میں اثر رسوخ رہے۔ دوسروں کے کام آنے میں بھی اُس کا بنیادی مقصد یہی تھا کہ صاحب الرائے حضرات میں اُس کی ساکھ بڑھے اور وقت آنے پر اُن کی رائے اُس کے حق میں ہو۔ 
ذاتی کردار اُس کا یہ تھا کہ شہر کی ہر سازش اُس کے ذہن سے شروع ہوتی تھی۔ بڑوں سے اُس کا رویہ خوشامدانہ تھا ہم مرتبت لوگوں سے مصالحانہ اور کم حیثیت افراد سے معاندانہ بلکہ سفاکانہ۔ سارے مکے میں وہ ظلم و تشدد کی علامت بنا ہوا تھا۔ مخالفین سے نمٹنے کے لئے وہ انتہائی بیدردی کا مظاہرہ کر گزرتا تھا۔(جاری ہے )

حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر29 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں